عروسی ملبوسات

کبھی موسم سرما کا ذکر تو کبھی موسم گرما کی فکر۔ کبھی بہاروں کے چرچے چار سو لیکن ان تمام موسموں سے ہٹ کر ایک موسم شادیوں کا بھی ہوتا ہے۔ ویسے تو شادی بیاہ کی تقریبات سال بھر ہوتی ہیں لیکن چند ماہ سال بھرمیں ایسے بھی ہیں جن میں شادی بیاہ کی تقریبات عروج پر ہوتی ہیں۔ اور یہ ماہ اُسی عروج کے ہیں۔

اس خوشیوں بھری تقریب میں شریک رشتہ داروں عزیزواقارب کے لئے مرکز توجہ دلہا دلہن کی جوڑی ہوتی ہے جو اپنی خوبصورت زندگی کا آغاز آنکھوں میں ڈھیروں خواب سجائے کر رہے ہوتے ہیں۔

اس تقریب میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ ان لمحات کو یادگار بنایا جاسکے۔ لہٰذا دلہا ہو یا دلہن اپنے لباس کو نہایت اہمیت دیتے ہیں۔ دوسروں سے مختلف نظرآنے کی خواہش دل میں لےے لباس کی خوبصورتی پر خاص توجہ دی جاتی ہے ۔ شریک خواتین خاص طور پر دلہن کے لباس کی بناوٹ پر ہر پہلو سے غور کرتیں ہیں اور دلچسپی رکھتیں ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لباس کی تراش و خراش اور مختلف نظر آنے کے شوق و جستجو میں اضافہ ہو گیا ہے۔ دنیا بھر میں عروسی ملبوسات مخصوص خطے کی ثقافت اور مذہب سے ہم آہنگ تیارکےے جاتے ہیں۔ لیکن پاک و ہند میں ان کی بناوٹ پر جو توجہ دی جاتی ہے اسے تمام دنیا میں قابلِ ستائش گردانا جاتا ہے۔

عروسی لباس دلہن کے لئے آنے والے والی زندگی کا رنگ لیے ہوتا ہے۔ہماری خطّے کی مخصوص ثقافت میں دلہن کے لئے سرخ لباس مستقبل کی خوشیوں کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن اب خواتین مختلف رنگوں کو بھی اپنا رہیں ہیں۔ خاص طور پر پیازی اور اُنّابی رنگ ۔ کچھ خواتین ہلکے کام والے ملبوسات پر نگاہ ہی نہیں ڈالتیں۔ عموماً تمام ہی خواتین یہ چاہتی ہیںکہ ان کا لباس مختلف ہو۔ اسٹائل میں بھی اور کوالٹی میں بھی۔

عروسی ملبوسات کی بناوٹ میں ہنر مندوں کی محنت قابل ذکر ہوتی ہے۔ مختلف رنگ اپنی بہار کے عروج کو چھو رہے ہوتے ہیں تو ان پر بنا نفیس کام لباس پر سے نظر یں نہیں ہٹانے دیتا۔ماہر کاریگر ان پر کڑھائی ، گوٹے کے ساتھ کام، دبکا، کورا دبکا، موتی Beads، دھاگے کاکام، ذری کی کڑھائی ، اوگیزا پہ کام، دردوزی کا کام،سیکوینس Squinsکٹ ورکCut work، شیشے کا کام، پیچ ورک Patch work، پرل ورک Pearl work،ریشم کا کام اور کندن کا کام جدّت اور ثقافتی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھ کر بناتے ہیں۔

ہمارے ملک میں عروسی ملبوسات ہر رینج میں دستیاب ہیں ۔ ہر خاص و عام اپنی مالی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں خرید سکتا ہے۔ نت نئے ڈیزائن کے ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں۔ ان میں شرارا ، غرارا، لہنگا چولی، مرمیٹ کٹ لہنگا ، چوڑی دار پجامہ اورلہنگا شامل ہے۔

کراچی میں عروسی ملبوسات مختلف بازاروں کے ساتھ ساتھ ڈیزائن آﺅٹ لیٹس پر بھی موجود ہیں اس کے علاوہ پاکستان سے باہر ہونے والے پاکستانی اور بھارتی عوام کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے ملبوسات کی وسیع رینج مہیا کی جاتی ہے۔

مختلف designersڈیزائنرز جب کے بعض صورتوں میں انفرادی حیثیت سے کام کرنے والے افراد بھی یہ ملبوسات بین الاقوامی منڈی میں فراہم کرتے ہیں۔ کراچی شہرمیں ایسی بہت سی خواتین ہیں جو عروسی ملبوسات کو آرڈر پر تیار کرتی ہیں اور ملک سے باہر بھی اپنے کام کے اعلیٰ نمونے فراہم کر رہی ہیں۔ عروسی ملبوسات کی تیاری کا کام ایک صنعت کی حیثیت رکھتا ہے۔ شہر کے مختلف بازاروں میں ایک جیسے ملبوسات دستیاب ہوتے ہیں۔ اکثر خریدنے والا یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ جب ڈیزائن ایک ہے تو قیمت میں فرق کیسے ممکن ہے۔ اس سوال کے جواب کے لئے شہر کے مشہور ڈیزائنر سے ملا گیا ہے اور موجودہ عروسی لباس کے فیشن کے بارے میں بھی معلومات لی گئی ہیں۔ قیمت میں فرق مٹیریل اور اسٹیچنگ یعنی سلائی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ غیر معیاری کپڑا لے کر سستے مٹیریل سے کام کیا جاتا ہے۔ یعنی اصلی اسٹونز کی جگہ پلاسٹک کے اسٹونز اور غیر معیاری موتی، کندن دھاگہ وغیرہ لگایا جاتا ہے جس سے قیمت میں اچھا خاصا فرق آجاتا ہے۔گہری نگاہ رکھنے والے لباس ہاتھ میں لیتے ہی پرکھ لیتے ہیںلیکن جنہیں تجربہ نا ہو ان کے لےے یہ ایک مسئلہ ہے۔

شادی اور ولیمے کی دو تقریبات ہوتی ہیں ۔ سرخ اور میرون رنگ صرف شادی کے لئے مناسب سمجھا جاتا ہے۔ ولیمے میں فوُن اور میرون دونوں ہو سکتے ہیں۔

آج کل پنک اور گرے، فُون اور انگوری ، فیروزی اور پیازی رنگ فیشن میں ہیں۔ کچھ دنوں پہلے تک سیلف جامہ وار کا کپڑا عروسی جوڑے کی تیاری میں استعمال ہو رہا تھا جو کہ اب فیشن سے بلکل آﺅٹ ہے۔موجودہ فیشن میں شفون کا کپڑا استعمال کیا جارہا ہے۔ غرارا اسٹائل بلکل ختم ہو گیا ہے۔ تما م designer outletsمیں یہ شفون کے شرارے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مرمیٹ اسٹائل اور کلیوں والا شرارا پہنا جا رہا ہے۔

سرخ کے لباس کو مختلف بنانے کے لئے رنگوں کے امتزاج کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ red and bottle green فیشن میں اس وقت سب سے زیادہ چل رہا ہے۔ دوپٹہ کے اندر چار پانچ ماربل کے ڈائی کےے جارہے ہیں۔ تاکہ لباس میں جدّت اور انوکھیت کا عنصر نظر آئے۔

بناﺅ سنگھار کا لفظ صنفِ نازک سے مشروط ہے۔ یہ صنف جب شادی جیسے خوبصورت بندھن میں بندھنے کا تصور کرے تو خیالوں کے جھرونوں میں اس کا سنگھار اسے اس دنیا کی سب سے خوبصورت اور مختلف لڑکی کی صورت میں گُدگدانے لگتا ہے۔ یہی خواہش اس کے ذوق کو جھنجوڑتی ہے اور وہ اپنی شادی میں بہتر ین سے بہترین لباس زیب تن کرنا چاہتی ہے ۔

عروسی لباس کے ساتھ ساتھ چند سالوں سے میچنگ ایسیسریس matching accessories کا رواج بڑھ گیا ہے جب کے پہلے صرف سنہری اور چاندی کے رنگ والا زیور، چوڑیاںپرس اور سینڈل پہنے جاتے تھے لیکن اب ان چیزوں کو لباس کی مناسبت سے اعلیٰ فنی مہارت کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔

عروسی لباس کو ہماری ثقافت میں روزِ اول سے اہمیت حاصل ہے اور آج بھی اس کی بناوٹ اور خریداری کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ زمانہ کروٹ بدل رہا ہے او ر اس کے ساتھ ہی کپڑوں کے ڈیزائنوں میں تبدیلی کے نت نئے روپ نظر آرہے ہیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.