ملک پاکستان 14 اگست 1947 ء بمطابق 27
رمضان المبارک کی بابرکت شب میں امت مصطفی کیلئے ایک عطائے رب عزوجل کی
صورت آزادی کی نوید کے ساتھ معرض وجود میں آیا۔۔ہمارے والد محترم کا کہنا
ہے کہ ان کے بچپن میں ان کے والد یعنی ہمارے دادا کہاکرتے تھے کہ بیٹا
جوخوشی ایک آزا د زمین کی صورت میں ہمیں ملی زندگی بھر ایسی خوشی کا کبھی
سامنا نہیں ہوا ،مرتے دم تک دادا کے یہی الفاظ رہے ،داداکا انتقال 1976 ء
میں ہوا اس وقت میری عمر کم و بیش 7 سال تھی ۔پھروالد محترم بھی ہمیں کبھی
کبھی جشن آزادی کے موقع پر اپنے والد بزرگوارکی باتیں بتایا کرتے تھے ،1982
ء جب میرے والد محترم کا انتقال ہوا تو میں بجھ سا گیا مگر جب بھی یوم
پاکستان کی آزادی کے لمحات آتے تو وہ ولولہ جاگتا جس کے بارے میں اپنے دادا
اوروالد سے ہم سنتے رہے تھے اوراپنے اندر منتقل ہونیوالی وہ حقیقی خوشی ہم
خوب خوب محسوس کیاکرتے تھے۔
لیکن یہ خوشی دوچارسالوں کی ہی رہی 1986 ء میں کراچی میں پھوٹنے والے لسانی
فسادات نے شہر کے مختلف علاقوں میں لاشوں کی لال چادر بچھا دی اس وقت میں
میٹرک کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھا اور اپنے تعلیمی اخراجات کو
پوراکرنے کیلئے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جھانک تانک کرتا رہتا
تھا۔۔شہرکراچی میں جاری رہنے والے ان فسادات نے جہاں سینکڑوں گھرانے تباہ و
برباد کئے وہیں ایسے کربناک اثرات بھی مرتب کیے کہ جن کے گھراوراہل خانہ
محفوظ رہے تھے ان کے جسم میں خوف کی ایک نئی رگ عیاں کردی۔ابھی یہ حالات
سنبھلنے نہ پائے تھے کہ ہتھوڑا گروپ کے نام سے ایک نئی مصیبت نے شہر کو
اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ طبقہ جو دن بھر محنت مزدوری کرکے رات فٹ
پاتھوں پر بسرکیا کرتے تھے کے لیے موت کا پیغام بن کر آیا۔درجنوں لوگ اس ان
دیکھی بلا کانشانہ بنے اور وہ رونقیں جس کے نام سے یہ شہر عروس البلاد
کہلاتا تھا مانند پڑنا شروع ہوگئی لوگوں نے راتو ں کوسفرکرنا،تقریبات میں
جانا،سڑکوں پر بیٹھنابندکرکے دروازوں پر تالے ڈال کر جاگ جاگ کر راتیں
گزارنا شروع کردیں،کسی پڑوس میں اگرکوئی چارپائی بھی زور سے رکھتا تو برابر
میں رہنے والوں کا دل دھل جاتا تھاکہ کہیں وہ آفت تو نہیں آگئی جنہوں نے بے
قصور لوگوں کو اپنے نشانے پر لیا ہوا ہے۔خیرزندگی کا پہیہ اپنی رفتارکے
مطابق گھومتا رہا اور 80 کی دہائی گزرگئی ۔1990 ء کی ابتداء ہی میں
ہندوستان میں بسنے والے انتہاپسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہیدکرنے کی
تھانی تو ایک بارپھر سے کراچی شہر میں آگ اور خون کاکھیل شروع ہوگیا ۔اس
بار لسانی نہیں بلکہ مذہبی فسادات کا خطرہ عروج پر تھا جو لوگ دین کی سمجھ
رکھتے تھے انہیں نے زبان کا استعمال کیا مگر جنہیں دین کی سمجھ نہیں تھی
انہوں نے اسلحہ اٹھاکر غیروں کا کم اور اپنوں کا نقصان زیادہ کیا ،سڑکوں پر
مسافروں کو آسانی مہیاکرنے والی گاڑیاں شعلوںکی لپیٹ میں آگئیں،فٹ پاتھوں
پر بنے ہوئے کیبن جہاں سے اشیاخوردنوش کی فراہمی ہوتی تھی روڈوں پر لاکر آگ
کی نذر کردیے گئے وہ غریب جن کی یہ املاک تھی اپنے چشم ترسے یہ منظر دیکھ
رہے تھے مگر زبان خاموش تھی کہ کہیں اسے اپنا کہنے پر ہمیں بھی نذرآتش نہ
کردیا جائے۔
مختصر یہ کہ آج میری عمر43 سال ہوگئی ہے میری زندگی کی دودھائیاں نہایت ہی
اطمینان اور سکون کی یادوں سے وابستہ ہیں ۔مگر!! 90 ء ،2000 ء اوراب وہ
دھائی یعنی 2010 ء کے بعد کا ماحول شاید میری نسلوں کے لیے بھی تلخ یادیں
ثابت ہوگا،کیونکہ کل جو کچھ صرف کراچی میں ہواکرتا تھا آج پورے پاکستان میں
ہورہا ہے اور 90 ء کے بعد سے یہ معاملات روز بہ روز عروج پارہے ہیں آج جس
طرف نگاہ اٹھتی ہے تودولت کی ہوس میں مبتلا چہرے ہی نظر آتے ہیں جنہیں صرف
اپنی حیات اوربقاء کی لالچ ہے آج بھی ہمارے درمیاں نمرود،شداداورفرعون کی
ذہنیت رکھنے والے وہ انسان موجود ہیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اگرکسی
کو میری بات کا یقین نہیں تو مال ومتاع کے نشے میں دھت ان فرعونوں کوکیا
کہیں گے جنہوں نے 11 ستمبر 2012 ء کو ان سینکڑوں سفید پوش محنت کشوں کو آگ
کے سپرد کردیا جنہوں نے اپنے خون پسینے سے ان بڑے لوگوں کو بام عروج پر
پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ،جن کی بدولت ان آدم خوروں کامعاشرے میں
ایک وقارقائم تھا۔کیاآپ لوگوں سے ان بے قصوروں کی روحیں سوال نہیںکررہیں کہ
بتاؤکیا تم میں کوئی بھی محمدبن قاسم،طارق بن زیاد،صلاح الدین ایوبی،
ٹیپوسلطان، سراج الدولہ کا جانشین نہیں جو ہمارے مرنے کے بعد تم لوگوں کی
اوراس عطائے رب کی حفاظت کا ذمہ لے اور یہاں بسنے والوں کو کوئی ایک ایسی
شب تودلائے جس میں اسے موت نہیں،بلکہ وہ نیند میسر ہو جسے مسلمان کی نیند
کہتے ہیں؟؟(اللہ رب العزت جل شانہ ھو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے صدقے ان تمام شہداء کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل و عیال
اورپیاروں کو صبرجمیل عطاکرے،آمین) |