جوں جوں حج کے مبارک ایام قریب
آرہے ہیں مرض میں شدت آرہی ہے ....یا اللہ یہ کیا ماجراہے....تیرے گھر کے
دیدارکا مرض....روضہ رسول ﷺ پر حاضری کا شرف....آخر جذبات کا ایک بحر
بیکراں ہے....دل میں حد درجہ تڑپ ہے....ذہن و قلب پر صرف ایک سوچ ہی حاوی
ہے ....ہائے کاش جانے والے ان خوش قسمتوں میں میرا بھی نام شامل ہوتا ....ہرروز
اُٹھنے والی فلائیٹ تو کلیجہ منہ کو لے آتی ہے ....کبھی محبت کا یہ عالم
ہوتا ہے کہ ہر جانے والے پر رشک آتا ہے اور کبھی یہ کہ یہ کیوں جارہا ہے
میں کیوں نہیں....یہ دن یہ صبح یہ شام ....ہائے حرم کی
رونقیں،برکتیں،رحمتیں....اُف کیا عالم ہوگا....اور میرے آقا ﷺ کا روضہ ،روضہ
مبارک کی وہ جالی ،حسین و جمیل اور بے مثال گنبد حضراء....بس درد کی وہ
کیفیات ہیں جو صرف محسوس کی جاسکتی ہیں اوروہ ناقابل بیان و ناقابل تحریر
ہیں....پھر وہ کونسا لمحہ ہوگاجب میںگنبد خضراءکے سامنے ہونگا ،ریاض الجنة
میں ہونگا....ہاں جب ہی یہ ممکن ہے جب بلاوا آئے گا....میرا نام بھی
سعاتمندوں میں شامل ہوگا....مولا اپنے گھر کے دیدار سے محروم نہ رکھنا ....آقائے
دو جہاں کے روبرو بار بار حاضری کا شرف بخشنا ....مولامدینہ کی زندگی اور
شہر نبی کی موت نصیب فرمانا ....یہ التجائیں صرف میری ہی نہیں میں سمجھتا
ہوں میری طرح ہر اُس شخص کی ہیں جسکو اللہ نے حج و عمرہ کی سعادت سے بہرہ
مند فرمایا ہے ....خلاق عالم کی بے پناہ رحمتوں اور عنایات کے طفیل بے سرو
سامانی کے عالم میں بندہ کو سال گزشتہ میں حج بیت اللہ نصیب ہوا.... میرے
گھر اور خاندان حتی کے دوست احباب بھی بچپن سے مجھے ”حاجی“ کہہ کر پُکارتے
ہیں اور میرے اصلی نام سے کم ہی کوئی متعارف تھا ....چھوٹے بڑے ،اپنے
بیگانے سب ہی حاجی ہی حاجی کہتے تھے میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ حاجی
کیوں کہتے ہیں اور یہ نام کیسے پڑا ہے بعض تو مذاق میں یہاں تک کہتے تھے کہ
جس دن بچپن میں تونے تین روٹیاں ایک ساتھ کھائی تھیں تو اُس دن سے تیرا نام
”روٹیوں والاحاجی“ہوگیا تھا ....والد گرامی کچھ اور بتاتے ہیں اور والدہ
محترمہ کچھ اور....میں کبھی اس بحث میں نہیں پڑا اور نہ ہی کسی کو منع کیا
....البتہ میری ممانی اہلیہ محترمہ قاری عبد الاکبر رحمة اللہ علیہ جو میری
حددرجہ محسنہ اور مربیہ رہیںوہ مجھے اکثر یہ فرمایا کرتی تھیں کہ ....تو
ایک دن ضرور حج کرے گا ....وہ تو اس تڑپ کے ساتھ دُنیا سے رخصت ہوگئی ....لیکن
اُنکے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعدہی ....رب کریم کے کرم سے دل میں حج بیت اللہ
کی سعادت کا داعیہ بڑی شدت سے پیدا ہوا بزرگوں سے دُعاﺅں کی بھی درخواست کی
اور مولا نے چند محبین کے طفیل اس سفر کو انتہائی پُرسکون اور خیر و برکت
والا بنادیا ....اللہ جزائے خیر دے عالم اسلام کی بے لوث آواز ”رابطہ عالم
اسلامی“ کو جو حرمین میں ہمارے میزبان تھے اور عبادات کیلئے بھر پور مواقع
کے ساتھ ساتھ خدمت میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی ....واپسی پر جس شدت سے
مجھے اپنی اس کامیابی کو کسی کے سامنے بیان کرنے کا خیال آیا اور گھنٹوں جن
کی محفل میں بیٹھ کر داستان سفر سُنانے کا شوق رہا وہ وہی نیک سیرت میری
ممانی جان تھی ....آہ اُنہیں میں کیسے سناﺅں اور کہاں سے اُنہیں ڈھونڈ لاﺅ....اللہ
غریق رحمت فرمائے اور کروٹ کروٹ مرحومین اُمت مسلمہ کو جنت نصیب فرمائے ۔
رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد جاوید بٹ ایک واقعہ کے راوی ہیں
جو ایمان افروز اور سبق آموز ہے وہ کہتے ہیں کہ فیصل آباد سے ایک باباجی کے
دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ میں نے حج پے جانا ہے ....اب بابا جی کو زیادہ
کوئی معلومات نہیں تھیں البتہ انہوں نے سنا تھا کہ حج سعودی عرب میں ہوتا
ہے اور وہاں جانے کیلئے اسلام آباد میں سعودی عرب کا دفتر ہے وہاں سے بندہ
حج پے جاتا ہے ....باباجی کا اشتیاق کیسا تھا اور ....رب کریم کے وہ کیسے
مقرب بندے تھے آپ دیکھئے....باباجی اسلام آباد پہنچ گئے رات انہوں نے لال
مسجد میں گزاری اور اگلے دن صبح سویرے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور پوچھتے پوچھاتے
سفارت خانہ پہنچ گئے باباجی گیٹ پر کھڑے چوکیدار کے پاس گئے اور ٹھیٹ
پنجابی میں کہا”او پُت میں حج تے جانا اے“گن مین نے بتایا باباجی ایسے حج
پر تو نہیں جاتے اسکا طریقہ کار ہے فلاں فلاں.... باباجی کی سادگی اور تڑپ
کو دیکھئے نہ کوئی پاسپورٹ نہ زاد سفر اور نہ ہی کسی وزیر ،مشیر کی سفارش
.... دوسری طرف یہی وقت سفیر صاحب کی آمد کا تھا ....گن مین نے باباجی سے
کہا کہ آپ کسی سائٹ پر چلے جائیں ابھی سفیر صاحب نے آنا ہے میری نوکری کا
مسئلہ ہے میرے پر مہربانی کریں وغیرہ وغیرہ....باباجی تھوڑی دور گئے اور
جاکر کھڑے ہوگئے ....پھر اُنہیں کوئی بات یاد آئی اور وہ گارڈ کے پاس آئے
....گارڈ نے پھر منت سماجت کرکے بھیج دیا ....باباجی کوپھر کوئی بات یاد
آئی اور وہ گیٹ پر پہنچ گئے اسی اثنا میں سفیر صاحب کی گاڑی آئی اور
ایمبیسی میں داخل ہوگئی....نامعلوم آج سفیر صاحب کو کیا ہوا جیسا کہ وہ
پہلے سے انتظار میں ہوں انہوں نے پہلی بات ہی یہ کہی اور سٹاف کو حکم دیا
باہر جو باباجی کھڑے ہیں اُنہیں میرے دفتر میں لے آئیں ....حکم کی تعمیل
ہوئی اور باباجی سفیر صاحب کے دفتر میں ڈائریکٹ لائے گئے ....سفیر صاحب کے
پوچھنے پر ....باباجی نے کہا”پُت میں حج تے جانا ای“سفیر صاحب نے مترجم کے
ذریعہ اُنکی بات سنی اور فوری احکامات دیئے کہ ان کیلئے انتظامات کیے جائیں
....پھر باباجی کوسفیر صاحب نے رُخصت کیا ....جیسے وہ گیٹ پر پہنچے نامعلوم
کیا خیال آیا بلکہ میں تو کہتا ہوں اوپر سے آرڈر آیا سفیر صاحب نے باباجی
کو پھر بلایا اور ذاتی جیب سے خطیر رقم نکال کر دی اور رخصت کیا ابھی وہ
گیٹ پر پہنچے تھے ....کہ پھر باباجی کو انہوں نے بُلایا اور اپنے پاس بٹھا
کر ”رابطہ عالم اسلامی“کے آفس فون کرکے حکم دیا کہ باباجی کو ”رابطہ عالم
اسلامی کے خصوصی مہمانوں کی فہرست میں شامل کرکے حج کروایا جائے “....بس
کیا تھا آناًفاناًسب کام ہوئے اور باباجی کے رخصت ہونے تک سفیر صاحب ذاتی
دلچسپی لیکر اس کیس کو دیکھتے رہے ....یہ سب کچھ کیا تھا....یہ کیسی تڑپ
تھی اور کیسا عشق تھا ....یہ کیا انتظام تھا اور کیسے ہوا ....اسباب کی
دُنیا میں یہ جھوٹ محسوس ہوتا ہے لیکن ....قُدرت ہر دور میں اپنی نشانیوں
کا اظہار کرتی ہے .... دوست احباب سے جب بھی حج کی بات ہوتی ہے تو بہت سارے
یہ کہتے ہیں کہ ....ابھی میں نے گھر بنا نا ہے ابھی فلاں کام کرنا ہے ابھی
نہیں بعد میں وغیرہ وغیرہ پھر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اخراجات کیسے ہونگے
....لیکن یہ بات واضح ہے کہ جب بُلاوا آجائے تو انتظامات کی کوئی حیثیت
نہیں ہے میرے والد گرامی مولانا پیر برکت اللہ ربانی فرمایا کرتے ہیں کہ
میرے تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تین چیزوں کیلئے اگر قرض لیا جائے تو رب
کریم جلد ہی اُسکا انتظام فر دیتے ہیں شادی،حج اور ضرورت کے گھر کیلئے ....بہت
سے احباب ارادہ سے بھی گریز کرتے ہیں ....بہر حال ہمیں ہر لمحے اس سعادت
کیلئے ارادہ کرنا اور دل میں داعیہ پیدا کرنا ضروری ہے ....نامعلوم زندگی
کی کتنی سانسیں ہیں ....ہمارا ہر لمحہ غنیمت ہے ....بس فکر کرکے ....توجہ
دے کر ....اور بارگاہ ایزدی میں گڑ گڑا کے اس سعادت کے حصول کیلئے مانگیں
....واللہ اس سے بڑھ کرکوئی دولت نہیں ....اس حوالے سے تلبیہ ”لبیک اللھُم
لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد و النعمة لک والملک لا شریک لک“کا کثرت
سے ورد کریں ....نامعلوم قبولیت کی کسی گھڑی میں آپ کی زبان پر یہ کلمات
جاری ہوں اور رب کریم خزانہ غیب سے انتظام فرمادے بس پھر کیا لطف و عنایت ،کرم
نوازی اور آقاکا دربارکیونکہ جاکر آنے والوں کا عالم کیا ہوتا ہے
ہم مدینہ سے اللہ کیوں آگئے
قلب حیرت کی تسکیں وہی رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
ہم اُسی در پے، اپنی جبیں رہ گئی |