ٹی وی پر کوئی ٹاک شو چل رہا ہو
یا پھر آپ کوئی ڈرامہ دیکھ رہے ہوں یا کوئی اینکر پرسن کسی ہاٹ ٹاپک پر زور
وشور سے دلائل دے رہا ہو یا آپ کسی اسلامی اور دینی پروگرام سے مستفید ہو
رہے ہیں یہاں تک کے بچے کارٹون ہی کیوں نہ دیکھ رہے ہوں ان سب کے درمیان
ایک بات کامن ہے اور وہ ہے بریک اور بریک کے دوران دکھائے جانے والے
اشتہارات۔ جس طرح موسیقی روح کی غذا ہوتی ہے اسی طرح اشتہارات پروگرامز کی
غذا ہوتے ہیں لہذا چاہے اشتہارات کے درمیان چلائے جانے والے پروگرامس کسی
کی سماعتوں اور بصارتوں تک نہ بھی پہنچ پاتے ہوں مگر بریک کے دوران دکھائے
جانے والے اشتہارات اس قدر تواتر کے ساتھ مسلسل دکھائے جاتے ہیں کہ بہت
تھوڑی دیر کے لئے ٹی وی دیکھنے والے کی بھی سماعتوں اور بصارتوں تک وہ
اشتہارات ضرور پہنچ جاتے ہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے بعض بچے تو دورانِ کارٹون
بھی اشتہارات کے سلوگن گنگناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہاں تک
ہوتا ہے کہ ڈرامے کا دورانیہ مختصر جب کہ اشتہارات کا دورانیہ طویل تر ہوتا
ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ تواتر کے ساتھ دکھائے جانے والے اشتہارات کے یہ
سلوگن شعوری اور لاشعوری طور پر انسانی ذہن پر اثرانداز ہوتے ہیں یہ بات
بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑوں کے مقابلے چھوٹے بچے نسبتاً ان اشتہارات کا زیادہ
اثر قبول کرتے ہیںا ور اس بات کا تجربہ اکثر لوگوں کو اپنے گھر کے بچوں کو
دیکھ کر ضرور ہوا ہوگا۔
گزشتہ دنوں ہم اپنے بچوں کے ساتھ پارک گئے۔ حسبِ معمول بچے کھیل کود اور
دوڑنے بھاگنے میں مشغول ہو گئے۔ میرا ڈیڑھ سالہ چھوٹا بیٹا خوشی خوشی گھاس
پر لیٹ کر رول ہونے لگا۔ میری نظر اچانک گھاس کے ایک گیلے حصے کی طرف پڑی
لیکن جتنی دیر میں اپنے بیٹے تک پہنچتی وہ چلبلا بچہ پانی اور گھاس کے اوپر
کئی بار رول ہوکر اپنے تمام کپڑوں پر مٹی اور کیچڑ لیپ کر لت پت ہو چکا تھا
میں نے اسے گھاس پر سے اٹھایا اور کہا ۔اُف تم نے تما م کپڑے داغدار کر لئے
ہیں۔ دوسرے طرف سے میرا سات سالہ بیٹا وہاں پہنچ گیا۔ اُس کی اپنی شرٹ پر
بھی مٹی کا داغ لگا ہوا تھا۔ وہ آتے ہی بولا : مما ۔ داغ تو اچھے ہوتے ہیں
ناں !!
مجھے محسوس ہوا کہ تواتر کے ساتھ دکھائے جانے والے ان اشتہارات کا ان معصوم
ذہنوں پر کس قدر اثر ہوتا ہے۔ اور میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ ان ہی اشتہارات
کے دوران اگر اسی تواتر کے ساتھ قوم کے بچوں کو کوئی مثبت پیغام پہنچایا
جائے تو یقیناً اس کے اثرات بھی قوم کے یہ ننھے معمار اور معصوم ذہن ضرور
قبول کریں گے۔
داغ چاہے دامن پر لگے ہوں کردار پر یا کپڑوں پر کوئی قابلِ فخر بات ہرگز
نہیں ہوتی مگر کیا کیا جائے ان اشتہارساز اداروں کا کہ وہ برے سے برے سلوگن
بھی اس تواتر کے ساتھ ذہنوں تک منتقل کرتے ہیں کہ وہ حقیقت کا لبادہ اوڑھ
لیتے ہیں اور سچ محسوس ہوتے ہیں۔ معاشرے کا عمومی کردار بھی اسی طرح کا
ہوچکا ہے کہ بُرے سے بُراکام کرنے والے بھی ببانگِ دہل یہ کہتا دکھائی دیتا
ہے کہ : بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟
بجائے اس کے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ داغ سے بچو صاف ستھرے رہو یہ
بتاتے ہیں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ پہلے لوگ اچھے کاموں کہ وجہ سے یاد کئے
جانے پر فخر محسوس کرتے تھے اور بُرے کاموں سے حاصل ہونے والی شہرت کو برا
سمجھا جاتا تھا جب کہ اب میڈیا میں اِن رہنے کے لئے کوئی کسی بھی حد تک
جانے کے لئے تیار رہتا ہے۔ کبھی ٹاپ لیس ڈریس کے ساتھ رونمائی کرائی جاتی
ہے تو کبھی بازو پر ٹیٹو بنوا کر اور اگر کچھ بھی نہ ہوسکا تو رعونت سے
بھرپور طمانچے کسی معصوم معلمہ کے منہ پر مار کر کہ وہ بے چاری تو چپ چاپ
رو دھو کر اپنے گھر سدھاری مگر خاتون نے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ
ہوگا کا عملی ثبوت پیش کیا اور میڈیا کا ہاٹ فیورٹ ٹاپک بن گئیں۔
کچھ داغ تو دامن اور ماتھے پر دکھائی دیتے ہیں جب کہ کچھ صاحبِ کرامات تو
اس طرح سے واردات کرتے ہیں کہ وہ اس شعر کہ عملی مثال بن جاتے ہیں کہ :
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
لال مسجد کا سانحہ ہو کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ کسی ذمہ دار کے نہ دامن پہ
کوئی داغ ہے نہ ماتھے پہ کوئی نشان۔ لاپتہ افراد کے لوحقین و احباب احتجاج
پہ احتجاج کئے جا رہے ہیں مگر ان غریبوں کی کوئی شنوائی ہی نہیں ہو پا رہی۔
دامن سارے ہی داغدار ہیں مگر داغ تو اچھے ہوتے ہیں ناں !!
داغ اچھے ہوتے ہیں شاید اسی لئے کردار داغدار ہونے پر کسی کی جبیں شکن آلود
نہیں ہوتی۔ وزیرِاعظم سے لے کر پٹواری تک کردار ، افکار اور اقوال پر لگے
انمٹ داغوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس طرح نمٹتے ہیں کہ داغ تو اچھے ہوتے
ہیں ناں !!
ایسے بے داغ سیاستدان کہاں سے لا ئیں کہ جن کو نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں۔
ہر دامن داغدار ہے ۔ ہر کردار داغ داغ ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر مسئلہ
کشمیر اور مسئلہ بلوچستان تک ہر واقعہ اس قدر بدنامی کے داغ لئے ہوئے ہے کہ
خون کے ان دھبوں کا داغ نہ جانے کتنی برساتوں کے بعد صاف کر نا ممکن ہو سکے
گا؟ مگر کیا کیا جائے اس بات کا کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں دن
میں کئی مرتبہ ذہنوں میں یہ انڈیلا جاتا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں !!! |