آج کاہر نوجوان حوصلہ مند بھی ہے
اور جواں مرد بھی ،یہ دعویٰ کرناتھوڑا مشکل ہے۔ فی زمانہ چونکہ تمام جانب
مقابلہ آرائی کا رجحان عام ہو چکا ہے اورتعلیم سے روزگار تک کے حصول کے سفر
میں انہیں سخت آزمائش سے دو چار ہونا پڑتا ہے،لہٰذاانہیں ہونے والی
دشواریوںکی وجہ سے بسااوقات ذہنی خلجان مستعارلیناپڑجاتاہے۔اور یوں الجھنوں
میں گھراآج کے نواجوانوںکا ایک بڑا طبقہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوجاتا
ہے۔ہمت اور حوصلہ جواب دے جاتاہے تو ایسی جماعت سے تعلق رکھنے والی نئی نسل
کانمائندہ فردانجام کارخودکشی کے ذریعہ اپنی زندگی کاقصہ ہی تمام کر لیتا
ہے۔در اصل ناکامیوں کو برداشت نہ کرنے والوں کیلئے خود کشی پر مجبور ہوجانا
واحد متبادل بن جاتا ہے ۔ سنہرے خوابوں اور قیمتی زندگی کا خاتمہ گوکہ کوئی
بھی خوشی سے نہیں کرے گامگر یہ رجحان کیوں پنپ رہاہے،یہ ایک قابل غور سوال
ضرور ہے۔اگرکوئی خود کشی جیسا بڑا قدم اٹھاتاہے یااس کی کوشش بھی کرتا ہے
تو اس کے پیچھے اس کی کوئی بہت بڑی مجبوری یا وجہ ضرور رہتی ہے۔کچھ عرصہ
پہلے تک جب انفرادی زندگی کا سفر اتنا پیچیدہ نہیں تھا، انسان کی خواہشیں
اور ضروریات بھی محدود تھیں تب خود کشی جیسے معاملات کم ہی دیکھنے کو ملتے
تھے لیکن گزشتہ چند برسوں میں زندگی کی پریشانیوں سے تنگ آکر انتہائی قدم
اٹھانے کارجحان بہت زیادہ بڑھا ہے۔یوں تو یہ اضافہ پوری دنیا میں ہوا ہے
لیکن سب سے زیادہ اضافہ ہمارے ملک ہندوستان میں ہی ہوا ہے جس کا اندازہ ملک
کے عام باشندوں کے ساتھ ساتھ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے افراد کو بھی
ہے،جس کا اظہاران کی فکرمند یوں سے ہوتا رہتا ہے ۔
ابھی حال ہی میں اس قسم کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس نے ملک کے ہر
سنجیدہ طبقہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہو سکتی
ہے اور اس سے بچاﺅ کی خاطر کیا تدابیر اختیار کئے جا سکتے ہیں ۔یہ بات
یقینا افسوس اور تشویش کا باعث ہے کہ ہمارے ملک میں گزشتہ دو سالوں میں860
5طلبا ءنے خود کش کی ہے۔یہ معلومات مرکزی انسانی وسائل کی ترقی ریاستی وزیر
ڈاکٹر پورن دیشوری نے گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں ایک تحریری سوال کے جواب
میں فراہم کیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ قومی جرم ریکارڈ
ذرائع کے دستاویزات کے مطابق 2010 اور 2011 میں479 2 خود کشی کرنے کی کئی
وجوہات ہو سکتے ہیں، جیسے گھر کی اقتصادی پریشانی، دوستو کی طرف سے ناروا
سلوک، محبت میں ناکامی یا محبوب کاساتھ چھوڑجانا، ماں باپ سے ناراض گی،
امتحان میں فیل ہونا، بے روزگاری، قرض کا بوجھ وغیرہ۔ یہ ساری باتیں ہمارے
سماج میں نئی تو نہیں ہیں۔ ایسی پریشانی پہلے بھی لوگو ںکولاحق ہوتی تھی،
لیکن اب ایسا کیا نیا ہے، جو نوجوانوں کواندرسے کمزور بنا رہا ہے،ایسا کیا
ہو جاتا ہے کہ ان کے اندر جینے کی چاہت ختم ہو جاتی ہے۔ہندوستان میں شرح
خواندگی پہلے ہی تشویشناک ہے، اس پر ایسے افسوس ناک واقعات سے تعلیم کے
فروغ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔کسان سمیت طالب علموں کے
درمیان بڑھتے اس رجحان پر اس سے قبل بھی گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن اس کا کوئی
خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے ۔اس لئے بھی ملک کے سنجیدہ افراد اس معاملہ
کو لیکر تشویش میں مبتلا ہیں ۔
یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ خود کشی میٹرو سٹی دہلی میں
ہوئی ہے۔اسی طرح اگر بڑے اداروں کی بات کریں تو ملک بھر میں آئی آئی ٹی
سمیت کئی دیگر انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں طلبا کے ذریعہ خود کشی کرنے
کی شرح زیادہ ہے۔تعلیم کی سطح پر کافی اعلٰی درجے کی ریاستوں جیسے تمل
ناڈو، کیرالا، آندھرا پردیش، کرناٹک، مغربی بنگال اور مہاراشٹر میں خود کشی
کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ان پانچ ریاستوں میں ہونے
والی خودکشیاں ملک میں ہونے والی کل خودکشیوں کا 57.2 فیصد ہے۔ملک کی
موجودہ سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حالت کچھ ایسی ہو گئی ہے، جس کی
وجہ سے طلباءکی پوشیدہ سلاحیتیں ابھر نہیں پا رہی ہیں۔وہ طلباءجو کل کو
نیوٹن، کوئی اسنسٹائنبن، گاندھی ، ٹیگور ،علامہ اقبال ،علی جوہر اور نہ
جانے کیابن سکتے تھے، اگر خود کشی سے ہار نہ مانتے، لیکن حکومت کو اس کی
پرواہ نہیں ہے۔اس نے ابھی تک اس معاملہ میں کوئی بھی سنجیدہ قدم نہیں
اٹھائی ہے اور نہ ہی اس کے وجوہات جان کراس رجحان پر قابو پانے کی کوشش کر
رہی ہے۔حالانکہ ہندوستان کو نوجوانوں کی طاقت کا ملک کہا جاتا ہے، جہاں 65
فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر کی ہے۔رجسٹرار جنرل آف انڈیا کی رپورٹ کے
مطابق03 2001- کے درمیان پندرہ سال کے ارد گرد کی عمر کے صرف تین فیصد
لوگوں کی موت کا سبب خود کشی تھی، جبکہ 2010 میں 15-29 سال کی عمر کے
1,87,000افراد نے خودکشی کی ، جو ملک میں ہونے والی کل خودکشیوں کا 40 فیصد
ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق2010 میں ہندوستان میں ایک لاکھ 90 ہزار لوگوں
نے خود کشی کی اور دنیا بھر میں ہر سال تقریبا ایک ملین افراد خودکشی کرتے
ہیں۔ 2009 میں کئے گئے ایک تحقیق کے مطابق ہمارے ملک میں روزانہ 300 افراد
خود کشی کرتے ہیں یعنی ہر گھنٹے 14 اور ہر پانچ منٹ پر ایک خود کشی۔تقریبا
4 لاکھ افراد ہر سال خود کشی کی کوشش میں ناکام رہتے ہیں یعنی فی دن 1100،
فی گھنٹہ 46 اور ہر تین منٹ پر دو لوگ خود کشی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش
میں وہ ملک کی معیشت کو جانے انجانے میںبھاری نقصان پہنچاتے ہیں
یہ انتہائی تشویش کا موضوع ہے جو لوگ ملک کی ترقی کے اگروارث بن سکتے ہیں،
وہ زندگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی جان دینے پر آمادہ ہیں۔ تعلیم حاصل
کرنے والے ان نوجوانوں کو آخر ایسی کون سے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،
جو انہیں اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے دیا کو ہی ہمیشہ
کے لئے گل کر دیں ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کے مستقبل کو ایسا قدم اٹھانا پڑ
رہا ہے، جو موت کے راستے کو جاتا ہے، آخر زندگی کوخوبصورت بنانے کی جدوجہد
لگے یہ نوجوان زندگی سے ہی نقل مکانی کا راستہ کیوں منتخب کر رہے ہیں۔اس پر
ماہرین کا کہنا ہے کہ سماجی استحصال، انٹرنیٹ ،موبائل فون کا زیادہ استعمال
ان واقعات کی اہم وجہ ہے۔ساتھ ہی انھوں نے اس بات کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا
جو کسی بھی صورت میں کامیاب ہونے کےلئے اپنی اولادوں پردباو ڈالتے
ہیں۔بظاہر اداروں کا جواب اصل واقعہ کی وجہ بتانے میں ناکام ہے اور طلباءکی
ضروریات و احساسات کو سمجھ بھی نہیں پائے ہیں، ان کا جواب اس بات کا ثبوت
بلکہ گواہ ہے ۔ایک سروے کے مطابق تعلیمی ادارے میںخود کشی کے واقعات میں
دلت قبائلی طلباءکا تناسب زیادہ ہے اور کہیں نہ کہیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ
تعلیمی اداروں میں بھی دلتوںکے ساتھ تفریق موجودہے۔یہ سبھی جانتے ہیں کہ
گزشتہ ایک دہائی سے خود کشی کے اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، مگر
مذکورہ اعداد و شمار ایوان میں بیٹھے لوگوں کے لئے خاص فکر کا موضوع نہیں
بن رہا ہے۔ ایک آدھ بار اس سماجی مسئلے پرغور کیا بھی گیا لیکن اس کا کوئی
خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
کاش ہمارے منتظمین کی سمجھ میں یہ بات آتی کہ خود کشی کی مار صرف خاندان
والے ہی نہیں جھےلتے، بلکہ یہ ملک کے لئے بھی ایک مسئلہ ہے۔آخر ہمارے سماج
کے تانے بانے میں کیا کمی ہے جو لوگ زندگی کو جینے کے بجائے زندگی کا دیا
گل کر رہے ہیں۔ایسے رجحان کا ذمہ دار کون ہے؟ سماج جہاں ناکام لوگوں کو بری
طرح مسترد کرتاہے، کامیابی کو سماجی وقار سے جوڑ کر دیکھتا ہے خود کشی کرنے
والے وہ لوگ جو زندگی سے جدوجہد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں،اس کا جواب
کسی کو تو دینا ہی ہوگا ۔ایک طرف ملک میں لاکھوں کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوتا
ہے، وہیں دوسری طرف وسائل کی کمی کی وجہ سے لاکھوں لوگ موت کو گلے لگانے کے
لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔گزشتہ 5 برسوں میں تقریبا 5 لاکھ کروڑ روپے کا
گھوٹالہ ہوا۔ یہی نہیں، تقریبا 20 لاکھ کروڑ روپے کالے دھن کے طور پر غیر
ملکی بینکوں میں جمع ہیں۔ اگر اس رقم کے کچھ حصہ کا استعمال خود کشی کو
روکنے یا خود کشی کی کوشش کرنے کے بعد بچ گئے لوگوں کی زندگی سنوارنے میں
کیا جاتا تو تصویر کچھ اور ہوتی۔لیکن حکومت کو لوگوں کی زندگی کی فکر کہاں؟
وہ تو اتنی بے فکر بلکہ سنگ دل ہو گئی ہے کہ خود کشی کی خرابیاں ماننے سے
ہی انکار کرتی ہے۔خودکشی صرف ہندوستان کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس
پیچیدہ مسئلے کا شکار ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پریس والے بھی خودکشی کے
واقعات کو خوب کوریج دے رہے ہیں کیونکہ خودکشی کے واقعات ہر دوسرے دن اخبار
میں پہلے دن کی نسبت زیادہ پڑھنے کو ملتے ہیں۔ معاشرے میں خودکشی کی بڑی
وجہ دین سے دوری‘ ڈیپریشن‘ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بیروزگاری‘ غربت و افلاس‘
بے چینی اور مایوسی بتائی جا رہی ہے ،معاملہ جو بھی یو ان تمام علامات کے
اثرات ہمارے سامنے ایک خوفناک و بھیانک شکل میں آرہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل
اور اس کی روک تھام کیلئے اہل اقتدار طبقہ سمیت ہمیں اس بھیانک مسئلے کے حل
کیلئے ہرممکن کام کرنا ہوگا۔اس فعل قبیح کا پس منظر دیکھنا ہوگا کہ یہ بڑا
و مذموم فعل کن وجوہات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں آیا؟۔اس مذموم فعل کی
روک تھام کیلئے اہل قلم کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس برے و مذموم
فعل کو روکا جاسکے۔ |