اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے
ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے پہلے خونی ونسلی رشتوں میں درجہ وارحسن سلوک
کرے،پھر معاشرتی و انسانی رشتوں کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا
معاملہ اور اچھاسلوک کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اس طرح احسان کا دائرہ
وسیع تر کرتے ہوئے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی باعث اجروثواب
اورپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے حسن سلوک وہ پسندیدہ صفت ہے جو انسانی
معاشرے میں محبت بھائی چارگی، رشتوں ناتوں کے مرتبے اور تعلقات کو استوار
کرنے میں سب سے زیادہ موثر ذریعہ بنتا ہے ہمدردی ، غم گساری ،تعاون واتحاد
اورپیار محبت کے جذبات کو پھلنے پھولنے اورانسانی قدروں کو ترقی دینے کے
مواقع میسر آتے ہیں یہ اسلام کی جامع تعلیمات اورمسلمانوں کے بلند کردار
اور اعلیٰ اخلاق کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے جس کے ذریعے مسلمانوں نے گزشتہ
صدیوں میں انسانی دنیا کے اندر انقلابرپا کیا اور انسانیت و محبت کا عملی
درس د ے کر یہ ثابت کردیا کہ ان صفات کے ذریعے انسان اللہ رب العزت کا
محبوب بندہ بن جاتا ہے لیکن افسوس کا یہ مقام ہے کہ آج کل ہم اپنے ہی
مسلمان کے دشمن ہوگئے ہیں کوئی مسجد میں بم دھماکہ کرتا ہے تو کوئی بچوں کو
اغواء کرتا ہے، بچوں کا قتل کرتا ہے، ہم کیسے مسلمان ہیں اللہ کے سامنے یہ
لوگ کیا منہ لے کر جائیں گے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کی
تاکید قرآن پاک میں متعدد مقامات پر فرمائی ہے اور انسانی معاشرتی تمام
رشتوں کو ان آیات میں سمیٹ لیا ہے جن کی تشریح وتوضیع احادیث رسول پاک میں
بیان فرمائی گئی ہے اگر انہیں یکجا کردیا جائے تو بندگان خدا کے ساتھ حسن
سلوک اورخوش معاملگی کی اہمیت کا اندازہ ہوگااللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم
اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ اچھامعاملہ کرو۔ معاشرتی زندگی میں والدین
کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی بطور خاص تاکید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے
احسان و انعام کی پہچان اورحقوق اللہ کو خوب سے خوب ترطریقے سے ادا کرنے کی
فکر کریں لیکن اب افسوس کا مقام یہ ہے کہ جب ماں اورباپ بوڑھے ہوجاتے ہیں
تو انہیں بے سہار ا چھوڑ کر اولڈہوم میں داخل کروادیتے ہیں ،بچے کی پیدائش
کے بعد والدین اپنی فکر چھوڑ کر اولاد کی فکر میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بچوں
کی محبت میں ان کو آرام وراحت پہنچانے کیلئے راتوں کو سونا دن میں آرام
کرنا ترک کردیتے ہیں کسی اجرکے بدلے کی خواہش کرنے کی بجائے اپنا سب کچھ
اولاد کے حوالے کردیے ہیں صرف اس بے پناہ محبت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے
ماں باپ کے دل میں اولاد کیلئے پیدا کردی ہے اللہ تعالیٰ نے اولاد کو حکم
دیا ہے کہ جب والدین عمردراز ہوکر کمزور و صعیف ہوجائیں تو ان کے احسان کا
بدلہ ان کے ساتھ احسان کرکے اداکرنے کی فکر کرو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا-: ''اس شخص کی
ناک خاک آلود ہو(یہ جملہ تین بارفرمایا)یعنی وہ ہلاک و برباد ہوجائے جس نے
والدین میں ایک کو یادونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پایا پھر بھی ان کی خدمت
کرکے(اوران پر احسان کرکے) جنت میںداخل ہوا''(صحیح مسلم)
قرآن و سنت کی ان تعلیمات سے اسلامی معاشرے میں صلہ رحمی کی اہمیت اور
والدین کے مقام ومرتبے کا خیال کرنا ہم پر فرض ہے پڑوسیوں کے ساتھ حسن
سلوک، رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور یتیموں ومسکینوں کے ساتھ خوش
معاملگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پڑوسیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے
جس میں سلم اور غیرمسلم سب داخل ہیں کتنی مامع ترتیب ہے سماج اور معاشرے کی
۔تشکیل اسی طرح مرحلہ وار ہوتی ہے دائرہ وسیع ترہوجاتا ہے تو ایک
اچھااورتعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے ان میں غریب و نادار بھی شامل
ہوتے ہیں اوریتیم و بیوہ بھی۔
احادیث نبوی میں پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا اتنی شد
ت اورکثرت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا -: ''حضرت جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے حق کے بارے میں
(اللہ عزوجل کی جانب سے برابروصیت کرتے تھے یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا
کہ اس وراثت میں حصہ دار قرار دیں گے''(صحیح بخاری) حضرت انس رضی اللہ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ
شخص جنت میں داخل نہ ہوسکے گا جس کا پڑوسی اس کی شراتوں اور ایذاء رسانیوں
سے پریشان ہوں(مسلم شریف)
قارئین !!!معاشرے کے غریبوں ،ناداروں، کمزوروں ، مسکینوں کی مدد کرنا
کارخیر اورباعث اجر بلکہ ایمان کی پہچان بتایا گیا ہے انہیں کھلانے پلانے
ان سے ہمدردی انسانیت کی علامت ہے ۔''دوزخیوں سے فرشتے پوچھیں گے کہ تم کس
جرم میں یہاں داخل ہوئے ہو؟تو وہ ایک جرم یہ بتائیں گے (ترجمہ سورۃ روم)
اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، یہ تھی ہماری سخت دلی اور بے رحمی
ہم مسکینوں کو انسان تصور ہی نہیں کرتے تھے کہ ان کے ساتھ صلہ رحمی ،حسن
سلوک کرتے ہم تو ان لوگوں کو پر ہنستے تھے انہیں ستاتے تھے ان کا حق مارتے
تھے جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرابت داروں کو ان کا حق دیا کرو
اورمسکین و مسافر کو بھی یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے
طالب ہیں ''(سورۃ الضحیٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)یتیم پر ستم مت ڈھاؤ
اور سائل کو مت دھتکارو ''غرباء ومساکین اوریتیم کے ساتھ ہمدردی اورغم
گساری اللہ عزوجل کو کتنی پیاری ہے کہ انہیں جھڑکتے ستانے اور ان پر ہرظلم
کرنے سے منع فرمادیا ۔یہ بے چارے وہ لوگ ہیں جو خود ہی زمانے کی سختیاں
جھیل رہے ہیں بھوک، پیاس اور فقروفاقے کی شدتیں برداشت کررہے ہیں ان کے
ساتھ حسن سلوک کرنیوالے، ان کمزور ونادار لوگوں کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ
کرنے والے ،انسانیت کا درد رکھنے والے قابل تحسین لوگ ہیں۔۔۔ |