اے ظہورذرااحتیاط سے ،ذراادب سے ،ذرادھیرے
سے ،تعظیم کی جاہ ہے ،ادب کی جاء ،بلند مقام ،رفعت و معراج کے مرکز کو بیان
کرنے لگاہے ۔ذرادل سنھبال کے ،اعصاب کو بحال کرکے لکھنا ۔کہیں ایسا نہ تیری
ذرّہ برابر خطا تیرے ساری زندگی کے مجاہدوں ،ریاضت کو خس وخاشاک نہ کردے ،برباد
نہ کردے ۔دل مچلاجارہا ہے ۔کہاں سے آغاز کروں ۔کس طرح آغاز کروں ۔کن الفاظ
سے کروں کہ مجھے کورے ،علم سے پیادہ کے پاس اک عشق ہی تو ہے ،اک پیار ہی تو
ہے ،اک عقیدت ہی تو ہے ۔نہیں رکتادل ۔بے ربط ہوئے چلاجارہا ہے ۔آنکھیں ہیں
کہ چھلک رہی ہیں ۔پھر عقل و شعور سے اک شور سنتاہوں ۔اُٹھو بے ہمت ،کمزور
کیا ہوگیا تمہیں تمہارے پہلوں نے تو ایسانہیں کیا۔ہمّت سمیٹ کر بیٹھ گیا
ہوں ۔ایسی طلسماتی قوت بیدار ہوگئی ہے کہ شاید ملعون مردودہوتاتو میں اس کی
گردن دبوچ لیتا۔یہ سب ایک پتلادبلا ظہوراحمد دانش کہ رہاتھا۔ہاں ہاں !جذبات
جسم کی طاقت کے محتاج نہیں ۔جذبات اک طغیان ہے ۔اک طوفان ہیں ۔ایساطوفان کہ
جس نے کائنات میں وہ وہ انقلاب کے دیپ جلاکہ بس۔۔۔۔
محترم قارئین :آپ بھی سوچ رہے ہونگے ڈاکٹر صاحب آپ کو کیا ہوگیاہے ۔جب میں
بتاؤں گاتو آپ کو بھی وہی کچھ ہوگیاہوگاجو مجھے ہوا۔جب میری سماعتوں سے
ٹکرایاکہ ایک لعنتی ،خبیث ،لعین نے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ،میرے دل کے چین ،میری
آس ومید کے جہاں ،سرور جہاں ،آفتاب دوجہاں ،ہم کمزور امتیوں کے سہارے ،میرے
نبی پیارے ؐ کی شان میں گستاخانہ فلم بنائی تو تن بدن میں آگ لگ گئی ۔کچھ
ہی دن پہلے میراروڈ ایکسیڈنٹ ہواہاتھ میں تکلیف تھی ۔لیکن مجھ سے رہانہیں
گیا۔ضمیر نے بہت کوسا،چنانچہ حاضر خدمت ہوں ۔
میرے پیارے ربّ نے مجھے طاقت عطافرمائی ۔سوچنے ،سمجھنے اور اپنے جذبات کو
آپ تک پہنچانے کاشرف عطافرمایا۔اے اللہ تیراشکرہے ۔
محترم قارئین:
نبی اکرم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے بلا شبہ ہزاروں پہلو ہیں اور بنی نوع
انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے اعتبار سے ہر پہلو دوسرے پر سبقت لے جانے
والا ہے۔ مکہ میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہونا اس بات کی دلیل
ہے۔جہاں جہاں میرے نبی ؐ کی شان میں کسی نے کوئی ناگواری ،گستاخی کی میرے
ربّ نے اس کا پرزور رد فرمایا۔چنانچہ امیہ بن خلف آپؐ کو دیکھتے ہی گالیاں
بکنا شروع کر دیتا تھا اور لعن طعن کرتا تھا لیکن آپ ؐنے اس کے جوب میں
ہمیشہ خاموشی اختیار کی حتیٰ کہ اللہ نے قرآن مجید میں اس کا جواب
دیا:''وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ'' بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر
ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ
پیچھے عیب لگانے کا۔
جب رسول اکرمؐ کے صاحبزادے عبداللہ فوت ہوئے تو ابولہب،عاص بن وائل،ابوجاہل
وغیرہ نے آپؐکوبے نام و نسل ہونے کا طعنہ دیا۔لیکن آپؐ نے اس کا کوئی جواب
نہ دیا اللہ نے قرآن میں اس کا جواب یوں دیا،اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ
الْاَبْتَرُ یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے ۔
مکی زندگی کے سال اسی طرح کی مشکلات میں گزرے ہر کوئی اہلِ اسلام کو پریشان
کرنے کا طریقہ سوچتا رہتا کوئی موقعہ ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے تھے مکی
زندگی میں اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا تھا مگر یہاں صرف وہ واقعات پیش
کرنے ہیں جس میں نبی علیہ السلام کی ناموس کو نشانہ بنایا گیا۔
تاریخ کے صفحات میں جہاں کفار کے گھناونے جرائم اور ظلم و ستم کی داستانیں
محفوظ ہیں ۔کفار نے ہر دور میں اسلام اور اہل اسلام پر شب خون مارا ۔ہماری
ناموس و عزت پر حرف اُٹھایا۔ہر دور میں نت نئے انداز میں تنگ کیا ۔جیسا کہ
سیرت میں ہے کہ :آ پ ؐمسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے،کفار بداطور نے مشورہ
کر کے سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی آپ کی کمر پر رکھ دی اور خود کھڑے
ہو کر قہقہے لگانے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ملی اور
انہوں نے آکر اوجھڑی ہٹائی اس وقت آپ ؐنے تین بار فرمایا اللھم علیک بقریش
فرمایا:مشرکینِ مکہ کے ظالمانہ اور استہزاکیا۔۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ ؐ کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ تسلیم کیئے بغیر
چارہ نہیں کہ آپؐاپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے بالکل ویسے ہی تھے جیسا
کہ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا:اے محمدؐبےشک آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر
فائز ہیں(سورۃ القلم )
اخلاق کا ایسا عظیم مرتبہ جس پر اس کائنات کا کوئی دوسرا انسان فائز ہے نہ
ہو سکتا ہے۔
یہ سب حالات تھے مکہ کے مدینہ میں جب ہجرت ہو گئی اور درالسلام بن گیا تو
اللہ نے جہاد اور قتال کا حکم نازل فرمایا مکہ میں صبر کرنے کا حکم ہم کو
ملتا ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ مسلمان ڈرتے تھے۔ نہیں بلکہ اللہ
کی اس میں کوئی حکمت تھی جو ہر معاملے پر صبر کرنے کو کہا گیا۔جیسا کہ
ارشادباری تعالی ٰہے : '' اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی
بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی
اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ کہ ہماری امداد ان کو پہنچی اور
اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں ، اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی
بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔( سورۃ الانعام آیت نمبر۔)
محمد بن علاء ، زید بن خباب، عمرو بن عثمان بن عبدالرحمن، حضرت سعید بن
یربوع مخزومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے
دن فرمایا تین ایسے شخص ہیں جن کو میں امان نہیں دیتا نہ حل میں اور نہ حرم
میں اس کے بعد آپ نے ان تینوں افراد کے نام لئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ان تین
میں مقیس بن ضباعی کی دوباندیاں بھی تھیں (یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی شان میں گستاخانہ کلام پڑھا کرتی تھیں) ان میں سے ایک قتل کی گئی اور
ایک بھاگ گئی اور بعد میں مسلمان ہوگئی۔
محترم قارئین:ہم پرامن لوگ ہیں ۔۔ہمارے نبی ؐ امن کے سب سے بڑے داعی ہیں
۔۔ہماردین امن کاسب سے بڑا پیغام ہے ۔۔ہماری تمام تاریخ اُٹھاکر دیکھو لو
جہاں جہاں درست معنوں میں اسلامی تعلیمات رائج رہیں وہاں وہاں صبر و
استقلال کی عظیم مثالیں قائم ہوئیں ۔۔کفار نے ظلم کیا جبر کیا برداشت کیا
۔حملہ کیا برداشت کیا ۔۔ہمیں لعن طعن کیا برداشت کیا ۔لیکن ایک ہستی ایسی
ہیں جب جب اس ذات پر حرف آیا۔ہماری خاموش زبانوں شعلے انگلیں لگیں ۔جذبات
بھڑک اُٹھے ۔ترکش میں پڑے تیر کمانوں میں آگئے ۔۔۔بیرکوں میں بیٹھے جوان
مقتل گاہ کو پہنچ گئے وہ ہستی ہی ایسی ہستی ہیں جن کہ بارے میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے :اللہ تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔ (ان سے) کہو کہ اگر
تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور
تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت
جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو
تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول
سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے
آئے اپنا حکم، اور
اللہ نور ہدایت سے نہیں نوازتا بدکار لوگوں کو،( سورۃ التوبہ آیت نمبر )
وہ شان ایسی بلند ہے کہ :
نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک
اس کے والد اور اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔صحیح
بخاری جلد 1: کتاب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنا ایمان
کا ایک جزو ہے۔۔۔
بھلا پھر کیونکر ہم خاموش رہیں ۔۔مت کھیلو ہمارے جذبات سے ۔۔مت ہماری حدود
کو پار کرو۔۔۔مت ہماری اساسوں پر حملہ کرو۔۔۔۔ہماری جرئت و بہادری سے واقف
ہوجانتے ہو ہم نیل کے ساحل لیکر تابخاک کاشغر تک کے راہی ہیں ۔۔شرق و غرب
ہمارا ۔۔۔ذراسنبھل کے ۔تمہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔۔۔غیرت مسلم زندہ ہے
۔۔۔۔غیرت مسلم زندہ ۔۔۔ہاں غیرت مسلم زندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔گستاخ رسول کی بس ایک
ہی سزا سر تن سے جد ۔۔۔۔سرتن سے جد ا۔۔۔۔۔
محترم قارئین:اک بات کہوں ۔۔سنیں گئے ۔۔خدا کے لیے خدا کے لیے اپنے نبی سے
پیار اپنے نبی سے عشق کا اظہار فقط ریلیوں سے نہ کریں ۔ہمیں کچھ عملی
اقدامات بھی کرنے ہونگے ۔۔۔۔ہمیں اپنے ظاہر و باطن کو عشق ِ نبی کا آئینہ
دار بنانا ہوگا۔۔ہاں ہاں ۔۔۔۔سچ ورنہ ۔۔۔نکالتے رہو۔۔۔نکلتے
رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسپیکر ز پر عشق و محبت کی مالاجپتے رہو۔۔توڑ پھوڑ کرکے اپنوں
کو تنزلی کے عمیق گھڑوں میں دھنساتے چلے جاؤ۔۔۔وہ تو دور ہیں ۔۔۔اپنا غصہ
اپنے بھائیوں پر اتارو ۔۔۔۔۔مارو جان سے اُنھیں ۔۔اسے کیوں کسی مہاجر ماں
نے جنا۔۔اسے کیوں کسی پٹھان نے جنا۔۔۔ذرا او ر زور سے مارو اسے کیوں کسی
پنجابی عورت نے جنا ۔۔ہاں تم ٹھیک ہو۔۔لگادو گاڑیوں کو آگ ۔۔ہم اونٹوں پر
سفر کریں گئے ۔۔۔۔۔ہاں ہاں رکشہ چنگچی بھی نہ بچیں ۔۔ویرگڈ ویرگڈ بہت خوب
بہت خوب ۔۔لیاری سے ہم گدھے گاڑیاں لے آئیں گئے ۔جلادو دکانیں ۔۔۔ہم پتے
کھاکر گزارا کرلیں گئے ۔۔۔بھائی جان بھائی ادھر ادھر اسکول بھی ۔جی جی
لگادیں اسے ٹھکانے کیوں کہ یہیں سے امن کا درس ملتاہے ۔۔۔وہ دیکھووہ بینک
لوٹ لوٹ ۔۔تھیلی لائے ہو چلو کوئی بات نہیں جتنے ہاتھ لگ گئے بجلی کا بل
۔۔گیس کا بل ۔۔بچوں کی فیس تو ہوجائیگی نا۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔خداکا خوف کرو
یار!کیا ہوگیا ہے آپ کو۔شرم نبی خوفِ خدایہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ۔کیوں
بدنامی کا پٹہ لیے پھر رہے ہو۔۔۔عالمی دنیا تم سے نالاں ہے ۔۔۔یار
یار۔خداکا واسطہ ہے کچھ خیال کرو۔۔۔کچھ خیال کرو!کیوں وہ راستے اپناتے
ہو۔۔۔دنیا میں تو خوار ہوئے ۔۔۔آخرت میں بھی شفیع روزشمار ؐ کی بارگاہ میں
بھی ندامت و پشیمانی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز پلیز ۔۔۔۔۔۔کردار بنیں ۔۔۔معیار بنیں
۔۔۔۔معمار بنیں ۔۔اعتبار بنیں ۔للکار بنیں ۔۔منار بنیں ۔۔۔۔۔ |