کراچی میں امن کے امکا نات معدوم
ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ عام آدمی روز بروز مایوسی میں گر تا جا رہا ہے
ایمان یقین محکم اور عمل پیہم اس عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے ۔ یہ روز بروز
حسد اور مالی منفعت کی تمنا میں ڈوبتا جا رہا ہے ہر کوئی اس کو شش میں ہے
کہ زیا دہ سے زیادہ مالی وسائل حاصل کرے اسی وجہ سے کراچی میں بد امنی بہت
بڑے سر مائے کو جنیریٹ کر تی ہے ، سر کاری اداروں کو یہ الزام دینا صحیح اس
لئے نہیں ہے کہ ان میں کام کرنے والے بھی عوام ہیں ایمان کی بنیاد پر آخرت
کا خیا ل نہیں ہے ، اور اپنی قسمت کا یقین نہیں ہے کہ اللہ نے جو لکھ دیا
ہے وہ مل کر رہے گا کام کرنے کے نام پر طبعیت خراب ہو جاتی ہے سیرو تفریح
کھیل تماشا(Entertainment) زندگی کاسرمایہ ہے جس کو جو موقع ملا ہے اس نے
اس کا فائدہ نہ اُٹھایا تو بہت بے وقوف ہے ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ٓاج کی
دنیا میں ایماندار صرف وہ ہے جسے بے ایمانی کا موقع نہیں ملا لہذا بھتہ کا
مطالبہ ہو پرچی ہو ،موبائل اور پیسہ کی چھین چھپٹ ہو ہر طریقہ آدمی اپنی
صلاحیت اور ماحول کے مطابق استعمال کرتا ہے سرکاری اداروں میں بھی اسی طرح
ہے جس کو جو بن پڑ تا ہے وہاں وہ کیش پیدا کر لیتا ہے اور مفاہمت کی پولیسی
ہر سزا سے بچنے کی ضمانت ہے بقول محشر بدیونی کے "اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا
پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چال چل گیا" اس دوڑ میں سب ایک دوسرے کو
لوٹ رہے ہیں خواہ روزگار پر ہوں ، بے روزگار ہو ں یا کسی پیشے سے منسلک ہوں
اور اسکا معزز ہونا بھی اس لوٹ مار میں مانع نہیں ہوتا جیسے وکیل ، ڈاکٹر ،
اُستاد ،تعلیمی ادارے ، سرکاری ایجنسیاں ہر کوئی اپنے تحفظ میں دوسرے کا
تحفظ بر باد کر رہا ہے ۔
ایک خیال یہ آسکتا ہے کہ دینی طبقہ کہاں کھڑا ہے وہ بھی اس میں کسی سے کم
نہیں اغیار کے کہنے پر اختلافات فرقہ بندی اور منافرت کے بڑے علم بردار ہیں
سب ایک خدا ، ایک کتاب اور ایک رسول پر ایمان رکھتے ہیں مگر ایک دوسرے کو
کافر کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں روپیا بٹورنے کاکا روبار یہاں بھی ہے مگر
ذرا مختلف زاویے سے ۔
ہم میں سے اکثر کے ماتھوں پر سجدے کا نشان ہوتا ہے اور گہرا ہوتا ہے مگر ہم
ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اوردین کے بہانے در اصل ما ل کی لڑئی ہے جس
طرح پرانے زمانے میں چرا گا ہوں پر جنگ ہو جاتی تھی ہم میں اکثر ما تھے
ٹیکنے کی مشق سے کچھ زیادہ نہیں کر تے اللہ کی کتاب سے نا بلد ہیں اور جب ا
سے کسی دوسرے فردکے ذریعہ سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں تو وہ اپنے خیمے میں لے
جا تا ہے اور من مانی سیکھاتا ہے ویسے عموماََ لوگوں کے پاس دین داری اور
خدا خوفی پر توجہ کرنے کا وقت نہیں ہے کام اور Entertainmentیا پھر کسی بھی
طرح کمائے ہوئے مال کی نمائش ہمارا طرۂ امتیاز ہے لہذااگر یہ روشن خیا لی
پورے ملک میں پھیل گئی تو یقیناًہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں |