میرا اور ماڈل ٹاﺅن کا رشتہ بہت
پُرانا ہے۔ میں 1983ء سے لے کر 2011ءتک وہاں رہا ہوں۔ آج میں رائے ونڈ روڈ
پر منتقل ہو چکا ہوں۔ مگر میرا آبائی گھر ماڈل ٹاﺅن ہی میں ہے۔ میرا حلقہ
احباب ماڈل ٹاﺅن ہی میں ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر نے کے
باوجود میرا دل اور دماغ ابھی تک وہیں ہیں۔ عمر کا وہ حصہ جسے بڑھاپا کہتے
ہیں شروع ہو چکا مگر ساری جوانی ماڈل ٹاﺅن کے گلی کوچوں کی نذرہوئی ہے اور
اس کے چپے چپے سے انمول یادیں وابستہ ہیں اور پاکستان کی اس خوبسورت ترین
بستی سے جڑی وہ یادیں میرا اےک انمول خزانہ ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن سے میری وابستگی
کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھی معمولی او ر چھوٹی چھوٹی
چیزیں اپنے گھر کے قریب سے خریدنے کی بجائے 20کلو میٹر کا سفر طے کر کے
ماڈل ٹاﺅن سے خریدنا مجھے کبھی بوجھل یا مشکل نہیں لگتا۔
ماڈل ٹاون پارک لاہور کے خوبصورت ترین پارکوں میں سے ایک ہے۔ لوگ صبح شام
یہاں چہل قدمی کے لیے آتے ہیں اور ان اوقات میں پارک کا ڈھائی کلو میٹر
لمبا ٹریک کچھ چلنے اور کچھ بھاگتے لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ مرد خواتین ،
بچے ایک ہجوم اُس ٹریک پر رواں دواں نظر آتا ہے۔ میں پچھلے دس بارہ سال تک
اس ٹریک پر صبح کے وقت سیر سے محفوظ ہوتا رہا ہوں۔ ٹریک پر لوگوں کے ہجوم
میں بڑے بڑے نایاب لوگ موجود ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں۔ ایسے لوگ جن کی
ذاتی زندگیاں ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور جو لوگ اس پارک اور اس
بستی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ جن کی موجودگی پارک اور پارک میں موجود میرے
جیسے لوگوں کے وقار میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
میں جب کبھی اداس ہوتا ہوں تو آنکھیں بند کرکے ماڈل ٹاﺅن پارک کی سیر کو
نکل جاتا ہوں۔ چشم تصور میں پارک میں گھومتا ہوں۔ پرانے دوستوں سے ملتا ہوں
جس سے میرے اندر کی ایک مسرت پھوٹتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ مرحوم ڈاکٹر
احمد سعید رانا، چھڑی پکڑے چند لوگوں کے ساتھ چلے آرہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی
آواز دے کر بلاتے ہیں اور پارک یا پارک کے لوگوں کی فلاح کے حوالے سے کوئی
کام کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد سعید رانا جو ایگریکلچر یونیورسٹی کے
ریٹائرڈ پروفیسر تھے بڑے نایاب آدمی تھے۔ انہیں ہر وقت یہی دھن تھی کہ
معاشرے سے بُرائی اور نفرت کو ختم کریں۔ لوگوں کوبھائی چارہ اور اخوت کا
بتائیں۔ پیار و محبت سے جینے کا ہنر سکھائیں۔ انہیں اچھا شہری اور اچھا
انسان بننے کے اصولوں سے روشناس کرایں۔ انہوںنے ہیو من ڈویلپمنٹ فورم کے
نام سے پارک میں سیر کرنے والے لوگوں کو جدید معاشرتی رجحانات سے آشنا کرنے
کے لئے اےک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اُس کے پہلے صدر تھے۔ فورم کے تحت ہر
اتوار کو سورج نکلنے کے تقریباً آدھ گھنٹہ بعد ایک لیکچر کا اہتمام ہوتا ہے
جس میں زندگی کے کسی نہ کسی شعبے کا ایکسپرٹ لوگوں کو اپنے شعبے کے حوالے
سے معلومات فراہم کرتا ہے اور پارک میں سیر کرنے والے سینکڑوں لوگ انتہائی
انہماک سے وہ لیکچر سنتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑے آدمی تھے انہیں جینے کا
سلیقہ اور لوگوں کے دلوں میں بسنے کا فن آتا تھا۔ میں نے زندگی میں اُن سے
بہت کچھ سیکھا ہے۔ فورم آج بھی کام کر رہا ہے مگر ڈاکٹر صاحب جیسی شاندار
اور جاندار شخصیت کی کمی سب لوگ بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔
کلب گیٹ کے قریب مرحوم شیخ اشرف آہستہ آہستہ چلتے یا ورزش کرتے نظر آتے
ہیں۔ ایک نفیس انسان، انتہائی مخیر اور پھولوں کے دلدادہ، پھولوں کے اس قدر
شوقین کہ دنیا کے کسی کونے میں کسی خوبصورت پھول کا پتہ چلتا تو کسی نہ کسی
طرح منگواتے اور اپنے گھر کے لان میں سجاتے۔ لوگ دور دور سے اُن کے گھر
خصوصاً موسم بہار میں اُن کے لگائے ہوئے پھول دیکھنے آتے۔ پارک میں اپنی
مرضی کی کیاریاں بنوا کر اپنے ذاتی خرچ پر بہت سے پھول لگوائے۔ ان کا دستر
خوان بھی ہر وقت جاری رہتا ۔ روز کسی نہ کسی کو دعوت دیتے اور شرف میزبانی
پا کر بہت خوش ہوتے۔
خیر یہ لوگ تو ماضی کا حصہ ہو گئے۔ مگر اس پارک کا حال بھی بہت ہی خوبصورت
ہیرے جیسے لوگوں سے روشن ہے۔ ٹریک پر چلتے ہوئے آپ کو جسٹس اللہ نواز نظر
آئیں گے۔ اُن کی گفتگو سننے کے شوقین پانچ سات لوگ اُن کے ہمراہ ہوں گے۔
سٹاک ایکسچینج والے آصف بیگ مرزا اپنے ہی انداز میں تیز تیز چکر لگاتے نظر
آئیں گے۔ مشہور دانشور اور استاد ان محترم قاضی جاوید اور ڈاکٹر اختر جعفری
اپنے شیدائیوں کے ساتھ پارک کو وقار بخش رہے ہوں گے۔ علم کے متلاشیوں کا
ایک ہجوم ایک شخص کو گھیرے اُس کی دلچسپ اور خوبصورت گفتگو سے لطف اندوز
ہوتا جوگنگ ٹریک پر رواں دواں نظر آتا ہے۔ اس ہجوم کے درمیان جو شخص لوگوں
میں حکمت کے موتی بانٹ رہا ہوتا ہے وہ مشہور ادیب جناب مصتنسر حسین تارڑ
ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اُن کی گفتگو سننے کا شوق ایک نشے کی طرح ہے۔تارڑ
صاحب جب کبھی تین چار ماہ کے لئے امریکہ چلے جائیں تو وہ لوگ ہی نہیں پورا
پارک تشنگی محسوس کرتا ہے۔ پروفیسر امتیاز کا اپنا ہی انوکھا انداز ہے۔ وہ
صبح صبح جوگنگ کرتے ہیںاور اتوار کے دن لیکچر کا اہتمام کرنے میں پروفیسر
صاحب کا مرکزی کردار ہے۔ اُن کی محنت اور لگن ہی کی وجہ سے یہ لیکچر ہوتا
ہے اور یہ کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں۔ پروفیسر امتیاز اپنی ذات میں منفرد
اور ایک انتہائی مخلص انسان ہیں۔
مین گیٹ کے پاس آئیں تو جگہ جگہ مختلف ٹولیاں چہل قدمی کے بعد تھک کر بیٹھی
خوش گپیوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ کنٹین کے ایک طرف خواتین کا ڈیرہ ہے یہاں
کبھی عذرا آپا بھی نظر آتی تھیں مگر اب کراچی منتقل ہو چکی ہیں۔ بیگم اسلم
اور بیگم مسعود بھٹی خواتین کو اکٹھا کرنے اور دعوتوں کے حوالے سے بہت
سرگرم ہیں۔ مسز اسلم میری بہنوں کی طرح ہیں۔ انہیں میری طرح ذیابیطس ہے۔
شوگر لیول جس دن زیادہ ہوتا ہے اُس دن پریشان ہوتی ہیں اور ملاقات ہو تو
کہتی ہیں بھائی دعا کرو میں میٹھا نہ کھاﺅں۔ میں ہنس دیتا ہوں کہ دعائیں
عادتیں بدل نہیں سکتیں۔ وہیں کنٹین کے بالکل پاس میاںاسلم ،جاوا صاحب ،نثار
صاحب اور دیگر لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ
یوگا کی پریکٹس کرتی ہے۔ پاس ہی سجاد موٹرز والے سجاد چند ساتھیوں کے ساتھ
بےٹھے نظر آتے ہیں۔ ایک بہت بڑا گروپ جس میں ڈاکٹر اختر جعفری ، قاضی
جاوید، پروفیسر امتیاز ، چوہدری عارف، عبدالطیف اور بہت سے دوسرے شامل ہیں
بیٹھا ہوتا ہے۔ کبھی شیخ ریاض اور حبیب اللہ لودھی یہاں روز نظر آتے تھے اب
کبھی کبھار نظر آتے ہیں۔ تارڑ صاحب بھی اسی مین گیٹ کے قریب دوستوں سے خوش
گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ مسعود بھٹی، نواز مغل اور بہت سے دوسرے اُن کے
ساتھ ہوتے ہیں۔ اسی جگہ اگر آپ بہت صبح آئیں تو آپ کو پارک کی تین انمول
شخصیات بیٹھی نظر آئیں گی۔ ان میں ایک ہمارے عظیم فن کار قوی خان ہیں۔
دوسرے سوئنری بنک کے محترم رضوی صاحب اور تیسرے مشہور صنعت کار حاجی بشیر ۔
پارک کے لوگ ان بزرگوں کے احترام کرتے اور ان کی موجودگی کو اپنے درمیان
عزت اور وقار کا باعث سمجھتے ہیں۔
چند دن پہلے ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ معروف صنعت کار اور فلور ملز ایسوسی
ایشن کے صدر حاجی بشیر احمد کو اغوا کر لیا گیا اور پھر پچاس لاکھ یا شاید
اس سے بہت زیادہ رقم لے کر چھوڑا گیا۔ یہ رقم تاوان یا بھتے کے طور پر وصول
کی گئی۔ حاجی صاحب کی عمر پچاسی برس ہے۔ صنعتی حلقوں کے علاوہ بھی ہر جگہ
اُن کا بے حد احترام کیا جاتا ہے۔ وہ پیار کرنے والے انتہائی سادہ دل انسان
ہیں۔ سراپا شفقت اور خلوص کا پیکر ہیں۔ پارک کے لوگوں نے ان کے دکھ اور
تکلیف کو پوری طرح محسوس کیا ہے۔ روز آنے والے حاجی صاحب اب قدرے محتاط ہو
ں گے اور پارک میں لوگوں کو ان کی کمی محسوس ہو گی۔ اغوا کار کس قدر ظالم
ہوتے ہیںاُنہیں کسی کے بڑھاپے اور بزرگی کا کوئی پاس نہیں ہوتا ویسے بھی
پوری قوم میں حیا کا عنصر اب مفقود ہوتا جا رہا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاشرے میں امن وا مان
کا قیام پولیس کی ذمہ داری ہے اور پنجاب میں اس بارے میں کوئی کوتاہی
برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے دعویٰ کہا کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں
امن و امان کی صورتحال کو وہ خود مانیٹر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پولیس کو
تمام ضروری وسائل بھی فراہم کر دیئے ہیں ۔ پولیس کو اب اپنی کارکردگی کو
بہتر بنانا ہو گا۔، صوبے میں بھتہ لینے کا کوئی کیس سامنے آیا تو سخت ایکشن
ہو گا۔ جرائم کے خاتمے کے لیے پولیس کو عوام کا خادم بن کر رہنا ہو گا۔
پنجاب میں بھتہ خوری کا کلچر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ خادم اعلیٰ کے
ہدایات ، معصومیت ، سادگی ، محنت اور پھرتیاں اپنی جگہ ۔ مگر یہ تو پتہ چلے
کہ خادم اعلیٰ اغوا برائے تاوان کو بھتہ خوری ہی کی ایک قسم سمجھتے ہیں یا
شاید اُنہیں اندازہ ہے کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں پولیس کے بس کا روگ
ہی نہیں۔ اس لیے اسی بارے میں چپ رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ |