’ہمارا بھائی چلا گیا وہ ہماری گھر کی رونق تھا ہم پیسہ لے کر کیا کریں گے
جب ہمارا بھائی ہی ہمارے ساتھ نہیں‘ یہ وہ ٹوٹے پھوٹے جملے تھے جو آہوں اور
سسکیوں کے درمیان آسماء کی زبان پر تھے۔
سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے دوران ہلاک ہونے
والے فیصل رشید کی چھوٹی بہن آسماء رشید تعلیم یافتہ ہیں لیکن غم کی شدت سے
کچھ بولنے سے عاری تھیں۔
اس حملے میں ایک ٹریفک پولیس وارڈن اور چھ ایلیٹ پولیس کے جوان سری لنکا کی
ٹیم کو بچاتے ہوئے حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان میں زیادہ تر تو
دوسرے شہروں یا لاہور سے دور قصبوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن کانسٹیبل فیصل
رشید لاہور کے رہائشی تھے۔
فیصل رشید کے گھر کے مردوں کے چہرے پژمردہ اور آنکھیں سپاٹ تھیں لیکن
خواتین کی آنکھوں سے آنسو روانہ اور زبان پر سسکیاں تھیں۔
ان کے گھر کے باہر افسوس اور ہمدردی کرنے والے لوگوں کی بھیڑ تھی لیکن کوئی
بھی ان کے درد کا ازلہ نہیں کر سکتا تھا۔
تیس برس کے فیصل رشید غیر شادی شدہ تھے۔ ان کے والدین ان کی شادی کے خواب
دیکھ رہے تھے کہ سب خواب چکنا چور ہو گئے۔
فیصل رشید کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا صوم صلوۃ کا پابند تھا لیکن وہ
نہ جانے کونسے مسلمان ہیں جو دوسرے مسلمان کی جان لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور تمام خاندان کا کفیل
بھی کیونکہ اس کے والد دل اور شوگر کے مرض کے سبب کام نہیں کر سکتے۔
لاہور کے شہری اور غیر سرکاری تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے آج
لبرٹی کے گول چکر پر اس جگہ پھول رکھے جس جگہ ان اہلکاروں نے اپنی جانیں
دیں اور سری لنکن ٹیم کو بچایا۔ انہیں شہید کہا جا رہا ہے لیکن ایک ماں کو
تو اپنے بچے کی زندگی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ فیصل کی والدہ کہتی ہیں کہ یہ تو
ٹھیک ہے کہ ان کے بیٹے نے شہادت پائی لیکن وہ خود کو کیسے سمجھائیں کہ ان
سے ان کا بیٹا چھن گیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصل بہت بہادر تھا وہ اپنی مرضی
سے ایلیٹ فورس میں شامل ہوا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ایلیٹ فورس والے گولی کے
نشانے پر ہوتے ہیں اور آخر وہی ہوا۔
آہ وزاری کرتی ہوئی ماں نے کہا کہ ڈیوٹی پر بر وقت پہنچنے والا ان کا بیٹا
گھر سے نہا دھو کر روانہ ہوا اور پھر زندہ واپس نہیں آیا۔
حکومت نے اس سانحے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو بیس
بیس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ پولیس کے ایک افسر نے بی بی سی کو
بتایا کہ یہ دراصل پولیس کے محکمے ہی کا فنڈ ہوتا ہے۔ جو بھی پولیس اہلکار
اپنی ڈیوٹی کے دوران کسی مقابلے میں ہلاک ہوتا ہے تو پولیس کا محکمہ ہی اس
کے وارثوں کو یہ رقم دیتا ہے۔
کیا پیسہ انسان کا نعم البدل ہے ؟ نہیں، یہ کہنا تھا فیصل کے والد حاجی
رشید کا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا کوئی وہ پیسہ لے کر ان کے بچے کو واپس کر
سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا تھا اور اس عمر میں
پیسے سے زیادہ اولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے بیٹے پر
فخر ہے کہ اس نے اپنی جان پر کھیل کر اپنے ملک کے وقار کو بچانے کی کوشش
کی۔
حاجی رشید نے کہا وہ نہیں جانتے کہ اس حملے کے پیچھے کون تھا۔ وہ صرف کرائے
کے قاتل تھے جن کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ایمان اور نہ ہی قومیت ہوتی
ہے۔
غم سے نڈھال اس خاندان کو تسلی دینے کے لیے آئی ایک محلے دار خاتون نے کہا
کہ وہ ان دہشتگردوں کو پیغام دینا چاھتی ہیں کہ غریب ماؤں کے بچوں پر ترس
کھائیں۔ ان کاا کہنا تھا ’ایک ماں بڑی مصیبتوں سے بچے کو جوان کرتی ہے اس
آس پر کہ وہ اس کی خوشیاں دیکھے گی وہ اسے کما کر دے گا لیکن یہ لوگ ماؤں
سے ان کے سہارے چھین لیتے ہیں۔ خدا کے لیے ماؤں سے ان کے بچے نہ جدا کریں۔‘
|