ریاست ِآسام سےمسلمانوں پر ہونے
والے مظالم کے بعداب مسلسل وہاں سے سیلاب کی خبریں آرہی ہیں ۔ گزشتہ ہفتہ
دریائے برہمپترا نے اس موسمِ باراں میں تیسری مرتبہ قہربرپا کیا۔ جس سے
پچھلے ستائیس سالوں کی تباہی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اب تک ریاست کے کل ۲۸
ضلعوں میں سے ۱۹ اضلاع زیر آب آچکے ہیں ۔ مرنے والوں کی تعداد سو سے
زیادہ ہو چکی ہے اور بے خانماں ہونے والوں کی کل تعداد ۳۵ لاکھ کو چھو رہی
ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسی نازک صورتحال میں بھی ریاست کا بے حس وزیر
اعلیٰ ترون گوگوئی جاپان کے غیر ملکی دورے پر روانہ ہو جاتاہے ۔نہتے
مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور پھر آسمانی قہر خداوندی کو جب ایک ساتھ
ملا کر دیکھا جائے تو قرآن حکیم میں بیان ہونے والا باغ والوں کا واقعہ
یاد آجاتا ہے:
ہم نے اِن کو اُسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو
آزمائش میں ڈالا تھا، جب اُنہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ
کے پھل توڑیں گے۔اور وہ کوئی استثناء نہیں کر رہے تھے ۔ رات کو وہ سوئے پڑے
تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بلا اس باغ پر پھر گئی ۔اور اُس کا حال
ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو۔
صبح اُن لوگوں نے ایک دوسرے کو پکارا۔کہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے
اپنی کھیتی کی طرف نکل چلو۔چنانچہ وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے
جاتے تھے۔کہ آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں نہ آنے پائے ۔وہ کچھ نہ دینے
کا فیصلہ کیے ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی اِس طرح وہاں گئے جیسے کہ وہ (پھل
توڑنے پر) قادر ہیں -
مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے ‘‘ہم راستہ بھول گئے ہیں۔نہیں، بلکہ ہم
محروم رہ گئے‘‘اُن میں جو سب سے بہتر آدمی تھا اُس نے کہا ’’میں نے تم سے
کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔ و ہ پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب،
واقعی ہم گناہ گار تھے -
پھر اُن میں سے ہر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگا۔آخر کو انہوں نے کہا’’افسوس
ہمارے حال پر، بے شک ہم سرکش ہو گئے تھے بعید نہیں کہ ہمارا رب ہمیں بدلے
میں اِس سے بہتر باغ عطا فرمائے، ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں‘‘-
ایسا ہوتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب اِس سے بھی بڑا ہے، کاش یہ لوگ اِس کو
جانتے۔
ان باغ والوں کا اصل مسئلہ وہی تھا جو مشرکینِ مکہ کا تھا اور جو بوڈو
قبائل کا ہے بلکہ یہی معاملہ سرحد کے اس پار برما کے بودھوں کا بھی ہے ۔ان
لوگوں نے کسی اور کے باغ سے پھل چرانے کا قصد نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنے
باغوں کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ اس کے باوجود عذاب ِ الٰہی کے مستحق ٹھہرے ۔
ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اللہ رب العزت کی جانب سے عطا کردہ نعمت کو
امانت کے بجائے اپنی ملکیت سمجھ لیا تھا ۔ کسی شہ کو امانت یا ملکیت سمجھ
لینے سے اس چیز کی کیفیت یا کمیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا لیکن اس کے
حامل انسان میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوجاتا ہے ۔ امانت سمجھنے والا شخص
کسی صورت اپنے مالک کے سامنے جوابدہی کے احساس سے غافل نہیں ہوتا بلکہ ہر
لمحہ چوکنا اور ہوشیار رہتا ہے۔وہ اس حقیقت کا معترف ہوتا ہے کہ جس ہستی نے
یہ امانت اس کے سپرد کی ہے اس نے دوسرے انسانوں کا بھی اس میں حق رکھا ہے
۔اپنے آپ کو خیانت کے ارتکاب سےمحفوظ رکھنے کی خاطرامانتدار شخص وسائل کے
تصرف میں اصل مالک کی مرضی کا ازحد خیال رکھتا ہے ۔
اس کے برعکس جو اپنے آپ کو امین کے بجائے مالک سمجھتا ہے وہ وسائل کے
استعمال میں اپنی مرضی کا مختار ہوتا ہے ۔جس کو چاہتا ہے دینا چاہتا ہے جسے
چاہتا ہے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔نیز وسائل و اقتدار کے حصول میں اپنے
آپ کو کسی اصول و ضابطہ کا پابند نہیں سمجھتا۔ اسی فتنہ نے باغ والوں کو
خسارے میں ڈالا اور اسی عذاب میں فی الحال آسام کےاربابِ اقتدارگرفتار ہیں
۔آسام کے چند لوگوں نے ازخود اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اس دھرتی کے
مالک ہیں ۔ وہ اس بات کا فیصلہ بھی کرنے لگے ہیں کہ کسے وہاں رہنے کا
اختیار ہے اور کسے نہیں ہے ؟ آسام کے یہ ظالم لوگ وہاں رہنے اور بسنے والے
کمزور لوگوں کو اپنے مادی و سیاسی مفادکے پیشِ نظر بزورِ قوت ان علاقوں سے
نکال باہر کرنے کا ناپاک ارادہ رکھتے ہیں اور ببانگِ دہل اس کا اعلان کرتے
ہیں۔ بقول ڈاکٹر شبنم سبحانی وہ اپنی حقیقت اور حیثیت سے غافل ہو چکے ہیں
اس لئے بنی آدم میں تفریق ڈال رہے ہیں ؎
ز مین اللہ کی ہے کون ہو تم روکنے والو؟
بنی آدم میں یہ تفریق کی دیوار کیسی ہے؟
تمہیں کیوں ہند کے پروردہ لوگوں سے یہ نفرت ہے؟
یہ کیوں آسام کی سرحد پہ لاکر ان دھکے دے رہے ہو تم
یہ انساں ہیں انہیں سمجھے ہو چوپایوں کا ریوڑ تم
یہ بادل بھی ہوا کے دوش پر بنگال کی کھاڑی سے آتے ہیں
انہیں بھی روک دو گے تم
یہ برہم پتر بھی دوش ہمالہ سے سرک آئی ہے یوں
جیسے کسی مہوش کا آنچل ہو
اسے بھی حکم دوگے تم کہ یہ آسام کی سرحد پہ رک جائے ؟
اپنی اس نظم میں میں ڈاکٹر صاحب نے بجا طور انسانوں کی خودغرضانہ منافقت کی
جانب اشارہ کیا ہے کہ قدرت کی ان نعمتوں کو جو بادل اور دریا کی شکل میں
باہر سے آتی ہیں ان کا استقبال کیا جاتاہے لیکن اپنے جیسے انسان استحصال
کا شکارہوتے ہیں۔ ایسا کرنے والے حیوان بھول جاتے ہیں کہ مشیت کو کسی نعمت
کو زحمت بناتے دیر نہیں لگتی اور یہی منظرآسام کی سرزمین پر فی الحال نظر
آرہا ہے ۔آسمان کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور دریا کی طغیانی نے حدود و قیود
کی پابندی کو روند ڈالا ہے ۔اپنے حدود و قیود کی پامالی کرنے والے انسان
اور یا ندی نالے دونوں ہی تباہی وبربادی کا سبب بنتے ہیں ۔
انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ نعمت کا حصول اور اس سے محرومی دونوں بھی
آزمائش ہیں ۔ اس آزمائش کا احساس غافلوں کو اس وقت نہیں ہوتا جبکہ انہیں
نعمتوں سے سرفراز کیا جاتا بلکہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ اس سے محروم کر
دئیے جاتے ہیں۔قرآنِ حکیم نہ صرف اس کیفیت کو بیان کرتا ہے بلکہ نعمتِ
خداوندی سے محرومی کی وجوہات سے بھی آگاہ کرتا ہے :
مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور
اُسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا
دیا۔اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر
دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ہرگز نہیں، بلکہ تم
یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے۔اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو
نہیں اکساتے ۔اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو ۔اور مال کی محبت
میں بری طرح گرفتار ہو۔
آسام کا مسئلہ سب سے پہلے ۱۹۶۰ میں اٹھا ۔ اس وقت آسام کی سرکاری
ملازمتوں پر بنگالی ہندووں کا قبضہ تھا اور آسام کی سیاست پر مٹھی بھر
کانگریسی خوشحال لوگ قابض تھے ۔جب آسام کے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے
تعلیم یافتہ نوجوانوں نے یہ صورتحال دیکھی تو انہیں سب سے پہلے بنگالیوں
اور کانگریسیوں پر غصہ آیا ۔ تحریک کا آغاز تو بنگالی سرکاری ملازمین کے
خلاف ہوا لیکن بہت جلد تحریک چلانے والوں کو احساس ہو گیا کہ ان لوگوں کی
پشت پر مرکزی حکومت ہے اس لئے ان سے لوہا لینا ناممکن ہے مگر کانگریس کو
اقتدار سے ہٹانے کیلئے ایک منفی تحریک ضروری تھی اس لئے بنگالی زبان بولنے
والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر تحریک کا رخ ان کے خلاف موڑ دیا
گیا ۔ایسا اسلئے کیا گیا کہ یہ غریب بے یارومددگار لوگ نرم چارہ تھے ۔
بنگلہ دیشیوں کو نکالنے کے بہانے آل آسام اسٹوڈنٹس یونین نے آسام کو آگ
اور خون میں جھونک دیا گیا ۔۱۹۸۳ کے اندر کانگریس زیرِ اقتدار نیلی کا قتل
عام ہوا جس میں لالنگ قبیلے کو نہتے مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ۔ ۳۰۰۰ لوگ
اس قتل عام میں جان بحق ہوئے جن میں خواتین اور اور بچوں کی اکثریت تھی
لیکن جمہوریت کی دیوی نے اس ظلم کا رتکاب کرنے والوں کو سولی پر چڑھانے کے
بجائے اقتدار کے تاج سے نوازہ ۔ یہ گجرات سے بڑا ظلم تھا اس لئے کہ اس کی
نہ ہی کوئی انکوائری ہوئی اور نہ کسی کو اس کی سزا ملی۔ ۱۵ اگست ۱۹۸۵ کو
راجیو گاندھی نے آسو کے خونخوار درندوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور یہ طہ
پایا کہ ۱۹۷۱ کے بعد ریاست میں آنے والے غیرملکیوں کی شناخت کر کے انہیں
نکال باہر کیا جائیگا ۔
اس معاہدے کے بعد آسام گن پریشد نے کانگریس پارٹی کو اقتدار سے محروم کر
کے اپنی حکومت قائم کی ۔ بی جے پی ریاستی سطح پر اس کی شریکِ کار رہی اور
وہ بھی مرکز میں بی جے پی کے حامی رہے اس کے باوجود ۱۴۰۰ سے زیادہ لوگوں کو
ریاست سے نہیں نکالا جاسکا جبکہ دعویٰ یہ کیا جاتا تھا بلکہ اب بھی کہا
جاتا ہے کہ آسام کے بیشتر علاقوں میں بنگلہ دیشی داخل ہوگئے ہیں انہوں نے
مقامی لوگوں کو ان کے وسائل سے محروم کر دیا ہے اور وہ اس قدر طاقتور ہو
گئے ہیں کہ مقامی لوگوں کو ڈرانے دھمکانے لگے ہیں ۔ یہی بات نہ صرف بوڈو
رہنما بلکہ اڈوانی جی اور عیسائی مشنری کے راجر گائیکواڈ بھی کہتے ہیں ۔
بوڈو لوگ ابتداء میں آسو اور اے جی پی کے ساتھ شریک تھے لیکن جب ان لوگوں
نے دیکھا کہ کانگریس اور اے جی پی میں کوئی فرق نہیں ہے تو یہ بغاوت پر
آمادہ ہوگئے اور ہندوستان سے علٰحیدہ بوڈو لینڈ کے حصول کی مسلح جدوجہد
شروع کردی ۔ ایل ٹی ٹی ای کے طرز پر بوڈو لبریشن ٹائیگر نے بیرون ممالک سے
ہتھیار حاصل کئے اور تخریبی کارروائیوں میں لگ گئے۔ حکومت ِ ہند انہیں دہشت
گرد قرار دیتی تھی اس کے باوجود حکومت نے ان سے بھی ۱۹۸۳ میں معاہدہ کرلیا
اور چار اضلاع پر مشتمل بوڈو خودمختار کاؤنسل کا قیام عمل میں آگیا ۔ ان
چار اضلاع میں گو کہ بوڈو آبادی صرف صرف ۲۹ فیصد ہے اور ۷۱ فیصد غیر بوڈو
آباد ہیں اس کے باوجود بارہ میں گیارہ اسمبلی حلقۂ انتخاب ان کیلئے مختص
کر دئیے گئے ۔ اس طرح کل تک جو دہشت گرد تھے اب وہ قوم پرست ہوگئے اور
انہوں نے ان علاقوں میں صدیوں سے آباد لوگوں کو غیر ملکی قرار دے کر بے
دخل کرنا شروع کردیا ۔
۲۰۰۶ کے انتخاب میں بوڈونیشنل فرنٹ نے ۱۱ نشتوں پر کامیابی حاصل کی
کانگریس اکثریت سے محروم تھی اس لئے کانگریس نے ان کا سہارا لیا اور انہیں
دو وزارتوں سے نوازہ ۔ کانگریس نے اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث ان دہشت
گردوں کو غیر مسلح کرنے سے احتراز کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بوڈو ٹائیگرس
بندوقوں کے ساتھ گھومتے رہے اور مقامی اکثریت سے روپیہ وصول کرتے رہے انہیں
ڈراتے دھمکاتے رہے ۔۲۰۱۰ کے انتخاب میں کانگریس پارٹی کو اکثریت حاصل ہو
گئی اور اس کاا نحصار بوڈو نیشنل فرنٹ پر سے ختم ہو گیا ۔اس کے باوجود اس
نے بوڈو جماعت کو اپنی حکومت میں شامل رکھا لیکن وزارت دو کے بجائے ایک کر
دی ۔ اس انتخاب کے بعدبوڈو نیشنل فرنٹ کی سمجھ میں آگیا کہ آئندہ ایک بھی
وزارت نہیں رہے گی اور اگر غیر بوڈو عوام نے کانگریسی بوڈو امیدوار کو ووٹ
دینا شروع کر دیا تو ان کی سیاسی بساط الٹ جائیگی اس لئے غیر بوڈو لوگوں کو
بنگلہ دیشی قرار دے کر ان اضلاع سے نکال باہر کرنے کی سازش رچی گئی ۔اس کا
شکار بھی پھر ایک بار بنگالی زبان بولنے والے مسلمان ہو گئے ۔
آسام کے فتنہ کی جڑ غیر ملکیوں کے حوالے گھڑی کی گئی غلط فہمی میں ہے جسے
اعدادو شمار کے الٹ پھیر سے ثابت کیا جاتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ
آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمان بستے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا وہ بنگلہ دیشی ہیں؟ یہ مسلمان آسام میں چار سو سال قبل ۱۸۰۰ کے آس
پاس آئے ۔ انگریزوں نے آسام کو ہندوستان کے ساتھ ملحق کرنے کے بعد آسام
کے بنجر علاقوں کی بازآبادکاری کی خاطر بنگالی مزدوروں کو یہاں بلایا ۔ اس
وقت بنگلہ دیش ہندوستان کا حصہ تھا بلکہ آسام کو ایک عرصہ تک انگریزوں نے
بنگال میں ضم کر رکھا تھا ۔ اس طرح جس وقت یہ لوگ آسام میں آکر بسے اس
وقت وہ نہ غیر ملکی تھے اور نہ غیر ریاستی ۔ آزادی سے قبل کانگریس پارٹی
نے اپنے کراچی اجلاس میں ایک قرارداد پاس کی تھی اور اس میں یہ کہا گیا تھا
پورے ملک تمام شہریوں کو کسی بھی حصہ میں جاکر رہنے بسنے کا حق ہے جو آج
بھی دستور ہند کا حصہ ہے ۔
بنگلہ دیشی مسلمانوں کی آمد کو ہندوستانی حکومت کی جانب سے کی جانے والی
رائے شماری کے اعداد و شمار بھی منہ چڑھاتے ہیں ۔بوڈو علاقہ کا ایک ضلع
ڈھبری بنگلہ دیش کی سرحد پر ہے جبکہ میگھالیہ کے پانچ ا ضلاع سرحدپر واقع
ہیں ۔ اگر بنگلہ دیش سے مسلمان سرحد پار کر کے آتے تو ان کی آبادی
میگھالیہ میں زیادہ ہوتی لیکن ایسا نہیں بلکہ وہاں مسلمان نہیں کے برابر
ہیں ۔۱۹۵۱ سے ۱۹۷۱ تک ڈھبری میں آبادی کا اضافہ تقریباً ۴۴ فیصد تھا جو
بعد میں صرف ۲۴ فیصد ہوگیا جبکہ ڈھیما جی اور کربی آنگ لانگ میں یہ اضافہ
۸۰ سے ۱۰۷ فیصد تک تھا ۔ ان دونوں اضلاع میں مسلمانوں کا تناسب ۲ فیصد کے
آس پاس ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں سرحد پار کر کے آنے والے
مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم تھے ۔کوکرا جھار جہاں آج کل ہنگامہ برپا ہے
آبادی کا اضافہ ۱۹۹۰ سے ۲۰۰۰ کے بیچ ۱۵ فیصد اور ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۱ کے بیچ
صرف ۵ فیصد ہے جو آسام کی اوسط شرح آبادی کے اضافہ ۲۱ اور۱۸ سے کم ہے اس
کا مطلب یہ ہے کہ یہاں فطری اضافے کی بدولت بڑھنے والی آبادی دوسرے علاقوں
کی جانب ہجرت کر گئی ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈھبری جہاں ۷۴ فیصد آبادی
مسلمانوں کی ہے آسامی زبان بولنے ۷۰ فیصد سے زیادہ ہیں اس کا مطلب یہ ہے
ان مسلمانوں کی زبان بنگالی نہیں آسامی ہے ۔بلکہ براک کی وادی جہاں آسامی
بولنے والے ۱ فیصد سے کم ہیں وہاں کوئی شورش نہیں ہے ۔ سب سے حیرت انگیز
حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۹۱ کے بعد سے آسام کی آبادی کا اضافہ کا اگر ہندوستان
کے اوسط اضافہ سے موازنہ کیا جائے تو وہ ایک فیصد کم ہے ۔ اس لئے ٖبنگلہ
دیشیوں کی آمد کا جو جھوٹ گھڑا جاتا ہے اسے خود قومی رائے شماری کے
اعدادوشمار جھٹلاتے ہیں ۔
دراصل ہوتا یہ ہے کہ جب دیہاتوں میں بسنے والےغریب مسلمان سیلاب وغیرہ کے
باعث شہروں کی جھگی جھونپڑی میں آکربسنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور وہاں
تعمیری کام میں مزدوری کرنے لگتے ہیں یا پھل و سبزی بیچنے لگتے ہیں تو شہری
لوگ انہیں بنگالی زبان اور حلیہ بشرے کے باعث بنگلہ دیشی سمجھ لیتے ہیں
حالانکہ وہ بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ آسام ہی کے دیہاتی علاقوں سے شہروں میں
آنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔ سیاسی لوگ ان کی بنیاد پر اپنی سیاست چمکانے لگتے
ہیں ۔ فرقہ پرست اپنا الو سیدھا کرنے لگتے ہیں ۔ لیکن ایسا کرنے والے ناخلف
لوگ قانونِ قدرت سے ٹکراتے ہیں ۔ اول تو وہ دوسروں کیلئے عذابِِ جان بن
جاتے ہیں اور بالآخر خود قدرتی آفات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ کاش کہ یہ لوگ
شاعر کی اس نصیحت کو سمجھتے ؎
سنو اے ناخلف لوگو بشر بیزار انسانو!
زمیں اللہ کی ہے سارے انساں بھائی بھائی ہیں
بنایا ہے محاسب کس نے تم کو کون ہو تم پوچھنے والے
کہ کن ہاتھوں میں ہے آسام کی اسنادِ شہریت
جو قرنوں سے یہاں رہتے چلے آئے ہیں وہ کیا غیر ملکی ہیں
بہاری ہو کہ بنگالی کہ پنجابی کہ مدراسی
یہ پودے ایک ہی مٹی سے برگ و بار لائے ہیں
انھیں تم لہلہانے مسکرانے گل کھلانے دو
یہی قانونِ قدرت ہے ۔ |