عالمی یوم ِ سفید چھڑی اور گلگت بلتستان کا بے حس معاشرہ

دنیا کے جن ممالک اور معاشروں نے بے تحاشا ترقی کی ہے اس کی ایک بہت بڑی وجہ ان معاشروں کے محکوم ، محروم اور پسے ہوئے طبقوں کے مسائل کے حل پر بھر پور توجہ دینا اور ان کے حقوق کی بر وقت فراہمی کو یقینی بنانا ہے ۔ اِن محروم ،محکوم اورپسے ہوئے طبقے میں معذور افراد Special Persons بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں معذور افراد کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کی فراہمی میں حکومت ، افسر شاہی ، این جی اوز اور پرائیویٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو جو کردار ادا کرنا چاہئے وہ ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔پاکستان میں خال خال ہی ایسے ادارے اور شخصیات ہیں جو واقعتاً خصوصی افراد کے لیے مثالی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔گلگت بلتستان میں اس حوالے سے حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ معذور افراد کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کی فراہمی میں جمہوری حکومتوں ، افسر شاہی ،این جی اوز اور مذہبی رہنماﺅں کا کردار انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔آج تک حکومت ، افسر شاہی اور این جی اوز کو معذور افراد کے حقیقی مسائل اجاگر کرنے کے لیے کوئی سروے یا تحقیق کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں معذور بچوں یعنی خصوصی بچوں کے لیے خدمات دینے والا واحد ادارہ Special Education Complex نزد کے آئی یو گلگت کی حالت بھی تسلی بخش نہیں ہے۔اٹھاروھویں ترمیم کے تحت خصوصی تعلیم کا شعبہ بھی گلگت بلتستان حکومت کے براہ راست ماتحت کیا گیا ہے ۔ اس سے جو اذیت اور کرب بچوں ،والدین اور اسٹاف کو اٹھانا پڑا وہ سب کے سامنے ہے۔

ہماری قوم ، سیاستدان،افسر شاہی اور دیگر ذمہ دار احباب اور اداروں نے آج تک یہ نہیں سیکھا کہ ’’ گزشتہ راہ صلوٰة آئندہ راہ احتیاط “ ۔ زندہ ،مہذب اور فرض شناس قومیں اس امر کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ سڑک پر کنکر گریں تو انہیں فوراً صاف کیا جائے ورنہ وہ کنکر جمع ہوتے ہوتے سڑک بلاک کر دیں گے۔آج ہمیں مواخرالذّکر صورت حال کا سامنا ہے۔

ہر سال 15 اکتوبر کو نابینا افراد کے مسائل اور ان کے حقوق کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنے اور ان کے مسائل و حقوق کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کے لیے عالمی سطح پر” عالمی یومِ سفید چھڑی “ منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا پس منظر یہ ہے کہ 1922 میں ایک یورپین حادثے کا شکار ہو ا۔جس میں اس کی بینائی چلی گئی ۔ وہ ایک گنجان آباد علاقے میں رہتا تھا۔جہاں اسے چلنے پھرنے میں دقت پیش آتی تھی ۔ اس لیے اس نے اپنی سہولت کے لیے ایک چھڑی استعمال کی۔جس کا رنگ سفید تھا ۔ آہستہ آہستہ دیکھا دیکھی دوسرے نابینا افراد نے بھی اس طرح کی سفید چھڑی استعمال کرنا شروع کی۔گویا سفید چھڑی نابینا افراد کی علامت بن گئی ۔ جسے بعد ازا ں لوگوں اور فلاحی اداروں نے باقاعدہ استعمال کرنا شروع کیا اوراس طرح سفید چھڑی کا استعمال تقریباً عام ہو گیا۔پھر 1964میں امریکی کانگرس نے باقاعدہ ایک بل منظور کیا کہ آئندہ ہر سال 15اکتوبر ” عالمی یومِ سفید چھڑی“ کے طور پر منایا جائے گا۔تاکہ نابینا افراد کے علاج و معالجہ ، تعلیم و تربیت ، روزگار ،اور دیگر حقوق کی فراہمی کے لیے شعور و آگہی فراہم کی جاسکے اور عملی اقدامات کئے جاسکیں۔ یوں 1964 سے تا حال ہر سال 15 اکتوبر اس دن کے بطور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔انگلی کٹا کے شہیدوں میں شامل ہونا کے مصداق پاکستان اور گلگت بلتستان میں بھی حکومتی ادارے اور این جی اوز شازو نادر یہ دن مناتے ہیں۔معذور افراد (خصوصی افراد) کے مسائل کے حل اور حقوق کی فراہمی کے لیے بنایا گیا یو این چارٹر کا پاکستان بھی Signatory ہے مگر عملی اقدامات اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مانند ہیں۔ اور ےہی حا ل گلگت بلتستان کا بھی ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں خصوصی تعلیم و معذوروں کی بہبود کی وزارت کسی کے پاس نہیں ہے۔ایک سیکریڑی تین محکموں تلے دبے ہوئے ہیں۔جن میں سے ایک خصوصی تعلیم و معذور افراد کی فلاح و بہبود بھی ہے۔جبکہ باقاعدہ و باضابطہ کوئی ڈائریکڑیٹ یا ادارہ اس سلسلے میں خدمات انجام نہیں دے رہا ہے۔ معذور افراد کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ اولین مسئلہ ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں اکلوتا کمپلیکس ہے جو صرف پرائمری کی سطح تک تعلیم فراہم کر رہا ہے جہاں ہاسٹل کی سہولت بھی موجو د نہیں ہے۔جو معذور افراد مڈل ،ہائی ، ہائر سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ پاکستان کے بعض شہروں میں معذور افراد پی ایچ ڈی تک ڈگری حاصل کر چکے ہیںاور نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ایک اور بہت بڑا مسئلہ جس کا سامنا ان خصوصی افراد کو ہے وہ قانون کے تحت ملازمت میں 2 فیصد کوٹہ پر عمل در آمد نہ ہونا ہے ۔ گلگت بلتستان کے معذور افراد با لخصوص بصارت سے محروم افراد کے مسائل اور حقوق کے حوالے سے سید ارشاد کاظمی نے راقم سے رابطہ کیا ۔سید ارشاد کاظمی اور ان کے ساتھی اس حوالے سے ایک فعال اور متحرک ادارہ Visual Impered Persons Rehablitation Association ( VIPRA) چلا رہے ہیں۔موصوف اس تنظیم کے جنرل سیکریڑی ہیں انہوں نے حکومت ، افسر شاہی ،این جی اوز اور مذہبی و سماجی رہنماﺅں کا اس سلسلے میں انتہائی غیر فعال کردار کا خصوصی ذکر کیا اور گلے شکوے اور شکایات کے انبار لگائے۔ ارشاد کاظمی نے کہا کہ ” بصارت سے محرو م افراد بھی جیتے جاگتے انسان ہیں۔ان کے بھی جذبات ہیں ۔ یہ بھی زندہ رہنے کا اتنا بھی حق رکھتے ہیں جتنا کہ نارمل افراد ۔ مہذب ممالک میں ہمیں خصوصی افراد کہا جا تا ہے اور ہر لحاظ سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں معذوری ہماری شناخت بنادی جاتی ہے اور تضحیک کی جاتی ہے جس کی نا تو مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی قانون۔ حکومت ہمیں ہر لحاظ سے نظر انذاز کر تی ہے لیکن ہمارا گلہ معاشرے سے زیادہ ہے کیونکہ معاشرہ فرقوں میں بٹا ہوا ہے اور سوچ مثبت سے زیادہ منفی افعال کی طرف مائل ہے۔اگر معاشرہ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پورا کرے تو حکومت اور دوسرے اداروں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔جو صاحبِ حیثیت افراد ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کے اس طبقہ کی فلاح و بہبود کے لیے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔
Ishtiaq Ahmed Yaad
About the Author: Ishtiaq Ahmed Yaad Read More Articles by Ishtiaq Ahmed Yaad: 3 Articles with 1916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.