ساری دنیا میں جاری انسانوں کی موت کا کھیل

اجرتی قاتلوں کے ہاتھ قتل کرنا کتنا آسان ہے؟
ٹارگٹ کلنگ ، سپاری،کرائے کے قاتل، جیسے جرائم کسی بھی نام سے پکارے جائیں ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ کسی انسان کی موت
کراچی میں ہرسال ہزاروں افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہورہے ہیں۔

ٹارگٹ کلنگ ، سپاری،کرائے کے قاتل، جیسے جرائم کسی بھی نام سے پکارے جائیں ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ کسی انسان کی موت، انسانوں کی موت کا یہ کھیل ساری دنیا میں جاری ہے۔ کراچی ہو یا ممبئی، دہلی ہو یا لاہور، نیو یارک ہو یا لندن ہر جگہ آپ کو کرائے کے قاتل مل جائیں گے۔ سوال اس رقم کا ہے جو آپ اس کام کے لئے خرچ کریں گے۔ یا ان افراد کا انتخاب جو اس کام کو انجام دیں۔اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی جستجو اور دوسروں کو راستے سے ہٹانا، ایک کھیل ہے۔ جو حکومتیں، مافیا، جرائم پیشہ گروپ، ڈان، انٹیلیجنس ایجنسیاں،منشیات فروش تنظیمں، جاسوس ادارے کراتے رہتے ہیں۔ کرائے کے قاتل سربراہ مملکت سے لے کر ایک عام آدمی تک کو قتل کرسکتے ہیں۔ یہ خدمت ایک آدمی، گروپ یا چینل کی صورت میں انجام دی جاسکتی ہے۔ قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے ایک ایک بات اورذرا ذرا سی جزیئات کا خیال رکھتے ہیں۔ بعض ان کو ایسے حادثے کا روپ دیتے ہیں کہ کسی کو قتل کو گمان ہی نہ ہو۔ اور کچھ ایسے دیدہ دلیری سے کرتے ہیں کہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو بھی خاطر میں نہ لائیں۔ دنیا میں ایسے مشہور قتل ہزاروں میں ہیں۔ پہلے بادشاہوں کو زہر دے کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ پھر زمانہ بدلا تو لیاقت علی خان جیسے وزیر اعظم کو راولپنڈی میں بھرے جلسے میں قاتل نے نشانہ بنایا۔ بے نظیر بھٹو کو بھی قاتلوں نے جلسہ عام نہ سہی لیکن عوام کے سامنے قتل کر دیا۔ صدر ضیا الحق کو اتنی مہلت بھی نہ مل سکی کہ جہاز سے باہر آتے۔پاکستان میں سیاسی قتل کی ایک پوری سیریز ہے جو اب بھی چل رہی ہے۔ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل پر تو ہالی وڈ نے فلم بنائی ہے جس میں قاتل کی پوری منصوبہ بندی سامنے ہے۔ بھارت میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کا قتل بھی کرائے کے قاتلوں ہی نے کیا تھا۔

بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کا قتل بھی ایسی ہی سازش کا تانہ بانہ تھی۔اب ایسے گروہ اور جرائم پیشہ افراد کے گروہ موجود ہیں جو انٹر نیشنل طور پر اپنا نیٹ ورک رکھتے ہیں۔ اس بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ قتل کی منصوبہ بندی برطانیہ میں کی جاتی ہے لیکن عمل درآمد پنجاب کے دیہاتوں میں کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل نشریاتی ادارے بی بی سی نے اس سلسلے میں تحقیقات کیں اور ایک رپورٹ شائع کی جس کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بھارتی نژاد برطانوی شہری ہندوستان میں اپنے خاندان والوں یا بزنس میں شراکت داروں کو کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں قتل کراتے ہیں۔

بھارتی نثراد برطانوی شہری خاندان والے یا بزنس میں شراکت دار سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہندوستان کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ اجرتی قاتل کام کرنے کے کم پیسے لیتے ہیں اور پکڑے جانے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔

اس مسئلے کو منظر عام پر لانے کے لیے برطانیہ اور بھارت میں کام کرنے والوں کا خیال ہے کہ سینکڑوں افراد اس طریقے سے اجرتی قاتلوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے قتل کی منصوبہ بندی تو برطانیہ میں کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد بھارتی پنجاب کے دیہاتوں میں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بی بی سی کی ایک رپورٹراس طریقے سے قتل کیے جانے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بھارت روانہ ہوئی اور ریاست پنجاب کے ایک دیہات پہنچی۔

اس گاؤں میں ایک برطانوی خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ چھٹیاں منانے آئی تھیں اور ان کی موت ایک مبینہ ٹریفک حادثے میں ہوئی جس میں مارنے والی گاڑی کا ڈرائیور بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن ان خاتون کے رشتہ داروں کو شک ہے کہ یہ ایک قتل کی واردات ہے۔ ان خاتون کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان (خاتون) کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا لیکن ان کی بیٹی نے شوہر کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔ ان کی والدہ کے بقول ان کی بیٹی نے اپنے شوہر سے کہا ’میں زندگی بھر تمہارے ساتھ رہوں گی۔‘

ان کی والدہ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچی تھیں۔ ’انہوں نے میری بیٹی کو مارا اور اس کی لاش گڑھے میں پھینک دی اور تاثر یہ دینے کی کوشش کی کہ اس کی موت حادثے میں ہوئی ہے۔ وہاں پر نہ تو خون کے نشانات تھے اور نہ ہی گاڑی اور نہ ہی ٹائروں کے نشانات۔ پنجاب میں پولیس، سیاستدان اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات ان افراد کو مزید تحفظ فراہم کرتے ہیں جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ تحفظ اس طرح کہ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ انہوں ہی کے کہنے پر قتل ہوا ہے تب بھی ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوتا۔جسی کھنگڑا پولیس کی طویل تفتیش کے باوجود ابھی تک اس قتل میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

ان خاتون کی ہلاکت سے ملتی جلتی ہی ایک اور ہلاکت 1998 میں برطانوی شہری سرجیت اتھوال کی بھی ہوئی۔ دو سال قبل برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا کہ چھبیس سالہ سرجیت کے قتل کا منصوبہ ان کے شوہر اور ساس نے بنایا تھا۔انہوں نے بھارت میں اجرتی قاتل کے ذریعے سرجیت کو قتل کرایا۔ سرجیت کوگلا دبا کر ہلاک کیا گیا اور ان کی لاش دریا میں بہا دی۔

سرجیت کے بھائی جگدیش سنگھ کا کہنا ہے ’میرے خیال میں سرجیت کے قتل نے پہلی بار اس راز سے پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح برطانیہ میں رہائش پذیر پنجابی افراد عورتوں کو واپس پنجاب بھیجتے ہیں تاکہ وہ یہاں پر آسانی سے قتل کی جاسکیں۔‘ جگدیش آج کل ایسی خواتین کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر اس ایشو کے بارے میں آواز اٹھاتے ہیں۔لیکن اجرتی قاتلوں کے ہاتھ قتل ہونے والوں میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی ہیں۔ بھارت کے صوبہ پنجاب میں ہلاک کیے گئے ایک مرد کے بھائی راجو نے کہا ’ان کے بھائی کے سر پر گولی ماری گئی تھی اور ان کی لاش زمین پر پڑی تھی۔ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں جو اشارہ دیتے ہیں کہ میرے بھائی کا قتل میرے بھائی کی بیوی اور اس کے عاشق نے کرایا ہے۔ اور ہمیں شک ہے کہ یہ قتل انشورنس کے پیسے کی لالچ میں کیا گیا ہے۔

اجرتی قاتلوں کے ہاتھ قتل کرنا کتنا آسان ہے؟ اس بارے میں حقائق جاننے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں پولیس اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان ایک غیر تحریر ی معاہدہ ہے۔ جس میں دونوں ساجھے دار ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں دن دھاڑے سینکڑوں قتل ہوئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان میں اعلی حکام پولیس اہلکار، سیاست دان، مذہبی رہنما، تاجر سب شامل ہیں۔ بم دھماکے، اسنیپ فائرینگ، نامعلوم افراد کے حملے سب کچھ یہاں جاری ہے۔ لیکن تفتیش نام کی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی۔ پاکستانی صحافی بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔ سلیم شہزاد کا قتل تو ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ جس کی رپورٹ بھی سامنے ہے۔ اس بارے میں پاکستانی اخبارات اور صحافی اب بہت کم تردد کرتے ہیں ۔ اخبارات کے مالکان اور صحافیوں نے اب ایسے قتک کیس کی تفتیش اور فالواپ اسٹوری دینے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ لیکن بھارت اور دیگر ممالک میں اخبارات اور صحافی ایسی خبروں کا پیچھا کرتے ہیں۔

بھارتی صحافی نیلم راج کے مطابق اجرتی قاتل ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔ جس شخص کو قتل کرنے کے پیشے دیے جاتے ہیں وہ ایک معمولی چور اچکا ہو گا۔ ’عام طور پر وہ ایسا شخص ہوتا ہے جو گاو ¿ں کا بدمعاش ہو۔‘

بھارت میں اجرتی قاتل کے ذریعے ہلاک کروانا سستا ہے۔ اجرتی قاتل پانچ سو پونڈ کے عوض قتل کرتے ہیں۔ماضی میں قتل کرنے کا طریقہ کار گزرتی گاڑی سے گولیاں مارنا لیکن اب اس قتل کا طریقہ کار یہ ہے کہ موت ایک ٹریفک حادثہ لگے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں پکڑے جانے کا خطرہ کم ہے۔پنجاب کے شہر لدھیانہ میں جسی کھنگرا ایک کامیاب کاروباری اور سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ لندن میں کاروبار کیا کرتے تھے لیکن اب وہ کانگریس جماعت کے پنجاب اسمبلی میں رکن ہیں۔ ’بھارت کی کئی ریاستوں بشمول پنجاب میں پولیس، سیاستدان اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات ان افراد کو مزید تحفظ فراہم کرتے ہیں جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ تحفظ اس طرح کہ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ انہی ہی کے کہنے پر قتل ہوا ہے تب بھی ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوتا۔‘انہوں نے اس مسئلے کا ذمہ دار پولیس کو ٹھہرایا اور کہا کہ پولیس کے ملوث ہونے کے باعث ہر سال ایک سو کے لگ بھگ بیرون ملک رہائش پذیر ہندوستانیوں کا قتل ہوتا ہے۔لیکن جالندھر کے پولیس سربراہ سنجیو کلڑا پولیس کے ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی ہلاکتوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں۔’میرا تجربہ کہتا ہے کہ عام طور پر ایسے واقعات کے بارے میں بات زیادہ کی جاتی ہے جبکہ حقیقت برعکس ہوتی ہے۔‘لیکن بھارت میں اس طریقے سے ہلاک ہونے والے اہل خانہ کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ وہ انصاف کے لیے برطانوی حکومت سے رجوع کرتے ہیں اور اب برطانوی سراغ رساں ایسے معاملات کی تفتیش کے لیے بھارت بھیجے جاتے ہیں۔میٹروپالیٹن پولیس کے کمانڈر سٹیو ایلن ایسے فعل کے مرتکب افراد کو کچھ ان الفاظ میں متنبہ کرتے ہیں ’برطانوی شہریوں کی بیرون ملک قتل کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے اور ہم ایسے افراد کا پیچھا کریں گے اور ان کو ڈھونڈ نکالیں گے اور انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے۔

لیکن کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے بارے میں حکومت کا ایسا کوئی عزم سامنے نہیں آتا۔ زبانی کھوکھلے دعووں سے کراچی کی قسمت نہیں بدلے گی۔ اس سلسلے میں ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2011کے پہلے چھ ماہ کے دوران کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت گری عروج پر رہی۔

اس عرصے میں 1138افراد کو قتل کیا گیا۔ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جنوری سے جون 2011 تک کراچی میں مجموعی طور پر 1138 افراد کوقتل کیا گیا ، ان میں 490 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والوں میں 250 افراد ایسے تھے جن کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا ،جبکہ 150 افراد کا تعلق سیاسی جماعتوں، 19کا مذہبی جماعتوں، 3کا تعلق قوم پرست جماعتوں اور 4 افراد کا تعلق کالعدم تنظیموں سے تھا،لسانی بنیادوں پر 56 افراد جبکہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر 8افراد کو قتل کیا گیا ،ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والوں میں 9 خواتین اور 4بچے بھی شامل ہیں جنہیں لسانی بنیادوں پر قتل کیا گیا۔ چھ ماہ کے دوران لیاری گینگ وار میں 37 مردوں اور 2 خواتین کو قتل کیا گیا۔ دیگر 648 افراد مختلف جرائم میں قتل ہوئے جن میں پولیس مقابلوں کے دوران مارے جانے والے افراد کی تعداد چونتیس ہے۔ مختلف واقعات میں 41پولیس اہل کار ، ملٹری اور پیرا ملٹری 11اہلکار جاں بحق ہوئے۔ ذاتی دشمنی کی بنیاد پر 123 افراد جبکہ 137 افراد کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔ 29 افراد کی لاشیں مختلف مقامات سے ملیں، ایچ آر سی پی کیمطابق 2005 سے 2010 تک 8913 افراد کو قتل کیا گیا ، سب سے زیادہ 798 افرادکو اغوا کے بعد قتل کیا گیا،ادارے کا کہنا ہے کہ حکومت کی سیاسی مصلحت کے باعث کراچی میں پولیس اوررینجرز کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے اور کراچی میں اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں صحیح اعداد شمار بھی کسی نے مرتب نہیں کیئے۔ یہاں تک کے سیاسی جماعتیں بھی اپنے ہلاک شدگان کا کوئی معتبر ریکارڈ نہیں مرتب کرسکی۔ اعداد و شمار کے مطابق سالِ رواں کے پہلے آٹھ میں کراچی میںچودہ سو سے زائد افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں جبکہ مجموعی طور پر شہر میںگزشتہ چند برسوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔۔سال گزشتہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو ہزار سے زائد تھی۔

انسانی حقوق کمیشن نے اس سال کی پہلی ششماہی رپورٹ جاری کرتے ہوئے دعوٰی کیا کہ کراچی میں سیاسی کارکنوں کی شرحِ ہلاکت میں گزشتہ برس کی نسبت چھبیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس کے دوران نشانہ بنا کر ہلاک کیے جانے والے سیاسی کارکنوں کی تعداد چوہتّر تھی۔ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مہاجر قومی مومنٹ کے اڑتیس، متحدہ قومی مومنٹ کے اٹھائیس، حکمراں جماعت پاکستان پپلزپارٹی کے گیارہ، عوامی نیشنل پارٹی کے دس، سندھ ترقی پسند پارٹی کے چار، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے دو دو، پاکستان مسلم لیگ (ف)، جسقم اور پنجابی پختون اتحاد کا ایک ایک کارکن ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں حادثاتی اموات کی شرح میں اکیس فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں خواتین کی شرح میں تراسی اور بچوں کی شرح میں ایک سو باسٹھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس سال پہلے چھ ماہ کے دوران قتل کیے جانے والے افراد کی تعداد نو سو اڑتیس ہے جن میں ایک سو انیس خواتین اور چوراسی بچے بھی شامل ہیں۔ مہاجر قومی مومنٹ کے اڑتیس، متحدہ قومی مومنٹ کے اٹھائیس، حکمراں جماعت پاکستان پپلزپارٹی کے گیارہ، عوامی نیشنل پارٹی کے دس، سندھ ترقی پسند پارٹی کے چار، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے دو دو، پاکستان مسلم لیگ (ف)، جسقم اور پنجابی پختون اتحاد کا ایک ایک کارکن ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال پہلے چھ ماہ کے دوران سب سے زیادہ قتل کے واقعات جون کے مہینے میں ہوئے۔ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال پہلے چھ ماہ کے دوران اٹھانوے افراد کو ذاتی دشمنی کی بنائ پر قتل کیا گیا ، ستّر افراد مزاحمت کرتے ہوئے ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بنے، اکیاون افراد کو اغوائ کرنے کے بعد تشدد کرکے ہلاک کیا گیا، انچاس افراد کی مختلف علاقوں سے نامعلوم لاشیں برآمد ہوئیں، مزید انچاس افراد کو لسانی یا نسلی فسادات کے تنیجے میں قتل کیا گیا اور پینتالیس افراد مبینہ پولیس مقابلوں کے دوران مارے گئے۔

اسی طرح رپورٹ کے مطابق پچیس پولیس اہلکار مختلف واقعات میں ہلاک کیے گئے جبکہ اٹھارہ افراد لیاری گینگ وار کا نشانہ بنے۔

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ایک عدالتی کمیشن بھی بنایا گیا تھا جس کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی۔ یہ کمیشن گزشتہ سال چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی ہدایت پر ٹارگٹ کلنگ کی تحقیقات کیلئے جسٹس قربان علوی کی زیر صدارت بنایا گیا تھا،کمیشن نے انکشاف کیا کہ انہیں ناقص اور غلط اطلاعات دی گئیں جس کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کی حتمی فہرست مرتب کرنے میں دشواری کا سامنا رہا۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق شہر میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ٹارگٹ کلنگ میں 476 افراد 2011ئ میں قتل ہوئے جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے 121، پیپلز پارٹی کے 113، عوامی نیشنل پارٹی کے 98، مہاجر قومی موومنٹ کے 26، سنی تحریک کے 37، جعفریہ الائنس کے 27، کچھی رابطہ کمیٹی کے 22، جماعت اسلامی کے 19 کارکنان شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دو واقعات میں ہلا ک ہونے والے افراد کی دعویدار تین تین جماعتیں تھیں جن میں ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی شامل تھیں۔ تحقیقات کے مطابق وہ متحدہ قومی موومنٹ کا کارکن تھا کمیشن میں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جعفریہ الائنس سمیت تمام جماعتوں کے رہنما خود اپنی اپنی فہرستیں لیکر پیش ہوئے، کمیشن نے متعدد پولیس افسران کا علیحدہ علیحدہ بیان بھی قلمبند کیا۔ کمیشن نے اپنی سفارشات بھی وزیراعلیٰ کو دیدیں جس میں کہا گیا ہے کہ جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کیلئے مالی معاوضے کا اعلان کیا جائے اور 60 گز کا پلاٹ دیا جائے اور متاثرہ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جائے۔ یہ ایک اعلی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ ہے۔ جس سے اعلی اداروں کی بے بسی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

کراچی میں پچھلی 4 جمہوری حکومتوں کے دور یہ ٹارگٹ کلنگ مسلسل جاری رہی ۔ مشرف دور کے اس عرصے میں جس میں کر اچی میں نعمت الللہ خان سٹی مئیر رہے اس عرصے میں کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوتی۔اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کے آتے ہی ٹارگٹ کلنگ ختم ہو گئی تھی، اور پھر کیوں پرویز مشرف کے جاتے ہی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ عدالتیں دہشتگردوں کو ثبوت نہ ہونے پر جیلوں سے رہا کر دیتی ہں۔ کچھ کہتے ہیں کہ ان میں قصور خراب حالات کے تحت نقل مکانی کرنے والوں کا ہے کہ ان کی آڑھ میں بہت سے دہشتگرد کراچی کا رخ کر رہے ہیں۔کراچی میں منشیات ، غیر قانونی اسلحہ کا کاروبار ، زمینوں جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے، ڈاکوگیری، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم بھی عروج پر ہں۔شہر کے مختلف علاقوں میں قانون سے بالاتر نو گو ایریاز قائم ہیں۔ جس کے باعث پر امن شہری یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ یہاں جرائم مافیا نے اپنا جال پھیلایا ہواہے۔اہل کراچی بہت برے طریقے سے اس شیطانی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں لینڈ مافیا، بھتا مافیا،سرگرم ہے اور کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ کراچی میں جرائم ٹارگٹ کلنگ کو پولیس میں جرائم پیشہ افراد کی بھرتیوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں پولیس کے افراد کی بہت بری تعداد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ المناک صورتحال یہ ہے کہ کراچی والوں نے ان جرائم کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔ اور تبدیلی کوئی خواہش اور کوشش نظر نہیں آتی۔ جس سے اس مسئلہ کو ئی حل بھی نکلنا ممکن نہیں ۔ کیونکہ اللہ بھی ان ہی لوگوں کی مدد کرتا ہے جو خود کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387711 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More