3۔ بیان الناس
مفہوم آیت :۔(1:3 ) مالک ہے یوم دین کا
دین کیا ہے ۔ دین بہت ہی وسیع معنی والا لفظ ہے ۔ غلبہ۔ اقتدار۔ حکومت۔
آئین۔ فیصلہ ۔ جزاو سزا۔ بدلہ یہ ایسی کوئی بھی صورت حال میں دین کے لفظ سے
بات کی واضاحت کی جاسکتی ہے۔
انسان ایسے میں خود اپنی راہیں اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق منتخب نہ کرئے
نہ ہی اپنی قوت سے دوسروں کو مائل کرکے زمین پر اپنی حکومت قائم کرنے کی
کوشش کرئے ۔ یہ مذہب ہی کی ایک صورت ہوگی کوئی بھی ایسا نظام جو دنیا و
آخرت کے لے بھی بنایا گیا ہو مذہب ہوسکتا ہے اور مذہب دین کی ضد ہے ہے۔
انسان کی سوچ و خیالات پر مبنی قانون کا مالک انسان اور یہ راستہ ایک مختصر
دائرے کے لے ہوتا ہے نہ کہ انسانیت کے لیے دین اسلام اللہ کا منتخب کیا ہوا
راستہ ہے ۔ اس کا خالق اور مالک خود اللہ ہے-
خود کو مخلوق تسلیم کرکے اللہ کے دین کے مطابق زندگی کا بسر کرنا دنیا میں
بھی جنتی زندگی اور آخریوم دین میں بھی جنتی زندگی قرآن کریم اللہ تعالی کا
کلام ہے اس کلام میں دین جس طرح سے بیان ہو ا ہے اس پر ہمیں ایمان لانا
ہوگا یوں ہماری دنیا و آخرت کامیاب ہوسکتی ہے ۔
مختلف وقت حالات ماحول میں مناسک مختلف ہوسکتے ہیں مگر انسانی ہر عمل خالق
کے لے احکام خداوندی کے مطابق بسر ہو ۔ دین کی واضح ہدایتیں ہر انسانی
معاشرے میں یکساں ہے جیسے محکوموں کو آزاد کرنا ۔ بھوکوں کے کھانے کا
بندوبست کرنا ۔ محتاجوں کے لے رزق کا انتظام کرنا ۔ یتیم کا رفیق بننا۔
مسکین کو گلے لگانا۔ اپنے اپنے دائرے میں عمل کرتے ہوئے فرد سے قوم تک اپنے
طور پر یہ کام انجام دے۔
ان اعمال کو انجام دیتے ہوئے آپ کو ایسے مواقعہ بھی میسر آتے ہیں کہ آپ
انسانوں پر حکومت کرسکتے ہیں یہاں یہ بات کو یاد رکھنا ہے کہ روز جزا کے دن
کا مالک اللہ ہے ۔ یہ حکومت ہم اللہ کے حکم کے مطابق کرتے ہیں یا اپنی انا
کی تسکین کے لے کرتے ہیں-
عقل مند لوگ بھی دولت جمع نہیں کرتے بلکہ اس سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں
حاصل شدہ دو لت مکمل گردش میں رکھ کر انسانیت کی فلاح کرتے ہوئے زندگی بسر
کرتے ہیں ایسے ہی لوگ دنیاوی زندگی میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور یہی عقل کا
راستہ ہے-
مفہوم :۔ اردو تراجم سے ماخوذ |