حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ غیر مسلم دانشوروں کی نظرمیں

61 ہجری 10 محرم میدان کربلا میں شہید ہونے والے سیدنا حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو سارا زمانہ سلام کہتا ہے۔ حق کو بچانا آپ کا نصب العین تھا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے سر دے کر حق کی لاج رکھ لی۔ زمانے والے آپ کو سچائی کا پیکر تسلیم کرتے ہیں اور ہمیشہ تسلیم کرتے رہیں گے۔ امام عالی مقام رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہرمذہبی عقیدے کی زنجیروں سے آزاد ہوکر تمام انسانوں کے لئے حق پر مر مٹنے اور امن کا پیغام دیتی ہے۔ غیر مسلم بھی حسین رضی اﷲ عنہ ابن علی رضی اﷲ عنہ کے مقدس مشن کو سراہتے ہیں اور اپنا نذرانہ عقیدت تاحشر پیش کرتے رہیں گے۔ (پروفیسر جے سنگھ ‘ انڈیا)

آج سے 48 سال برس پہلے خطیب عالم اسلام پروفیسر حضرت علامہ علائو الدین صدیقی ڈین آف فیکلٹی پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام حسین رضی اﷲ عنہ ڈے منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے سرکردہ افراد نے بھی شرکت کی۔

اچھوت لیگ ڈھاکہ کے صدر شری سوامی کلجگا نند نے امام عالی مقام کے مقدس مشن کو سراہا اور پاک امام رضی اﷲ عنہ کی بارگاہ میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’ہمیں اچھوت سمجھا جاتا ہے دنیا والے ہمیں طرح طرح کے دکھ دیتے ہیں‘ حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں ہم مظلوم ہیں ہم سب اچھوت پاک مظلوم امام رضی اﷲ عنہ کی قدر کرتے ہیں اور ان کی مظلومیت کی پردرد داستان غور سے سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یزید نام ہے برائی کا اور بے انصافی کا اس کے مقابلے میں حسین رضی اﷲ عنہ نام ہے بھلائی اور انصاف کا۔ شری کلجگا نند نے کہا یاد رکھیں نیکی اور بدی ہمیشہ برسر پیکار رہتی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ بدی مٹائیں‘ نیکی پھیلائیں‘ پنڈت ویاس دیو مصرا‘ بار ایٹ لاء دہلی نے جناب عالی مقام رضی اﷲ عنہ کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ امام حسین رضی اﷲ عنہ نے جو کربلا میں پیغام دیا اس کا مقصد یہ تھا کہ انسان ہمیشہ حق کا ساتھ دے اور صحیح رستے پر چلے۔ عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دے اور سدا حق پر قائم رہے۔

1942ء میں ہندوستان میں ’’یوم الحسین‘‘ منایا گیا۔ جس میں سربائی رام جی‘ جی بھائی نے حضرت امام عالی مقام رضی اﷲ عنہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے خوب کہا کہ حضرت امام عالی مقام رضی اﷲ عنہ نے اپنے 72 رفقاء کے ساتھ جان دے کر جو دائمی فتح حاصل کی وہ کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے ثابت کردیا اور ہمیشہ کے لئے دنیا کو یہ بتا دیا کہ اس وقت افراد کی تعداد کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ میدان عمل میں جذبے کی صداقت بروئے کار آتی ہے اور ایک واضح نصب العین سامنے ہوتا ہے۔

نامور مصنف تھامس کار لائل اپنی مشہور کتاب Heroes and Hero Worship میں لکھتے ہیں کہ میدان کربلا کے المیہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کو خداوند تعالیٰ پر یقین کامل تھا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی‘ قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی حسین رضی اﷲ عنہ کی فتح نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔

جب دنیا میں غضب بڑھ جائے تب خدا کا قانون قربانی کا طلب گار ہوتا ہے اور اس کے بعد سارے راستے کھل جاتے ہیں ‘ بہادرانہ کارنامے ایک ملت یا ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ تمام انسانی برادری کی میراث ہوتے ہیں اور دلیری کا سبق ہمیں صرف تاریخ کربلا سے ہی ملتاہے۔ وہ کسی اور تاریخ میں نہیں ملتا۔

امریکی مورخ کے سی جان اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت امام عالی مقام رضی اﷲ عنہ کو قدرت نے اتنا بے پناہ صبر عطا کردیا تھا کہ ان کے استقلال کی مثال کسی دوسرے انسان میں نہیں مل سکتی۔ آپ رضی اﷲ عنہ کا عزم و ارادہ پہاڑ کی طرح مضبوط تھا اور آپ رضی اﷲ عنہ جو کچھ کہتے وہ کرکے دکھاتے تھے اور جو کچھ کرتے تھے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے تھے آپ کی پامردی اور بہادری رہتی دنیا تک تاریخ میں سنہری حرفوں سے مگر آپ کی تکلیف و مشکلات مصائب و آلام خون سے لکھے جائیں گے۔

(گر سرن لال ادیب)

جرمن کے ممتاز فلسفی نطشے نے امام عالی مقام رضی اﷲ عنہ کی قربانی سے متاثر ہوکر عقیدت پیش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ تخلیق کی معراج زہد و تقویٰ کی بزرگی میں ہے۔ یہ شجاعت میں تخلیق کا تاج ہے زہد تقویٰ اور دلیری کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جس کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جوکہ دنیا کی قوموں کے لئے ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی‘‘

مصنف یوتھ نیول باتھ آف لندن ایف جے گولڈ کہتے ہیں کہ محب انسانیت حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنی لائف اینڈ ڈیتھ دونوں کے ذریعہ انسانوں کے دل موہ لینے کی بہترین مثال پیش کی۔(مہندر سنگھ سحر)

’’کاش دنیا پاک امام رضی اﷲ عنہ کے پیغام ان کی تعلیم اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے‘‘ (ڈاکٹر کرسٹوفر)

’’اس دردناک واقعہ نے جو دسویں محرم 61ھ کو رونما ہوا‘ بنی امیہ کی طاقت کو فنا کردیا اور حسین رضی اﷲ عنہ کے نظریہ کی شان کو قائم کردیا اور دین اسلام کو ساری دنیا میں قابل قبول بنادیا… حضرت امام عالی مقام صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ پابند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی‘ ایسی پاک و اعلیٰ روحیں کبھی بھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسین رضی اﷲ عنہ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں کی فہرست میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ مسلمانان عالم کے لئے وہ ایک روحانی شخصیت ہیں اور دوسرے مذہب والوں کے لئے وہ ایک نمونہ ہدایت ہیں کیونکہ وہ اعتبار کردار بے خوف اطاعت باری تعالیٰ کے سلسلے میں تمام عالم سے بے پرواہ اپنے نصب العین کے حصول کے لئے صداقت اور خلوص کے پابند تھے‘‘

(ڈاکٹر ایچ ڈبلیو پی موریٹوبرلن کے فرزند)

میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کی عظیم قربانی کے سامنے اس لئے سر جھکاتا ہوں کہ انہوں نے پیاس کی تکلیف اور موت کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے بیٹوں کے لئے بلکہ اپنے پورے خاندان اور دوستوں کے لئے قبول کرلیا‘ لیکن ظالم حکومت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام کا فروغ تلوار کے ذریعہ نہیں ہوا بلکہ قربانیوں کے ذریعہ ہوا۔

’’میں نے کربلا کی داستان اس وقت پڑی جبکہ میں نوجوان ہی تھا اس نے مجھ کو دم بخود کردیا۔ میں نے کربلا کے ہیرو کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ ہندوستان کی نجات حسینی رضی اﷲ عنہ اصولوںپر عمل کرنے سے ہوسکتی ہے‘‘(مہاتما گاندھی)

’’محمد نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کئے تھے‘ حسین ابن علی رضی اﷲ عنہ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ ان پر ہدایت کی مہر لگادی حسین رضی اﷲ عنہ کا اصول اٹل ہے حسین رضی اﷲ عنہ نے جس قلعہ کو قائم کیا تھا اسے کوئی گرا نہیں سکتا۔(سردار کرتار سنگھ)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283868 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.