تعظیم و احترام اور عصرِ حاضر کے مُسلمان

تحریر ابوزین پیر سید محی الدین محبوب حنفی قادری سجادہ نشین خانقاہ محبوب آباد شریف حویلیاں

اسلام ایک مُکمل دین ہے جس میں عقائد عبادات معاملات،اخلاقیات،روحانیت،سیاست،عائلی خاندانی اُمور،انفرادی اجتماعی معاملات اور اس کی تہذیب و اصلاح و حقوق کی فراہمی اور ذمہ داریوں سے ٓٓآگاہی دینی تعلیمات کا ایک مستقل حصہ ہے۔جو لمحہ بہ لمحہ انسان کے لیے ایک دستُور کے طور پر راہنمائی مہیاکرتا ہے۔اسلام ہر پہلو سے کامل،قابل عمل،ہر دور کے لیے لائق نفاذضابطہ خالق کائنات ہے۔انسان کو ترقی و کمال تک پہنچانے کے لیے جن ضوابط و قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ان میں احترام باہمی کو بہت غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔خُصوصاََ مذہبی معاملات، عقائد و نظریات ایسے حساس اُمور میں سے ہیں کہ جب ان کی تحقیر و توہین و استخفاف و اھانت کا ارتکاب کیا جا رہا ہوتوفرد معاشرہ اسلامی کی انفرادی و اجتماعی قُوت برداشت کے لیے و مظاہرہ صبر اور اس پر ایسے مرحلہ میں گستاخانہ کافرانہ ذہنیت و کاوش کا جواب نہ دینا ناممکن ہو جاتا ہے۔اُمت مُسلمہ کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ انبیاءسابقین سمیت آقاو مولا حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم سے بے پنا ہ محبت و عشق کرتے ہیں اور آپ کا آدب و احترام اپنے دین و ایمان کی جان سمجھتے ہیں اور جو کوئی کسی بھی طرح آپ کی بے ادبی گستاخی کا مرتکب ہو اُسے بدترین مُجرم اور انتہائی سزا کا مُستحق قرار دیتے ہیں۔تعظیم و عزت و احترام و ادب کا روزمرہ زندگی میں بہت اہم مقام ہے۔کیا ہم اپنے بچوں کو اس امر کی تربیت نہیں کرتے کہ وہ ماں باپ ، اساتذہ ،بڑوں،سکول کے قواعدو ضوابط، ٹریفک کے قواعد و ضوابط ،خاندانی قواعد و ضوابط اور ثقافتی رسُوم و رواج کی پابندی کریں۔اور اُن کا لحاظ رکھیں؟دوسروں کے جذبات اور اُن کے حقوق کا احساس کریں۔اپنے مُلک کے جھنڈے اور اپنے مُلک کے سیاسی و مذہبی و علاقائی و روحانی راہنماﺅں کا احترام کریں۔ہماری زندگی کا ہر لمحہ ہماری اپنی عزت نفس کی بحالی وتحفظ میں کس محنت و کوشش سے بسر ہوتا ہے یہی عزت و احترام تعظیم و ادب کی اہمیت کو سمجھنے میں کافی ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلسفہ نے خصوصیت سے اخلاقی و سیاسی فلاسفی پر بہت بحث و تمحیص کی ہے کیونکہ معاشرے میں مساوات و انصاف ،لاقانونیت و محرومیت ،حاکمیت و نیابت ،اخلاقی و سیاسی حقوق و فرائض،اخلاقی ترغیبات و اخلاقی ترقیات ،ثقافتی نوعیات اور تحمل ،سزا اور سیاسی خلاف ورزیاں وہ اُمور و اشغال ہیں جو اخلاقی و سیاسی فلاسفی کا مبحث ہیں۔

آج کا معاشرہ جہاں بہت سے گو نا گوں مسائل کا شکار ہے اس میں سب سے اہم مسئلہ معاشرتی ضرورت و معاشرتی اکائی کے طور پر ادب و احترام تعظیم و توقیر و عزت نفس کا مسئلہ ہے جس کو بہت سی جہات سے حملوں کا سامنا ہے کبھی ہم مذہبی استحصال کی صورت اس تکلیف کا سامنا کرتے ہیں کبھی ہم سیاسی استحصال کی صورت اس کا شکار ہوتے ہیں۔کبھی ہم باہمی روابط میں غیر متوازن رویہ کی وجہ سے اس کے نتائج سے دوچار ہوتے ہیںلیکن یہ ضروری نہیں کہ اس اہم معاشرتی حق اور انفرادی و اجتماعی فریضہ سے ہم اُن لوگوں کے ذریعے تکلیف اُٹھائیں جن کو علم و تحقیق سے شغف نہیں ہوتا تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ اس معاشرتی دہشتگردی (Social Terrorism )کا مظاہرہ دینی علم رکھنے والے اور دُنیاوی علم رکھنے والے افراد بھی کرتے ہیں۔جب عام فرد سطحی معیار فکرو عمل سے تعلق رکھنے والا اس جُرم کا مرتکب ہو تا ہے تو عموماََ دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ بے بس و لاچار ہو کر مخالف دھڑے کا ہدف اور لقمہ اجل بن جانے والا عبرت و قصہ اوراق بن جاتا ہے جبکہ مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والے معاشرتی دہشتگرد یعنی ہمہ جہت بے ادب و گستاخ بہت سی حفاظتی دیواروں حصاروں میں زندگی کے ایام سے متلطف ہوتے رہتے ہیں کبھی وہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں یہ ارتکاب کرتے ہیں کبھی منطقی اصطلاحات کی پُشت پناہی میں اس نوعیت کے اقدامات کرتے ہیں لیکن فکر و مقصد ان معاشرتی دہشتگردوں کا ایک ہے کہ انسانی معاشرہ کو اقدار سے خالی کر دیا جائے۔حفظ درجات و مقامات کو ایک خود ساختہ نظریہ اور ناقابل قبول عمل قرار دے دیں۔ادب و احترام کا نظریہ کوئی آج کا تازہ نظریہ نہیں یہ اتنا ہی قدیم انسان کے لیے نظریہ ہے جتنی قدیم اُس کی تخلیق ہے۔یا تخلیق کائنات کے ساتھ ہی اس نظریہ کو قائم کیا گیا۔

حضرت ابو البشر سید نا آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد فرشتوں کی جماعت پر پیش کر کے اللہ خلق کائنات نے اُن سے سجدہ کروایا یہ تاریخ ادب و احترام آدمیت کا پہلا باب ہے۔لیکن جہاں سے باب ادب و احترام کا آغاز ہوتا ہے وہیں پر بے ادبی و گستاخی بے باکی شوخی جراتِ ناپسندیدہ کا بھی آغاز ہو گیالیکن اس بحث میں طُول کی بجائے ہم مفہوم کو واضح کرتے ہوئے قارئین کو سمجھانا چاہیں گے کہ ادب و احترام کا خمیر ملکوتی مخلوق کا وصف امتیازی ہے جبکہ بے ادبی و گستاخی اوراھانت عزازیلی طینت کا حصہ ہے۔

قرآن کریم کی متعدد آیات ادب و احترام کو واضح کرتی ہیں اور اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اُس کو اپنے زندگی کا حصہ بنا لیں اپنے افکار و معاملات میں توازن و اعتدال کیلئے اس کو میزانِ حسن و تہذیب بنا لیں کیونکہ دین ربانی میں ہر پہلو ہر تقاضا ہر تعلیم ہر خبر ادب و تعظیم کی خوشبو ﺅں سے مملو لبریز ہے۔سورة بقرہ کی آیت نمبر 238 میں ارشاد ہے حافظو اعلی الصلوات والصلاة الوسطی وقوموا للہ قانتین یہاں پنج وقتہ کی ہمیشگی مداومت مواظبت و مکتوبیت اور اس کے وقت کا لحاظ و پاس رکھنے کا امر فرماتے ہوئے بارگاہ الہی میں قیام بوصف قنوت پر متوجہ فرمایا۔حضرت مجاہد نے قنوت کی تفسیر میں لکھا ہے القنوت طول الرکوع و غض البصر والر کود وخفض الجناح یعنی جھکنے کے وقت کو بحالت رکوع دراز کرنا ،نظروں کو نیچا رکھنا،کندھوں کو جھکانا قنوت کہلاتا ہے گویا عبادت کی رُوح اِن خصائص سے ترقی کرتی ہے قنوت خاموشی کو بھی کہتے ہیں یہ خصائص جن احوال سے مترکب ہیں اُن میں غور و فکر سے ہویدا ہو تا ہے کہ ادب و تعظیم اجلال و توقیر طاعت و معرفت مفیدہ کی اساس ہے جو قبولیت پر منتج ہوتی ہے۔خشوع و خضوع و رقت کی حالت اپنے اوپر طاری کرتے ہوئے اپنے مالک کے حضور پیش ہونا آداب عبادت میں اہم ترین ہے تضرّع با لغ کے ساتھ بحالت سجدہ اپنے رب سے مُخاطب ہونا۔بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک خاص نوعیت سے رشتہ بندگی قائم کرناجو خالق کی عظمت و کبریت و صمدیت کے مفاہیم کی مطابقت رکھتا ہو اور بندے کو اپنے چھوٹے ہو نے کا احساس کمزور ہونے کا علم ، محتاج ہونے سے آگاہی اس کی تمام تر ضروریات کے اسباب دستگیری اس کا مالک و خالق و مالک ہی مہیا فرمانے والا ہے۔جان کر مان کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو کر عبادت میں اس طرح قیام کرے کہ اس کی حالت عبادت اُس کو بندہ ظاہر کرے بندگی کے اوصاف اُس کے اعمال سے عیاں ہوں۔ اللہ خالق کائنات نے قرآن کریم میں اسی طرف اشارہ کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا یامریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین یعنی ایسے عبادت کرو جو عاجزی ادب و تعظیم کی غایت پر دلالت کرے حضر ت جابرؓسے روایت ہے کہ حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے ارشاد فرمایاافضل الصلوٰة طول القنوت(روا ہ مسلم)افضل نماز وہ ہے جس میں قنوت لمبا ہو زیادہ ہو ۔قنوت کے معنی میں ابن سیدہ نے مخصص میں لکھا ہے طاعةللہ تعالیٰ وقیل الامساک عن الکلام والخشوع ومنہ قنتت المراةلبعلھاانقا دت والاقناتیعنی رب کا فرمانبردار ہوناگفتگو تک کی پابندی کرنے والا عاجزی اختیار کرے اسی طرح وہ عورت جو اپنے خاوند کی فرمانبردار ہو تابعدار ہو اسی مادہ ترکیبی سے اس کے لیے امراة قنوت کہا جاتا ہے۔ حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا جو کوئی روزانہ قرآن کریم لاریب ضابطہ کائنات کی سو آیات کی تلاوت کرے اُس کو باری تعالیٰ خالق کائنات قانتین میں لکھ دیتا ہے یہ تمام حالتیں معانی مفاہیم ادب پر ہی دلالت کرتی ہیں ۔

ادب درحقیقت بندے میں اچھی خصلتوں کے جمع ہونے کا نام ہے اللہ خالق کائنات کا ادب تو اصل الادب ہے اگر یہ حاصل نہیں تو کسی کا بھی ادب معتبر و مفید نہیں۔اللہ تعالیٰ خالق کائنات کا ادب کیا ہے؟اپنی حرکت و خواہش ہر قول اور فکر کو اطاعت الہی کے تابع کر دینا اور اپنی زبان دل اور بدن سے اُس کی گواہی کو قائم کرنا۔
سب سے بُری چیز ٹھٹھہ ،توہین،بے ادبی ،گستاخی ،نافرمانی،بغاوت،سرکشی و عِناد ہے۔جب کوئی اللہ کی آیتوں اُس کے کلام کا ٹھٹھہ مزاح کرے اُس سے کھیل تماشہ کا سلوک کرے اللہ کو گالی دے اُس کی تعلیمات سے اُس کردستور سے منہ موڑے تو یہ دستوری بے ادبی ہے یہ سب سے بدترین جُرم ہے جس کو کُفر کہا جاتا ہے اسی طرح آداب واخلاقیات تہذیب و اصلاح اور تعلق پروردگار کا جو تصور دین حق اسلام نے دیا ہے اس کا دارومدار جس حقیقت پر ہے وہ تعظیم مصطفٰی ہے جس کو تعلق دین کے لیے شرط اور قرب الہی کے لیے بنیاد بنا دیا گیا ہے ایمان کی جڑ اسی سے طاقت لیتی ہے ہمارا دین آسمانی اور اُس کے پیغام کو لانے والا فرشتہ افضل الملائکہ ہے جس نے افضل البشر علی وجہ الارض حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کے دل پر اللہ کے کلام کو اُتارا ہے آپ کا مرتبہ و مقام سب سے بلند و بالا و برتر ہے حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا ادبنی ربی فاحسن تادیبی(رواہ ابن سمعانی فی الاداب الاملاءوالاستملاءص۱،امام السخاوی فی المقاصد ص29،موسوعة الحدیثیة۳/ 390)مجھے تہذیب و شائستگی و آداب سے بہت عمدہ میرے رب نے سنوارا ۔ہر عیب و نقص و عدم کمال سے مجھے بری رکھا اور محمد بنایااور یہ کہ قرآن کریم لاریبضابطہ کائنات میں آپ کی نعت میں یوں فرمایا وانک لعلی خلق عظیم(قلم :۴)حضرت قتادہؓ سے روایت ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ہے سالت عائشة عن خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم فقالت کان خلقہ القرآن(رواہ مسلم و نقلہ علامہ ابن کثیر فی تفسیرہ)علامہ طبری نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس کا معنی ہے وَاِنک یا مُحمدلَعَلَی اَدَب عظیم وذَلِک اَدَب القرآن اَلذی اَدّبَہ اللہآپ اے محمد ادب عظیم پر ہیںوہ قرآن کا ادب ہے جو آپ کے رب نے آپ کو سیکھایا ہے۔

علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے وقال علیؓ و عطیتہ ھو ادب القرآن وقیل ھورفقة بامتہ واکرامہ ایاھم وقیل ای انک علی طبع کریمآپ کے اخلاق تعلیمات آداب قرآنیہ ہیں۔آداب قرآن ہی اخلاق مصطفوی ہیںآپ کی شفقت مہربانی رحم طلبی جو آپ کی اُمت کے لیے وہ آپ کے اخلاق ہی تو ہیں اور یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی طبیعت مبارکہ مزاج مطہرہ نہایت کرم و احسان منت و جود شفقت و الفت سے بھر پور ہے ۔

تفسیر السعدی میں آپ کے اخلاق عالیہ جلیلہ کا تذکرہ یوں ہے کہ وانک یا محمدلعلی خلق عظیم وھومااشتمل علیہ القرآن من مکارم الاخلاق۔مشتملات قرآنیہ اخلاق محمدیہ ہیں۔

آپ کی رسالت و دعوت کا پیغام جن مقاصد کو محیط و گھیرے ہوئے ہے وہ اِن الفاظ سے عیاں ہے انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کیسجیت و طبیعت و مزاج عالی ان اوصاف و کمالات و خصائص سے متصف کی گئی کہ آپ اخلاق کی شرافت و فیاضی سے دنیا کو نظریہ و اصول اخلاق بتمام دکھا دیں ۔کہ آپ ہی وہ ذات ہیں جو ہر اذیت و تکلیف دُور کرنے کے لیے اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔اتنا فیاض اتنا سخی ایسا حامی کہ ہر نوعیت اذیت کو راحت و لطف سکون میں بدل دے ۔اس کی سب سے پہلے صورت یوں ہوئی کہ فرمایا ان دماءکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم ھذا فی شھر کم ھذا فی بلد کم ھذا(ریاض الصالحین ،موسوعتہ النابلسی للعلوم الاسلامیة،صحیح البخاری حاشیہ التاودی علی صحیح البخاری ص356 کتاب الفتن جلد ۳)جس کو پروردگار خالق کائنات نے اپنے ہاتھ سے خلق کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور جو کچھ اس کائنات میں ہے اسے اس انسان کی ماتحت و تسخیر میں دے دیا اس کی حالت ادوار و ازمنہ میں کیا تھی تاریخ کے اوراق اس پر گواہی کے لیے چیخ چیخ کر متوجہ کیا چاہتے ہیں کہ یکایک سید الکونین حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے انسان کے خون کی حرمت قائم کر دی جانی تحفظ دے دیا ،مالی حرمت قائم کر دی غارت گری لوٹ مار ناحق مال کھانے کے سلسلے کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکااور اس کی حرمت قائم فرمائی آبرو کا تحفظ بخش دیا غلامی کے چنگل سے نکال لیاایسے خزائن مروت لٹائے کہ انسانیت عش عش کر اٹھی ،طاغوت استعمار سامراج قبائلی و عصبیت کی فکر کے غلام ہر طرح کی غلامی سے آزادی پا گئے۔پھر حریت کے جامِ عزو وقار پانے والے اس بخشش و فیاضی سے متوجہ ہونے والے کے ادب و احترام میں طلب دیدار اور قرب خواہی کے جذبات و تمنا میں غلام و بے دام خادم بنتے چلے گئے۔عزت بخشی کا یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے دنوں کی طرف مہینوں کی طرف اور شہروں کی طرف بھی نور بکھیرتا گیا آج انسانیت کے معاشروں میں جو تھوڑا بہت تصور امن و سلامتی ہے یہ تاجدارکونین حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی خیرات ہے۔

حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے کائنات میں ایسیفیاضی جودو بخشیش فرمائی ہے جس میں مالی بخشیش ، جانی بخشیش ،عزت کی بخشیش اور علم کی بخشیش بھی شامل ہے ۔فرمایا اتق اللہ حیثماکنت وا تبع السیئة الحسنةتمحھا و خالق الانسان بخلق حسن (جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی،جامع الترمذی)جس حال میں جہاں کہیں بھی تم ہو اپنے رب سے تقویٰ رکھو اور نیکی کے ذریعے بُرائی کو مٹا دو اور مخلوق کے ساتھ حُسن خلق سے پیش آﺅ۔سورة آل عمران میں اس کی تعلیم یوں فرمائی الذین ینفقون فی السراءوالضراءوالکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین(آل عمران 134)امام بغوی نے معالم التنزیل میں لکھا ہے وہ اخلاق جو بندے کو مستحق جنت بناتا ہے وہ سخاوت ہے اسی طرح جامع ترمذی میں باب البرو صلہ میںحضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کا فرمان ہے سخی اللہ کے قریب،جنت کے قریب،لوگوں کے قریب اور جہنم سے دور ہوتا ہے۔سُنن النسائی کتاب الزکوة میں ہےحضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا کہ ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے گیا عرض کیا یا رسول اللہ وہ کیسے؟آپ نے فرمایا ایک شخص کے پاس کثیر مال ہے اس نے مال میں سے ایک لاکھ درہم لیاجسے صدقہ کر دیااور ایک دوسرا شخص ہے جس کے پاس کُل دو درہم ہیںاس نے ایک اپنے لیے رکھ لیا اور دوسرا صدقہ کر دیا۔ اچھے چہرے(طلاقة الوجہ) کے ساتھ لوگوں کو ملنا(غیض و غضب و نفرت) عبوس الوجہ ہو کر لوگوں سے نا ملنا نیکی کی دلالت ہے تاجدارکونین حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا لا تحقرن من المعروف شیئاََ ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلیقنیکی کیسی بھی ہو اس کو کم تر نہ جانو چاہے اپنے بھائی کو مُسکراتے چہرے کے ساتھ ہی کیوں نہ مِلو(صحیح مسلم)سید الکونین حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی اس کائنات میں تشریف آوری اور جس ہیت و طراز سے آپ نے اپنی حیات طیبہ فریدہ گزاری اس کا مطالعہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپمُعلم و مقصود کائنات اس کُرہ ارضی پر اس لیے تشریف لائے تھے کہ مظلوموں کے آنسو پونچھیں،زخمیوں کے زخم پر مرہم رکھیںدُکھ و غم اُٹھانے والوں کے دُکھ درددُور کر دیں۔گمراہوں کو ہدایت سے ہمکنار کریں اور معرفت خواہان ربانی کو لذت وصال حضور قدسی سے نواز دیں۔

حضرت انس بن مالک ،عبداللہ بن مسعود،عقبہ ابن عامر،اسلم ابن شریک،بلال بن رباح،سعد مولی ابی بکرصدیق،ابو ذر غفاری،ایمن بن عبید اور ان کی والدہ ام ایمن مولیا النبی یہ سب حضور کے خادم تھے حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیںمیں نے دس برس حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی خدمت کی حضور نے مجھے کبھی نہیں مارا کبھی نہیں ڈانٹا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ آپ سابقین میں فقیہہ امت اسلامیہہیں ۔دو ہجرتیں کیں ایک حبشہ اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف، بدر میں شریک ہوئے رواةِ حدیث میں سے ہیں اور یہ چھٹے ہیں جو اسلام لائے۔ حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کا ادب دین کا ایسا جزو ہے جس سے دینی وابستگی کو تقویت نصیب ہوتی ہے۔ جس طرح آدابِ الہی میں سیکھایا گیا کہ نماز کے دوران نظروں کو جھکایا جائے، سجدہ گاہ جائے نظر قرار پائی۔ مظاہر ادب محافظت صلوة کے ساتھ آدابِ الہی کو حضورِ حق میں پیشی کا دستوری طریقہ قرار دیا ۔ اسی طرح سورة حجرات میں آدابِ نبوی کی طرف متوجہ کیا: فرمایا یا یھا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھا کرو۔ کسی قول و فعل کے ذریعے اللہ و رسول سے آگے بڑھنے کی ہر صورت ممنوع قرارپائی ۔یعنی ان کی پیروی و اتباع و اقتداءکو لازم جانو۔اس مسودہ قانونی کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کا ہرعمل اورذہن انسانی کی ہر نوع فکر اور قلب انسانی کی جُملہ انواع ھواءاللہ و رسول کی تعلیمات کے تابع ہوںتو ایمانی لذت و دینی رشتہ متعبرہو گا اس وقت تک کوئی بات کسی کو نہ کہو جب تک کہ تمہیں نہ کہہ دی جائے اور کسی بات سے اس وقت تک نہ رکو جب تک اس سے رُکنے کا حکم تمہیں نہ دے دیا جائے۔تقویٰ میں کمی اور ایمان میں کمزوری ادب کے دامن کا ہاتھ سے چھوٹنا ہی ہے پس عمل میں اخلاص للہیت سے پیدا ہوتا ہے اور درستگی سُنت نبوی سے پیدا ہوتی ہے۔ سُنت نبوی کی طرف رغبت اور اس کی ترجیح محبت و ادب سے ہی یقینی ہے اس کے بغیر بے دینی الحاد گمراہی اور جہالت کاغلبہ ہے۔

حضور کا ادب یہ بھی ہے کہ آپ کو ایسے نہ مخاطب کیا جائے اور ایسے الفاظ جو عامیانہ ہوں ان سے مخاطب نہ کیا جائے اور ایسے صیغہ جات جن کا کوئی جُز و پہلو بے ادبی پر دلالت کرتا ہونداءنبوی کے لیے ناجائز و ممنوع و حرام ہے۔لہذا احترام و ادب کا ہر تقاضا ہر کیف ہر انداز جس لفظ و جُملہ و ندائیہ میں پایا جائے وہی حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کے لیے منتخب ہونا چاہیے ۔قر آن مجید فرقان حمید برھان رشید تبیاناََ لکل شئی لاریب ضابطہ کا ئنات میں خالق و مالک کائنات فرماتا ہے۔لاتجعلو ادُعاءالرسول بینکم کدعاءبعضکم بعضاََعلامہ بیضاوی نے تفسیر بیضاوی میں اس آیت کے تحت لکھا ہے لا تقیسو ادعائہ ایاکم علی دعاءبعضکم بعضا فی جواز الاعراض والمساھلة فی الاجابة والرجوع بغیر اذن فان المبادرة الی اجابتہ علیہ الصلاة السلام واجبة والمراجعة بغیر اذنہ محرمة وقیل لا تجعلوا ندائہ وتسمیة کنداءبعضکم بعضا باسمہ ورفع الصوت بہ ولکن بلقبہ المعظم یا نبی اللہ یا رسول اللہ مع التوقیر والتواضع و خفض الصوتحضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کو پکارنے کے لیے الفاظ و ندائیہ کے چناﺅ میں عام لوگوں کے لیے عادتاََ مستعمل و مروج الفاظ پر قیاس کی جرات نہیں کرنا چاہیے۔آپ سے ہر معاملہ میں اجازت خواہی ادب کا اصل تقاضا اور مقبول قرینہ بھی یہی ہے جب کبھی حضرة النبی میں سعادت ورود ہو تو بلا اجازت نہ رُخصت ہو جائے ۔حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی اجازت اور آپ کا ا س باب میں امر فرمانا امور میں شرعاََ واجب ہے اور بِلا اجازت اس میں اپنی مرضی و خواہش کو داخل کر کے کچھ کرنا یا لوٹنا حرام ہے اسی طرح آپ کے آداب میں آپ کو پکار یا آپ کے لیے ناموں کا چناﺅ اس طرز و ہیت سے نہ ہو جیسا کہ عامیوں کے لیے عادت و رسم و رواج ہوا کرتا ہے لیکن اگر بزرگی مرتبہ و شان و منزلت پر دلالت کرنے والے القابات سے ندا ہو تو صحیح ہو گا۔جیسے یا نبی اللہ یا رسول اللہ وغیرہ۔

علامہ محمد نووی بن عمر النبتانی الجاوی نے اپنی تفسیر مراح لبید میں اسی آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے( لا تجعلو ا دعاءالرسول بینکم کد عاءبعضکم بعضا)امرہ ایاکم من الامور کدعوة بعضکم لبعض فتستبطلون عنہ بل اجیبوہ وان کنتم فی الصلاة اذکان امرہ فرضاََ لازماََ- لا تجعلو نداءہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کنداءبعضکم لبعض بِاسمہ و رفع الصوت والنداءمن وراءالحجرات بل نادوہ بغایة التوقیر وبلقبہ المعظم بمثل قولک یا رسول اللہ یا نبی اللہ مع التواضعمعاملات میں سے کسی بھی معاملہ میں حکم نبوی تمہارے لیے اے مخاطبین رسول کریم نہایت ہی غیر معمولی اہمیت و توجہ کا حامل رہنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم عامیوں کی طلب و خواہش و دعوت پر اس کو قیاس کر کہ ٹال مٹول کا مظاہرہ کرنے لگ پڑو بلکہ فوراََ اس کی تعمیل و تکمیل کے لیے بہر طور کمر بستہ ہو جاﺅ ۔اگرچہ تم نماز میں ہی کیوں نہ ہو جب کہ مقام و منزلت مصطفٰی یہ ہے کہ وہ حکم جو میرے محبوب معلم و مقصود کائنات نے تمہیں دیا ہے اس کا پورا کرنا تمہارے لیے فرض و لازم ہے ۔اسی طرح آپ کو ایسے نہ پکارنا جیسے تمہارے ایک دوسرے کو پکارنے کا رواج و طریقہ ہے کہ اُس کے نام کے ساتھ اور آوازیں لگا لگا کر پکارا جاتا ہے (یہ ناپسندیدہ اور ممنوع ہے)بلکہ آپ کو ایسے پکارو جس میں تعظیم و احترام حد درجہ پایا جاتا ہو ایسے القابات سے مخاطب کرو جو عشق و ادب کے سازوں کو چھیڑنے والے ہوں کہا کرو یا رسول اللہ یا نبی اللہ اس میں بھی عاجزی ادب و احترام تعظیم کا مظاہرہ ہونا لازم ہے (تفسیر مراح لبید جلد20صفحہ64)

اُمت مسلمہ ایک ایسا پُر امن عالمی معاشرہ ہے جس میں ادب و عشق احترام صدیوں سے ترقی کر رہا ہے اور اس معاشرے کے پُر امن افراد جُملہ انبیاءو مُرسلین کی تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم کسی رد عمل کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ اُن کا عقیدہ و نظریہ ہے جس کے بغیر وہ اپنے خدا اور رسول اور آخری کتاب سے تعلق قائم نہیں رکھ سکتے کس قدر قوی دلیل ہے کہ اُمت مُسلمہہی دُنیا میں ایک ایسا عالمی معاشرہ ہے جو سب کے ساتھ پرامن رہ سکتا ہے اور رہ رہا ہے۔ ہم نے غیروں کو مخاطب کرنے کے آداب قرآن کریم سے سیکھے کہ اگر یہود کو مخاطب کرو تو کہو یا اھل الکتاب اے کتاب والو! تاکہ ہمارے اور اُن کے درمیان خالق کی کتاب کے سبب راہ و رسم ہو اور معاملات کی سمتیں بھی پروردگار کی خاطر متعین ہوں اسی طرح نصاری کو بھی اہل کتاب کہہ کر مخاطب کرنے کا قرینہ سیکھایاتاکہ ہمارے اور اُن کے مشترکات باہمی تناﺅ کو دُور کرنے کے لیے باعث تسکین خاطر ہوں۔ہم افراد امت مسلمہ کسی نبی کی بے ادبی گستاخی کسی آسمانی نظریہ کی استہزاءو تضحیک کی فکر سے بھی مبتخب رہتے ہیں جبکہ دیگر اُمتوں میں انبیاءو مرسلین کی اس درجہ کی تعظیم کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔کسی عقیدہ کا تمسخر،دینی حقائق کے ساتھ بازاری لچر طرز کا سلوک نہایت افسوناک اور معاشرتی دہشت گردی ہے اور ذہنی پسماندگی کے ساتھ مزاجی انتہا پسندی ہے جب آپ انبیاءمرسلین کی کردار کشی کریں گے تومذہبی طورپر آپ کومذہب سے نفرت پیدا ہوجائے گی اور آج کا یورپی امریکی آسٹریلوی معاشرہ اسی باعث مذہب سے دور ہوگیا ۔یہ اس سوچ کی جہت ہے جو دنیا کو مذہب خاندان اقدار اور حدودسے پاک کردینا چاہتے ہیں اس کا مقا بلہ کرنے کے لیے ہمیں آپس میں اتحاد کی اشد فوری ضرورت ہے جس کے لیے ہماری مذہبی سیاسی علاقائی ثقافتی لسانی قومی صوبائی خاندانی قیادتوں کو ایک ملی فکر ملی وجود کی اہمیت کے تحت متحد ہونے کی ضرورت ہے احتجاج کا رسمی طریقہ بدلنے کے لیے عوامی تربیت کا آغاز کیا جائے ہم اپنے ملک اپنے معاشرے اپنے بازار میں احتجاج کرتے ہیںلیکن نقص امن ،فتنہ فساد توڑ پھوڑ ہوتے ہوئے دیکھ کر لگتا ہے کہ دو الگ الگ طبقات میدان کارزار میں ہیں نتیجةہم اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں اور نادانستہ طور پر دشمن کو بغیر منصوبہ بندی اور رقم خرچ کیے ہمارا نقصان دیکھ کر خوشی اور اپنا منصوبہ پایہتکمیل تک پہنچانے میں غیر متوقع کامیابی ہو جاتی ہے ۔احتجاج سفارتی سطح پر سفارتی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مکمل تیاری کے ساتھ ہونا چاہیے۔احتجاج تجارتی سطح پر نتیجہ خیز موجبات کے ساتھ ہونا چاہیے ہمیں ملکی اور مسلم ممالک کی مصنوعات پر انحصار کرتے ہوئے اپنے معیار علاج معالجہ تحقیق و تعلیم کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ دشمنوں پر انحصار کم سے کم ہو جائے امریکی بے ادبی اور گستاخی پر مبنی فلم بنا نے کا مقصد مسلمانوں کو اذیت و تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ اُن کا مقصد اس سے یہ ہے کہ امریکہ میں پچھلی کئی دہائیوں سےملین کی تعداد میں مسلم آبادی تارکین وطن کے طور پر آباد ہو چکی ہے برطانیہ میں صرف ایک ملین پاکستانی مسلمان آباد ہو چکے ہیںباقی مُسلم آبادی کی تعداد اس کے علاوہ ہے فرانس میں الجزائر مراکش تیونس کے ملینز مسلم آباد ہو چکے ہیں اسی طرح ہالینڈ ،بلجیم ،سپین اور جرمنی میں ملینز ترک مُسلم آباد ہو چکے ہیں اس فلم کا مقصد ان تمام ملکوں کی حکومتوں کو باور کروانا ہے کہ مسلم ناقابل قبول شہری اور نا پسندیدہ ذہنیت کے حامل لوگ ہیں جو کسی کو برداشت نہیں کر سکتے۔اگر آپ ان کو اپنے ہاں ترقی کرنے کی اجازت دیتے رہیں گے تو کل آپ کی ہر سطح کی قیادت میں محمد فلاں علی فلاں حسن فلاں حسین فلاں ابوبکر فلاں عمر فلاں عثمان فلاں کے طور پر براجمان ہوگا ۔اور یوں اگران کی یہ سازش کامیاب ہوگئی توان لوگوں کو وہاں سے دیس نکالا مل جائےگا ۔اور یہ اگراپنے ملکوں میںواپس پہنچ گئے تووہاں اُن کو ترقی و کاروبار کرنے کا موقع پانے کی بجائے ان کی بیخ کنی کے لئے کسی دہشت گردی یا منی لانڈرنگ کے حیلے بہانے سے خاتمے کے اسباب بہانے حیلے موجود ہیں اوریوں امت مسلمہ کو مستقل چیلنجز کا سامنا رہے گا ۔سورة انبیاءکی آیت نمبر ۴۴ کے مطابق ہمیں نظام حق کی بحالی اور تعلق ربانی کی مضبوطی کی کوشش کرتے رہنا ہوگا ۔ہمارا نظام حتمی دنیا میں مقصود ہو گاآج اسلامی بینکاری پوری دُنیا میں رائج و پسندیدہ ہو رہی ہے حضرت امام جلال الدین سیوطی نے تفسیر درمنثور جلد ۴ صفحہ 597 پر اسی آیت کی تفسیر میں قول حسن نقل کیا ہے کہ پروردگار عالم نے اُن تمام علاقوں اور قوموں کو اُن کی ہیت و حالت سے بدل کر رکھ دیااور حضورمُعلم و مقصود کائنات سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کے ظہور کو اُن علاقوں اور قوموں پر اسلام کی فتح اور توحید الہی کا غلبہ بنا دیا آج بھی اسی روح کو تازہ کرنے اور اسی انداز سے ایک قیادت کے ماتحت متحد ہونے کی پوری اُمت مسلمہ کو اشد ترین ضرورت ہے۔سورة الانبیاءمکی ہے مگر یہ آیت مدنی ہے اور اس کے مدنی ہونے کا ثبو ت حکمِ فرضِ جہاد ہے جو کہ مدینہ منورہ میں ہوا دوسرا صاحب حاشیة الشھاب علامہ خفاجی نے اس آیت کے ذیل تفسیراََ اس آیت کا مقام نزول مدینہ لکھا ہے(صفحہ ۴۴۴جلد ۶)جو لوگ رب سے منہ موڑ بیٹھے پروردگار نے اُنہیں خاصیت بشریت اور خاصیت روحانیت کے حصے سے محروم قرار دے دیا۔کُفر کی زمین اور قیادت کم ہوتی جائے گی اور غلبہ حق کاہی ہو گا۔مترجمین قرآن نے طرف کا معنی کنارا کیا ہے لیکن علمائے لغت عربیہ علامہ اصمعی علامہ ابن سیدہ نے طرف کا ایک معنی رئیسھم و علمائھم کیا ہے اس سے یہی مراد لینازیادہ سہل الفہم ہے کہ ان کے اکابر ان کے علم والے کم ہوتے جائیں گے لہذا قیادت کے فقدان کو دور کرتے ہوئے اور شخصی قیادتوں پر زور دینے کی بجائے ایک ملی قیادت کو چُن لینا بہت ضروری ہے وگرنہ آخر کار سید نا محمد المہدی نے تو قیادت کرنا ہی ہے۔ اس سے عروج و صعود و ترقی و کمال کا دورآئے گا اور کفر زوال کا سامنا کرے گا۔
Pir Syed Mohi uddin
About the Author: Pir Syed Mohi uddin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.