یہ جرم میری آتی نسلیں کرتی رہیں گئیں

محترم قارئین : ان کفار نے حد کردی ۔بہت ہوگیا۔بہت ستالیا۔تم نے پتھر پھینکے ۔گالیاں دیں ۔طعنے دیئے ۔حملے کئے ۔اے کفار لعین ۔اے مکرو فریب ،شیطانیت کے دلدادہ ،اے فحاشی و عریانی میں ماں بہن کی تمیز بھولنے والے ۔تمہیں تاریخ ساز طماچے بھول گئے ۔ہمیں صبر کی تلقین بھی ہے تو ہمیں غیرت مسلم کے اظہار کا درس بھی ہے ۔آؤ سیرت کا ایک واقعہ بتاتاہوں ۔

احمد بن عثمان، شریح بن مسلمہ، ابراہیم بن یوسف اپنے والد یوسف بن اسحاق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت براء بن عازب کو کہتے ہوئے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع کے مارنے کے لئے عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کئی آدمیوں کو روانہ فرمایا یہ لوگ جب اس قلعہ کے قریب پہنچے تو ابن عتیک نے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب یہیں ٹھہرو میں جا کر موقعہ دیکھتا ہوں ابن عتیک کہتے ہیں کہ میں گیا اور دربان کو ملنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ اتنے میں قلعہ والوں کا گدھا گم ہوگیا اور وہ اسے روشنی لے کر تلاش کرنے نکلے میں ڈرا کہ کہیں مجھ کو پہچان نہ لیں لہذا میں نے اپنا سر چھپا لیا اور اس طرح بیٹھ گیا جس طرح کوئی رفع حاجت کے لئے بیٹھتا ہے اتنے میں دربان نے آواز دی کہ دروازہ بند ہوتا ہے جو اندر آنا چاہے آجائے چناچہ میں جلدی سے اندر داخل ہوگیا اور گدھوں کے باندھنے کی جگہ چھپ گیا قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر کچھ رات گئے تک باتیں کرتے رہے جب سب چلے گئے اور ہر طرف سناٹا چھا گیا میں نکلا اور دربان نے جہاں دروازہ کی چابی رکھی تھی اٹھالی اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ آسانی سے بھاگ سکوں اس کے بعد میں قلعہ میں جو مکانات تھے ان کے پاس گیا اور باہر سے سب کی زنجیر لگا دی اس کے بعد میں ابورافع کی سیڑھیوں پر چڑھا کیا دیکھتا ہوں کہ کمرے میں اندھیرا ہے مجھے اس کا مقام معلوم نہ ہو سکا آخر میں نے ابورافع کہہ کر پکارا اس نے پوچھا کون ہے؟ میں نے بڑھ کر آواز پر تلوار کا ہاتھ مارا وہ چیخا مگر وار اوچھا پڑا میں تھوڑی دیر ٹھہر کر قریب گیا اور دریافت کیا کہ اے ابورافع کیا بات ہے! اس نے سمجھا کہ شاید میرا کوئی آدمی میری مدد کو آیا ہے اس لئے اس نے کہا: ارے تیری ماں مرے کسی نے میرے اوپر تلوار سے وار کیا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے پھر وار کیا مگر ہلکا لگا اس کی بیوی بھاگی اور وہ چیخا میں نے پھر آواز بدل دی اور مددگار کی حیثیت سے اس کے قریب گیا وہ چت پڑا تھا میں نے تلوار پیٹ پر رکھ کر زور سے دبا دی اب ہڈیاں کوکھنے کی آواز میں نے سنی اب میں اس کا کام تمام کرکے ڈرتا ہوا گھبراہٹ میں چاہتا تھا کہ نیچے اتروں مگر جلدی میں گر پڑا اور پاؤں کا جوڑ نکل گیا میں نے پیر کو کپڑے سے باندھ لیا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے آکر کہا کہ تم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی خبر سناؤ میں اس کی موت کی یقینی خبر سننے تک یہیں رہتا ہوں آخر صبح کے قریب ایک شخص نے دیوار پر چڑھ کر کہا کہ لوگو! میں ابورافع کی موت کی خبر سناتا ہوں ابن عتیک کہتے ہیں کہ میں چلنے کے لئے اٹھا مگر خوشی کی وجہ سے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی میں تیزی سے چلا اور ساتھیوں کے رسول خدا کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ان کو پکڑلیا اور پھر خود ہی آپ کو یہ خوشخبری سنائی آپ نے پنڈلی پر ہاتھ پھیرا اور میں بالکل تندرست ہوگیا۔(کتاب صحیح بخاری جلد 2)۔۔

محترم قارئین :اب تیر کمانوں سے نکالنے کا وقت آرہا ہے ۔دلوں کے قبلے درست کرنے کا وقت آگیاہے ۔زبان سے اقرار کے بعد عمل سے اظہار کا وقت آگیا ہے ۔اپنے عمل ،اپنی حریت سے دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد کرادینے کا وقت آگیا ہے ۔اسے ایسا سبق سیکھادیں کہ اب اگرزبان سے میرے نبی ؐ کی شان کے خلاف کوئی لفظ نکال تووہ وہ زبان اکھاڑ پھینکیں گئے ۔اگر کسی آنکھ نے ایسا اظہار کیا تو وہ آنکھ نکال باہر پھینکیں گئے ۔جن یہود و نصاری بکواس کریں تو خاموش ۔جب ہم غیرت و حمیت کا اظہار کریں تو جرم۔اے پلپلے مسلمانو!اپنا انجام سوچ لو ۔ابھی سانس باقی ہے ۔مت دنیاکے جاء و حشمت کے پیچھے مرو۔مت کار بنگلے ،گرین کارڈ ،نیشنلٹی کارڈ کے لیے ایمان کا سودا کرو۔زندہ رہنا سیکھو۔مت مردہ دل ہوجاو،۔۔کہ کل تمہاری موت ،تمہاری قبر وحشتوں و عبرتوں کا ساماں بن جائے ۔آؤ !مل کر ہم دشمن کو بتادیں ۔۔۔۔کے غیرت مسلم زندہ ہے ۔۔۔۔۔۔ہاں غیرت مسلم زندہ ہے ۔۔۔گستاخ ِ نبی کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا ۔۔۔سر تن سے جدا بس ۔۔۔اس پرسمجھوتانہیں ۔

محترم قارئین :شاید آپ میں سے مجھے کوئی شدت پسند جانے ،کوئی دہشت گرد کہ کے پکارے ،شاید کوئی تعصب پسند کہنے میں عار محسوس نہ کرے ۔ممکن ہے کوئی اپنے تاثرات سے ڈانٹ ڈپٹ کردے ۔میں بغیر سوچے سمجھے ۔اپنی بات پر قائم ہوں کے جومیرے نبی ؐ کی شان میں گستاخی کرے اس مردود کا جسم پلید صفاہستی سے مٹادینا چاہیے کہ اس کی نحوست سے ہم محفوظ رہیں ۔۔۔۔ہاں ۔۔۔میری جان ،میرامال ،میرا سب کچھ میرے نبی ؐ کی عظمت پر قربان ۔اگر عشق مصطفی ،حب مصطفی کرناجرم ہے تو یہ جرم میری آتی نسلیں کرتی رہیں گیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یااللہ !مجھے اپنی محبوب کی محبت میں موت عطافرمانا۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542228 views i am scholar.serve the humainbeing... View More