مسائل و جائزہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان کا مونس و غمگسار بنایا ہے ۔جو انسان ایک
دوسرے کے کام آئے اور ضرورتوں کا خیال رکھے رضائے خدا و مصطفےٰ ﷺ سے فیضیاب
ہوتا ہے لیکن بعض ضرورتیں ایسی در پیش آ جاتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے
دوسروں سے قرض لینا پڑتا ہے ۔ضرورت اگر واقعی ،ضرورت ہو تو اس کے لئے قرض
لینا بھی اور دینا بھی جائز ہے ۔ احادیث میں وارد ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مال
قرض لیا او رجب مال آیا ادا فرما دیا اور دعا کہ اللہ تعالیٰ تیرے اہل و
مال میں برکت دے اور فرمایا قرض کا بدلہ شکریہ اور ادا کر دینا ہے ۔(نسائی
)
بلکہ قرض مانگنے والا اگر جائز ضرورت کے لئے قرض مانگتا ہے تو اس کی ضرورت
کے مطابق اُسے قرض دینا مستحب اور کار ثواب بھی ہے کہ تم دوسروں کے کام آ ﺅ
گے ۔
اللہ تعالیٰ تمہاری دستگیری فرمائے گا اور تمہارے کام بنائے گا۔ بلکہ قرض
لینے والا اگر ادا میں ٹال مٹول کرے تب بھی اس کے حق میں بہترہے ۔رسول اللہ
ﷺ فرماتے ہیں جس کا دوسرے پر حق ہو اور وہ ادا کرنے میں تاخیر کرے تو دینے
والا ہر روز اتنا ہی مال صدقہ کرنے کا ثواب پائے گا۔ (امام احمد)
اس کے ساتھ یہ ضرور ہے کہ جس سے قرض لو ،ادا کرنے کی نیت سے لو ۔وقت پر ادا
نہ کر سکو تو نرمی اور خوش اخلاقی سے معذرت کر لو ۔خواہ مخواہ ٹال مٹول نہ
کرو ۔ورنہ مفت کا گناہ ،نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ۔حضور اقدس ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ کبیرہ گناہ ،جن سے اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی ہے ۔ان کے بعد ،اللہ
کے نزدیک سب گناہوں سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اوپر دین چھوڑ کر مرے
اور اس کے ادا کر نے کے لئے کچھ نہ چھوڑا ہو ۔ (امام احمد )
ابو داﺅد و نسائی میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :مالدار کا دین ادا کرنے
میں تاخیر اس کی آبرواور سزا کو حلال کر دیتا ہے ۔عبد اللہ بن مبارک رضی
اللہ عنہ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ آبرو کو حلال کرنا یہ ہے کہ اس پر
سختی کی جائے گی اورسزا کا حلال کرنا یہ ہے کہ قید کیا جائے گا۔
دوسری طرف تنگ دست کو مہلت دینے ،اسے معاف کرنے اور خوش اخلاقی سے تقاضہ
کرنے والوں کی احادیث میں بڑی تعریف آئی اور حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :”جس کو
یہ بات پسند ہو کہ قیامت کی سختیوں سے اللہ تعالیٰ اسے نجات بخشے وہ تنگدست
کو مہلت دے گا یا اسے معاف کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے
گا۔“(مسلم)
اب قرضہ سے متعلق کچھ مسائل بھی ذکر کرتا ہوں لو تاکہ یہ لین دین بھی شرعی
اور اسلامی احکام کی حدود میں رہے ۔
مسئلہ :جو چیز قرض لی جائے یا دی جائے اس کا مثلی ہونا ضروری ہے ۔یعنی وہ
چیز ناپ کی ہو یا تول یا گنتی کی ۔مگر گنتی کی چیز میں شرط یہ ہے کہ اس کے
افراد میں زیادہ فرق نہ ہو جیسے ۔انڈے ،اخروٹ ،بادام وغیرہ اور اگر گنتی کی
چیز میں اتنا فرق ہو کہ اس کی وجہ سے قیمت میں کمی بیشی ہو جائے جیسے آم
،امرود ،مسمی اور ایسی ہی دوسری چیز ،ان کو نہ قرض دے سکتے ہیں ۔نہ لے سکتے
ہیں ۔یونہی ہر قیمتی چیز جیسے جانور مکان زمین ان کو قرض دینا لینا صحیح
نہیں ۔(در مختار وغیرہ)
مسئلہ :قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی اس کی مثل ادا کی جائے
۔(ردالمحتار)
مسئلہ :روٹیوں کو گن کر بھی قرض لے سکتے ہیں اور تول کر بھی اور گوشت وزن
کر کے قرض لیا دیا جائے ۔(در مختار)
مسئلہ :آٹے کو ناپ کر قرض لینا دینا چاہئے اور اگر عرف اور معمول ،وزن سے
قرض لینے کا ہو جیسا کہ عموماً ان علاقوں میں مروج ہے تو وزن سے بھی قرض
جائز ہے ۔عالمگیری)
یہی حکم دال ،چاول ،چینی ،شکر ،تیل وغیرہ اشیاءکا ہونا چاہئے ۔
مسئلہ :پیسے (یا نوٹ اور ایسے ہی تانبے ،پیتل وغیرہ کے سکے جو بدلتے رہتے
ہیں) قرض لئے تھے اور اب ان کا چلن جاتا رہا ۔تو ویسے ہی پیسے (یا نوٹ
وغیرہ)
اسی تعداد میں دے دینے سے قرض ادا نہ ہو گا ۔بلکہ ان کی قیمت کا اعتبار ہے
مثلاً آٹھ آنے کے پیسے (یادس بیس پچاس ،سو کے نوٹ) قرض لئے تھے تو چلن چند
ہو جانے کے بعد اٹھنی یا دوسرا سکہ اس قیمت کا دینا ہو گا۔ (در مختار
وغیرہ)
مسئلہ : ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں ۔مثلاً دس
سیر گیہوں قرض لئے تھے ان کی قیمت اس روز کچھ اور تھی اور ادا کرنے کے دن
اس سے کم یا زیادہ ہے تو اس کا بالکل لحاظ نہ کیا جائے گا ۔ وہی دس سیر
گیہو ں دینے ہوں گے (درمختار) اور اگر دونوں قیمت لینے دینے پر راضی ہو
جائیں تو اس روز ادائیگی کی قیمت ادا کر دی جائے ۔
مسئلہ:قرض دارنے قرض کی چیز پر قبضہ کر لیا تو اس چیز کا مالک ہو گیا ۔فرض
کرو کہ ایک چیز قرض لی تھی اور ابھی خرچ نہیں کی ہے کہ اپنی آگئی ۔
مثلاًروپیہ قرض لیا تھا اور روپیہ آگیا یا آٹا قرض لیا ۔پکنے سے پہلے آٹا
پس کر آگیا اب قرض دار کو اختیار ہے کہ اس کی چیز رہنے دے اور اپنی چیز ادا
کر دے ۔یا اس کی ہی چیز واپس کر د ے جس نے قرض دیا ہے وہ نہیں کہہ سکتا کہ
میں نے جو چیز دی تھی وہ تمہارے پاس موجود ہے میں وہی لوں گا۔ (در مختار
عالمگیری)
مسئلہ:واپسی قرض میں اس چیز کی مثل دینی ہو گی جو لی ہے نہ اُس سے بہتر اور
نہ کمتر ۔ہاں اگر بہتر ادا کرتا ”ہے اور اس کی شرط نہ تھی تو جائز ہے ۔قرض
خواہ اس کو لے سکتا ہے ۔یونہی جتنا لیا ہے ادا کرتے وقت اس سے زیادہ دیتا
ہے ۔مگر اس کی شرط نہ تھی یہ بھی جائز ہے ۔(درمختار)
مسئلہ:قرض دیا اور ٹھہرا لیا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لے گا جیسا کہ
آجکل سود خوروں کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپیہ سینکڑہ ،ماہوار سود ٹھہرا
لیتے ہیں یہ حرام ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ:جس پر قرض ہے اُس نے قرض دینے والے کو کچھ ہدیہ دیا تو لینے میں حرج
نہیں جب کہ ہدیہ دینا قرض کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہو کہ دونوں میں
قرابت یا دوستی ہے ۔یا اس کی عادت ہی ایسی ہے کہ لوگوں کو ہدیہ کیا کرتا ہے
۔اور اگر قرض کی وجہ سے ہدیہ دیتا ہے تو اس کے لینے سے بچنا چاہئے ۔جب تک
یہ بات ظاہر نہ ہو جائے کہ قرض کی وجہ سے نہیں ہے اس کی دعوت کا بھی یہی
حکم ہے کہ قرض کی وجہ سے نہ ہو تو قبول کرنے میں حرج نہیں اور قرض کی وجہ
سے ہے یا پتا نہ چلے تو پچنا چاہیئے ۔
اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ قرض نہیں دیا تھا جب بھی وہ دعوت کرتا تھا تو
معلوم ہوا کہ یہ دعوت قرض کی وجہ سے نہیں کرتا تھا اور اب کرتا ہے یا پہلے
مہینہ میں ایک بار کرتا تھا اب دوبار کرنے لگا ۔یا اب سامان ضیافت زیادہ
کرتا ہے تو معلو م ہوا کہ یہ قرض کی وجہ سے ہے ۔لہٰذا اس سے بچنا ہی چاہئے۔
(عالمگیری)
مسئلہ:ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے اتنے روپیہ قرض دو ، میں اپنی زمیں
تمہیں عاریت دیتا ہوں جب تک میں روپیہ ادا نہ کروں تم اس کی کاشت کرو اور
نفع اٹھاﺅ یہ ممنوع ہے ۔(عالمگیر ی )
یونہی مشین وغیرہ کوئی بھی چیز عاریت کے نام سے دینا اور قرض لینا کہ قرض
دینے والا اس سے کام لیتا اور نفع اٹھاتا رہے ممنوع ہے ۔
تنبیہ :آج کل سود خوروں کا عام طریقہ یہ ہے کہ قرض دے کر مکان یا کھیت رہن
رکھ لیتے ہیں مکان ہے تو اس میں (رہن رکھنے والا) سکونت کرتا یا اس کو
کرایہ پر چلاتا ہے اور کھیت ہے تو اس کی خود کاشت کرتا ہے یا اجارہ پر دے
دیتا ہے اور نفع خود کھاتا ہے یہ سود ہے اور اس سے بچنا لازم ہے ۔(بہار
شریعت)
اللہ تعالیٰ ہمکیں عمل کی توفیق دے ۔آمین |