منگل کے روز صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر سوات کے علاقہ مینگورہ میں ایک
اسکول کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، جسکے نتیجے میں عالمی شہرت اور امن ایوارڈ
یافتہ ملالہ یوسف ذئی دیگر دو طالبات سمیت شدید زخمی ہوگئی۔ پاکستان کی
قابل فخر معصوم بیٹی اور ستارہ جرات ملالہ یوسف ذئی کی جرات و بہادری نے
سنگدلوں اور جبر کی مکروہ داستانیں رقم کرنے والے ظالموں اور درندہ صفت
انسانیت کے دشمنوں کے ہوش و حواس کی اس بری طرح دھجیاں بکھیر دیں کہ راہ حق
پر چلنے اور علم کی روشنی پھیلانے والے ایک دیئے کو انہوں نے بارود کے
ذریعے بجھانے کی کوشش کی مگر حقیقت حال یہ ہے کہ کہ مارنے والے سے بچانے
والا طاقتور ہوتا تو اسی طرح معصوم ملالہ کے سر پر گولی مارنے والے بزدل
عسکریت پسند کی تمام تر کوششوں کے باوجود رب العزت نے معصوم ملالہ کو اب تک
ذندہ رکھا ہے اور پوری قوم بلکہ دنیا بھر کے انسان اللہ عزوجل کے حضور
سراپا دعا بنے ہوئے ہیں کہ اے رب کائنات قوم کی قابل فخر بیٹی ملالہ یوسف
ذئی کو جلد از جلد صحت ، مزید توانیاں اور لاذوال حوصلے عطا فرمائے کہ
بہادری اور امید کی مشعل ، ملک و قوم کا انمول ہیرا یکبار پھر ملک کی تقدیر
بدلنے کے سفر میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
یوں تو ملالہ یوسف ذئی کے ساتھ ہونے والے المناک واقعے پر بہت کچھ لکھا اور
پڑھا جاچکا ہے مگر اس واقعہ پر کچھ تحریر کرنے کی راہ میں میرے قلم کی نوک
لرزاں ، روشنائی گم اور ذہن محو حیرت ہے کہ کیا رحمت العالمین ؐ کے ماننے
کے جھوٹے دعویدار وں نے دور جاہلیت کی یادیں آج کے ترقی یافتہ دور میں کچھ
اس طرح تازہ کرنی تھیں کہ ایک 14سالہ نہتی اور معصوم لڑکی کا یہ ناقابل
معافی جرم سمجھا گیا کہ وہ گزشتہ 4برسوں سے ظلم و ستم کے نمائندوں یعنی
طالبان اور انکے حامیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی تھی اور صرف دس
برس کی عمر سے ہی فخر انسانیت نبی اخرالزماں ؐ کے احکامات کی روشنی میں علم
کے حصول اور علم کی روشنی کو پھیلانے میں سرگرداں تھی۔ کیا حضور اکرم ؐ کی
حدیث ’’ کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘ سے کسی کو
انکار ہے، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو حاصل کرنا ضرورت
نہیں بلکہ ہر مسلم مرد اور عورت کیلئے فرض قرار دے دیا ہے، اور علم و عمل
کیلئے بے شمار ہدایات فرمائیں تھیں۔ جہاں تک تعلق ہے نہتے اور کمزوروں پر
حملوں کا تو یاد رہے کہ محسن انسانیت حضوراکرم ؐ نے تو جنگوں کے دوران تک
کمزوروں، نہتوں، بوڑھوں اور بچوں حتیٰ کہ درختوں تک کے کاٹنے سے منع فرمایا
تھا ۔ پھر یہ کیسے ظالم ، وحشی اور درندے اس دور میں موجود ہیں کہ جنہوں نے
اپنی بہادری اور سورمائی کے مظاہرے کیلئے چنا بھی تو ایک نہتی اور کمسن
لڑکی کو ۔ کس نام سے یاد کیا جائے اس وحشی حملہ آور کو کہ جو اس حملے کے
بعد بزدلی اور کمینگی کی داستانیں رقم کرتا فرار ہوگیا کہ کہیں ملالہ اور
دوسری زخمی لڑکیاں اس حملہ آور کو پکڑ نہ لیں۔ آج یقیناًوہ بزدل، تھڑدل
اپنی کمین گاہ میں بیٹھا اپنے کارنامے کے بعد اپنے اوپر ہونے والی لعن طعن
کو بخوبی سن اور دیکھ رہا ہوگا۔ نامعلوم وہ کس خدا کو ماننے والا ہو، مگر
ایک بات یقینی ہے کہ اس شخص کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی
واسطہ نہیں ہوگا وگرنہ اس جرم کی جو سزا ملکی قانون اور قانون شریعت میں ہے
اسکا سامنا کرنے کیلئے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرے!
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وحشی درندوں ، مذہب کے نام نہاد خود ساختہ
ٹھیکیداروں اور انکے حامیوں نے سونامی کنسرٹ اور میوزک کے دلدادہ پلے بوائز
اور گرلز کو تو اپنی وادیوں اور علاقوں میں سیاست کے نام پر جشن اور پکنک
منانے کی بخوشی اجازت دے دی اور ان پر ایک پتھر تک نہیں پھینکا، مگر علم کی
شمع روشن کرنے والی معصوم لڑکی کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ جہل کے
اندھیروں کو دور کرنے میں اپنی سعی لازوال جاری رکھتی۔
جاہلانہ روایات کے نمائندے تحریک پاکستان طالبان کے ترجمان نے اس واقعے کی
ذمہ داری فخریہ انداز میں قبول کرلی ہے اور اپنے مکروہ عزم کا اعاد ہ کیا
ہے کہ اگر ملالہ بچ بھی گئی تو اس کو دوبارہ حملہ کرکے قتل کردیا جائے گا
کیونکہ ملالہ کے خیالات طالبان کے خلاف ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ جہالت کے
میناروں پر براجمان ملالہ پر حملے کی تاویل پیش کرتے ہوئے طالبان ترجمان کی
جہالت کا اندازہ لگائیے کہ اس کا کہنا تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے بھی
تو ایک لڑکے کو اسلئے قتل کردیا تھا کہ وہ لڑکا بڑا ہوکر والدین کا نافرمان
بنتا۔ اس تاویل کو پیش کرنے والوں کی عقلوں پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے کہ
کہاں اللہ کی وحی پانے والے برگزدہ نبی حضرت خضر علیہ السلام کا وہ عمل اور
کہاں جاہل انسانیت کے دشمن ظالمان کا یہ عمل اور ان کی یہ تاویلات۔ ملالہ
یوسف ذئی کا قصور تھا جو اس نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے
موقع پر ’’گل مکئی‘‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر بین الاقوامی شہرت حاصل
کرلی تھی، جس میں ملالہ نے ببانگ دہل تعلیم پر لگی پابندیوں کی بھرپور
مخالفت کی تھی، جسکے بعد حکومت پاکستان نے بچوں کے حقوق کیلئے آواز بلند
کرنے پر ملالہ کو انعامات اور ایوارڈ دیا تھا، جبکہ گزشتہ سال 2011میں
ملالہ یوسف ذئی کو ’’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘‘ کیلئے بھی نامزد کیا گیا
تھا۔
کیا کوئی ذی شعور شخص اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ طالبان کے نام سے
پھیلنے والے انسانیت کے دشمن دراصل پاکستان میں پھیلنے والا ایسا ناسور بن
چکے ہیں کہ جو لاعلاج ہے اور اس مرض سے نجات جب ہی ممکن ہوسکتی ہے کہ جب اس
موذی مرض کو جسم سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے ۔ غیرملکی طاقتوں کے سایوں اور
حملوں سے محفوظ رہنے والے یہ وحشی درندے ایک جانب تو مقابلے سے گھبراتے اور
طاقتور مخالفین کے سائے سے بھی بچتے پھرتے ہیں اور دوسری جانب وہ پاکستان
میں بسنے والے امن پسند افراد کے سامنے بڑے جری اور بہادر بننے کے ثبوت
دیتے ہیں کہ کبھی مساجد، کبھی مزارات اور دیگر مقامات پر یہ آدم خور، وحشی
درندے انسانیت کے شکار میں مصروف رہتے ہیں۔ ملالہ یوسف ذئی نے تو ابھی
ابتداء ہی کی تھی کہ جہالت کے اتھاہ اندھیروں کو دور کرتے ہوئے علم کی شمع
روشن کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کی جائے، وہ کسی محفوظ جگہ پر نہیں بلکہ
نفرت اور درندگی کی نمائندگی کرنے والے درندوں اور وحشیوں کو کی کمین گاہوں
کے قریب بستے ہوئے امن و سلامتی اور شعور کی نئی وادیاں بسانا چاہتی ہے، وہ
تو یہ چاہتی تھی کہ دکھائی نہ دی جانے والی غلامی، بے بسی اور بے حسی کی
زنجیروں کو توڑ کر آزادی اور روشن فضا پیدا کی جائے۔ ملالہ یوسف ذئی نے کم
عمری میں ہی جس طرح علم و امن کا علم بلند کیا اس کی بازگشت ناصر ف پاکستان
بلکہ دنیا بھر میں پھیل رہی تھی۔
روشنی اور حوصلے پھیلانے میں مصروف ملالہ یوسف ذئی گو کہ ابھی حملے کو سہہ
رہی ہے اور اس کی آنکھیں بند ہیں مگر اللہ نے چاہا تو جلد ہی اس کے جسم سے
سلگتے ہوئے بارود کو نکال لیا جائے گا اور اس کی آنکھیں اور دل ایک بار پھر
پہلے سے زیادہ امیدوں اور امنگوں کے ساتھ روشن ہونگے، اسکی معصوم آنکھوں کے
خواب ایک بار پھر لوٹ آئیں گے اور وہ مزید تندہی کے ساتھ اپنے کام کو جاری
رکھ سکے گی ۔ مگر جاہلیت سے لتھڑے وحشیوں اور درندوں کے دماغ کیسے درست کئے
جائیں، یقیناًانکے دماغوں سے نمٹنے کا صحیح طریقہ شائد وہی ہے کہ جس طریقے
پر ملالہ یوسف ذئی عمل کرنے میں مصروف تھی کہ جہالت کے اندھیروں کو دور
کردیا جائے تاکہ جاہل اور جاہلیت دونو ں کا خاتمہ ممکن ہوسکے کیونکہ
انسانیت کا شکار کرنے والے درندہ نما انسان ایسے جانوروں کی مانند ہیں جو
اپنی درندگی کا شکار اپنے ہی جیسے انسانوں کو بنانے میں بھی دریغ سے کام
نہیں لیتے۔ ملالہ یوسف ذئی گو کہ اسپتال کے ایک بستر پر زیر علاج ہے مگر
علاج کی جن کو ضرورت ہے وہ نفرتیں اور کدورتیں لئے انسانیت کے قتل عام میں
مصروف ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ملالہ یوسف ذئی کے زخم جلد ہی بھر جائیں گے اور
وہ علم کے سفر پر دوبارہ گامزن ہوگی اور یقیناًاسکے دشمن بلکہ تعلیم کے
دشمنوں کا اولین علاج بھی تعلیم کے زریعے ہی ممکن ہوسکے گا وگرنہ اگر انکے
نصیب میں ہی اللہ نے ہدایت نہیں رکھی تو اللہ ان ظالموں کو ایسی عبرتناک
سزائیں دے کہ وہ رہتی دنیا کے سامنے تماشہ عبرت بن جائیں۔
امن صرف علم و عمل سے ہی ممکن ہے اور اس کام بیڑا جس طرح ملالہ یوسف ذئی
اور اس جیسے جواں حوصلہ لوگوں نے اٹھا رکھا ہے اس سے امید سحر کا جذبہ مزید
بیدار ہوگا۔ طالبان اور اس جیسے دوسرے شر پسند، انسانیت کے دشمنوں کے مکروہ
عزائم کو سمجھا جائے جو سادہ لوح افراد کو بے وقوف بنانے کیلئے اپنے نظریات
توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں اور اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو گمراہ کرتے
ہیں وہ ظالم نہیں چاہتے کہ علم کی شمع سے جو روشنی پھیلے وہ لوگوں کو شعور
و آگہی عطا کرے کیونکہ ایسا ہوا تو شرپسنداور شدت پسندوں کی کمزور، بھربھری
دیوار فوری طور پر زمین بوس ہوجائے گی اور ایسا تو ہوکر رہے گا چاہے یہ
ظالم کچھ بھی کرلیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشتگردوں کی مکروہ کاروائیوں
کے آگے کبھی سر تسلیم خم نہ کیا جائے اور دہشتگردی کی اس جنگ کو اسکے منطقی
انجام تک ضرور پہنچایا جائے۔
ملالہ یوسف ذئی کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے اس واقعے پر مختلف شعبہ
ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملالہ یوسف ذئی پر حملہ کو انسانیت
پر شدید حملہ قرار دیتے ہوئے واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے ، اس
واقعہ نے پوری پاکستانی قوم کو جسطرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور جس طرح ہر
چھوٹے بڑے شہروں، گاؤں، قصبوں اور دیگر مقامات پر ملالہ یوسف ذئی کی صحت
یابی کے لئے دعائیں ہورہی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملالہ یوسف ذئی اور اس
جیسے افراد نے ملک و قوم کی بقاء وسلامتی کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ وار
دیا ہے اور ثابت کردیا ۔ ملک بھر میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں نے جس
طرح اس دردناک واقعے کی مذمت کی ہے اور بالخصوص جس طرح متحدہ قومی موومنٹ
کے قائد الطاف حسین کی خصوصی ہدایت پر ملک بھر میں فخر پاکستان ملالہ یوسف
ذئی کی جلد و مکمل صحتیابی کیلئے بڑے بڑے دعائیہ اجتماعات منعقد ہوئے ان سے
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بظاہر اندھیریوں کا راج ہے مگر جلد ہی یہ
اندھیرا اپنی تمام تر تاریکی کے ساتھ بس ختم ہونے والا ہے اور صبح کی روشنی
پھوٹنے کو ہے۔ ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں انفرادی
حیثیت میں ارفع کریم رندھاوا اور ملالہ یوسف ذئی ایسے بلند ارادوں اور
حوصلوں کی کی نمائندگی کر رہے ہیں کہ جن پر پاکستان کی تاریخ ہمیشہ فخر کرے
گی ۔ اور دلوں کو بڑی طمانیت ملتی ہے اللہ عزوجل کے ارشادات پڑھ کر کہ جن
کا مفہوم ہے کہ
’’کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور بے شک باطل مٹنے کیلئے ہی ہے’’،
اور
’’اور ظالم چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو پھونکوں سے اڑادیں ، مگر اللہ تو
اپنے نور کو مکمل کرکے ہی رہے گا چاہے ظالموں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ
لگے‘‘
***** |