ملک کی اکثر مذہبی اور سیاسی
تنظیموں نے جمعة المبار ک اکیس ستمبر کو امریکہ کی ذلیل ترین مخلوق کی وجہ
قرار عالمین ﷺ کی شان میں گستاخانہ حرکات کے خلاف احتجاجی جلوسوں کا اعلان
کیا اور ساتھ ہی عوام سے عام ہڑتال کی اپیل کی۔ وفاقی حکومت نے بھی احتجاج
کا اعلان کیا کہ یوم عشق رسول منایا جائے گا اور کنونشن سنٹر اسلام آباد
میں جلسہ ہوگا۔ کسی کی نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ ہم سبھی مسلمان
ہیں اور بقول اعلٰی حضرت بریلوی رحمة اللہ علیہ ۔ ایک میرا ہی رحمت پہ دعویٰ
نہیں شاہ کی ساری امت پہ لاکھوں سلام۔ بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے کہ آپ ﷺ
نے فرمایا کہ اعمال کا تعلق نیت کے ساتھ ہے۔ مقصد اور ارادہ ہی نیت ہے جو
انسانی دل ودماغ سے وابستہ ہے۔ اجر دینے والا اللہ ہے۔ میں حکومتی عشق رسول
کی محفل میں شریک ہوکر حصول ثواب کے لیئے گیا راستہ میں چند مقامات پر
اسلام آباد پولیس نے رکاوٹ ڈالی ۔مگر میں نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ منزل
مقصود تک پہنچ تو گیا مگر وہا ں ویرانی سی چھائی ہوئی تھی اور آرمی کے دستے
تعینات تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مجوزہ عشق رسول کا جلسہ وزیر اعظم ہاﺅ س میں
ہوگا۔ وہاں جانے کے لیئے آگے بڑھا تو بڑے بڑے کنٹینروں کی لائن ایسی لگی
گویا کہ مال گاڑی ہے پھر خیال آیا کہ یہاں تو ریل کی پٹڑی نہیں۔ صدیوں
پرانے لوہے میں غرق صف بستہ لوگ نظرآئے ۔اس جانب سے وزیر اعظم کی بابرکت
محفل عشق رسول میں حاضری کی کوشش کی جوبے سود رہی اور سواد بھی خراب ہوا کہ
مجھے دشمن سمجھ کر امریکی تحفے پھینکنے شروع کردیئے ۔میرا دم گھٹاتوغیبی
مدد ہوئی کہ سر پر رومال لپیٹے ایک جوان نے میرے منہ میں نمک اورچہرے پر
بوتل سے پانی ڈالا۔ مجھے کہا کہ بزرگو تسیں کتھے آگئے ہو۔ میں نے کہا میں
عشق رسول کی محفل میں جانا چاہتا ہوں۔ تو اس نے بتایا کہ اس محفل میں
امریکہ کے خلاف احتجاج کرنے والے نہیں جاسکتے وہا ں تووہی جاسکتے ہیں جو
ہاتھ میں ماڈرن کشکول اٹھائے صدائے فقیر بلند کررہے ہیں کہ امریکہ تیری خیر
ہو تیرے بال بچوں کی ، تیرے یہودیوں تیرے صلیبیوں ، اللہ کے حبیب ﷺ کی شان
میں گستاخیاں کرنے والوں کی خیر ہو۔آب پارہ سے آنے والی سڑک ، اسکی متوازی
دوسری سڑک اورکنونشن سنٹر کی جانب سے آنے والی سڑک پر حد نگاہ تک آدمی ہی
آدمی تھے ۔ یہ لوگ امریکی سفارت خانے جاکر توہیں رسالت پر فقط احتجاج
ریکارڈ کرانا چاہتے تھے۔ مگر عبدالرحمن ملک کی فورسز اس کی اجازت نہیں دے
رہی تھیں ۔ احتجاجیوں نے صرف چند آدمی بھیجنے کا کہا تو بھی وہ نہ مانے اور
حکم دیا کہ چلے جاﺅ۔ انتظامیہ کی فرعونیتی کی وجہ سے صورت حال خراب ہوگئی۔
ملک کی فوج نے عوام پر ڈنڈے برسائے تو نہتے عوام کے پاس جھنڈوں کی سوٹیاں
ہی تھیں۔ وہاں پتھر بھی نایاب تھے مگر جوئیندہ یابندہ والی بات ہے کہ ادھر
ادھر سے اینٹیں توڑ کر انہوں نے روڑے بنالیئے مگر وہ قلیل مقدار میں تھے۔
جذبہ اور عشق رسول سے سرشار نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے روڑے برساتے آگے
بڑھے تو امریکہ کے محافظ پیچھے ہٹنے لگے۔ اب امریکی محافظوں نے پاکستانی
عوام پر امریکہ کے دیئے ہوئے زہریلے شیل پھینکنے شروع کیئے۔ لیکن اہل ایمان
نے اپنے راستے میں حائل دو دیو ہیکل کنٹینر ردی کی ٹوکری کی طرح اٹھا
پھینکے۔ اب جنگ زوروں پر تھی احتجاج کرنے والے نہتے تھے ۔وہ صرف نعرہ تکبیر
اور نعرہ رسالت بلند کرتے تھے اور فورسز کی طرف بڑھتے رہے ۔ کئی زخمی ہوئے
۔ فورسز نے ربڑ کی گولیا ں پاکستان کے احتجاجیوں پر پھینکیں، پھر ہوائی
فائرنگ ہوئی ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کچھ امریکی وفاداروں نے عوام پر سیدھی
فائرنگ کی جس سے ایک جوان کا سر کھل گیا۔ چند زخمی ایمبولنس میں ڈالتے میں
نے خوددیکھے۔ میں کنونشن سنٹر کی جانب ایک پلاٹ میں نماز عصر ادا کر رہا
تھا کہ امریکی محافظوں نے اس جانے زہریلی گیس فائر کی ۔ نماز پوری کرکے میں
نے اپنا روز کا درود شریف ورد پڑھنا شروع کیا مگر گیس کی شدت سے سانس لینے
میں دشواری ہوئی۔ اب اتنی شدید شیلنگ ہوئی کہ ہر طرف دھواں چھا گیا۔ لوگ بے
ہوش ہوکر گر رہے تھے۔ میں قریبی مسجد میں چلاگیا۔ وہاں بدقت خاصہ درود شریف
مکمل کیا۔ واپسی کا کوئی راسہ نہ تھا۔ ہرطرف زہریلہ دھوان پھیلا ہوا تھا۔
کافی دیر بعد کچھ لوگوں کی مدد سے آب پارہ کے قریب پہنچا۔ لب سڑک کوٹھیوں
والوں نے پانی کے پائپ سڑک پر نکال کر مظلوم احتجاجیوں کو سہولت فراہم
کررکھی تھی جہا ں وہ اپنے منہ اور گلے دھو رہے تھے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ
نے سڑکوں پر روشنی بند کررکھی تھی ۔ یہ سب کچھ عشق رسول سے سرشار امت مسلمہ
کو اذیت دینے کے لیئے تھا۔ امریکی محافظوں کی بکتر بند گاڑی اس سمت آ نکلی
اور شیل پھینکے ۔ میں نے دیکھا کہ وہاں چند نہتے جوان بکتر بند گاڑی پر
جھپٹے تو بکتر بند گاڑی ایسی بھاگی گویا کہ گیدڑ شیر سے بھاگ رہا ہے۔ مجھے
بڑی ہنسی آئی۔ حق اور باطل کا فرق سامنے آیا۔ یہ جو عبدالرحمن ملک(عوام نے
ان کا نام رحمن کا متضادرکھا ہوا ہے) جھوٹ کے پلندے بکھیر رہا ہے ایسا وہاں
کچھ بھی نہ تھا۔ پنجاب پولیس کے چھ اہلکار وں کی بات مکر ہے۔ صرف چھ اہلکار
کیوں گئے کیا چھ ہزار نہ جاسکتے تھے؟ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اسلام آباد کے
لوگ تعطیل کی وجہ سے احتجاج میں بھرپور شریک تھے۔ میں نے کئی لوگوں سے
پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ملازمت اپنی جگہ ،ہم اس میں کوتاہی نہیںکرتے
مگر یہ ہمارے دین ایمان کا معاملہ ہے، ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی
ہوئی ہم کیسے احتجاج نہ کریں۔ ہم تو جانیں قربان کردیں گے۔ وہاں چند
نوجوانوں کو دیکھا کہ امریکی محافظوں کا تو کچھ بگاڑ نہ سکے البتہ پولوں پر
زرداری کے لگے پوسٹر اتار کر پاﺅں سے اسکی تصویروں کو روندا۔ آب پارہ چوک
پر لوگوں کا بڑا ہجوم تھا ۔ جبکہ ولا بنک اور سرکاری عمارتیں اور تنصیبات
بھی ہیں مگر کسی نے کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا
مقصد یہ ہے کہ توڑپھوڑ کا واویلا مچا کر ناموس رسالت کے بارے نکلنے والی
عوامی ریلیوں کو بند کرنا ہے ۔ اور عوام کو ہراساں کرنا ہے۔ راہ چلتے لوگوں
کو پکڑکر، نہتے احتجاجیوں کو پکڑ کر جیل بھیجنا امریکی پالیسی کا حصہ ہے ۔
بعض جگہوں پر وفاقی حکومت نے خودتوڑ پھوڑ کرائی۔ جس کی تمام تر ذمہ داری
عبدالرحمن ملک پر ہے۔اب ذرا غور فرمائیے کہ ملک کہتا ہے کہ چھ آدمی پنجاب
پولیس کے، پینتیس ہزار آدمی راولپنڈی سے پنجاب حکومت نے بھیجے۔ پورے پینتیس
ہزار کی تعداد ملک کو کیسے معلوم ہوئی، کیا وہ لوگ کسی مخصوص دروازے سے
گذرے یا ملک کو علم غیب ہے۔ جدید اسلحہ سے لیس آدمی انہیں نظر آئے۔ عوام
بینر وں کی ڈنڈیاں لے کر اسلام آباد قبضہ کرنے گئے۔ اور ملک مارے ڈر کے
ہیلی کوپٹر میں سوار اوپر چلا گیا اور وہاں سے عاشقان رسول پر زہریلی گیس
کے شیلوں کی بارش کرتا رہا۔ مجھے تو خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ اتنی صلاحیتوں
کے مالک اور علم غیب رکھنے والے وزیر داخلہ کو کوئی اور ملک خرید نہ لے
بشرطیکہ امریکہ آڑے نہ آئے۔ واہ سبحان اللہ عوام امریکی سفارتخانے میں
احتجاج ریکارڈکرانے جمع ہوئے نہ کہ کسی خاص تراش سے خط بنوانے ۔ ہمارے
حکمرانوں کا یوم عشق رسول منانا روشن ہوگیا جب جناب غلام احمد بلو ر نے
گستاخ رسول کو جہنم رسید کرنے والے کو انعام دینے کا اعلان کیا اور صدر،
وزیر اعظم ، الطاف کا دہشت گرد گروپ چیخ اٹھا ۔ وہ خبیثوں گستاخوں کے خلاف
نہ بولے اگر بولے تو عاشق رسول اور گستاخان رسول سے انتقام لینے والے کی
مذمت میں بولے۔ چلو اچھا ہوا ۔ غلام احمد بلو ر صاحب نے ہنڈیا کے نیچے آنچ
تیز کردی جو اندر پک رہا تھا باہر نکل آیا۔ وزیر اعظم کے بیان نے واضح
کردیا کہ حکمران امریکہ کی پوجا کرتے ہیں۔ امریکہ میں بنائی جانے والی
خباثت کو ہما رے حکمرانوں کی اشیر باد حاصل ہوگئی۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ
جو ہمارے رسول کا گستاخ اور دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ ایسے کئی خبیثوں کے
قتل کا حکم خود رسول اللہ ﷺ نے دیا۔ جو کچھ بلور صاحب نے فرمایا وہ عین
قرآن و سنت کے مطابق ہے اور جو کچھ انکی مذمت میں پرویز اشرف یا ایم کیو
ایم والوں نے کہا وہ کفر ہے۔ اب مسلمانان عالم خود اس کا فیصلہ کریں گے۔ |