ملتان میں گردن پر ڈور پھرنے سے2
سالہ بچہ جاں بحق ہوگیا ، واقعہ پر ہنستے بستے گھر میں کہرام مچ گیا، پولیس
نے مقدمہ درج کر کے 70 پتنگ بازوں کو گرفتار کرلیا۔ہفتہ کو پولیس ذرائع کے
مطابق ملتان کے علاقے جمیلہ آباد کالونی کا رہائشی دو سالہ محمد سبحان اپنے
دو بھائیوں اور چچا کے ساتھ ٹیوشن سینٹر جارہا تھا کہ اچانک تیز دھار ڈور
موٹر سائیکل پر سوار سبحان کے گلے پر پھرگئی۔ اسے فوری طور پر نشتر اسپتال
لے جایا گیا مگر زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ دم توڑ گیا۔ سبحان کی
اچانک موت پر اہل خانہ پرغم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ سبحان کے والد نے حکومت سے
مطالبہ کیا ہے کہ پتنگیں اور ڈوریں فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی
کی جائے۔دوسری جانب ایس پی کینٹ منصور الحسن کے مطابق ان افراد کے خلاف
کریک ڈاﺅن کیا جا رہا ہے جو دھاتی ڈور فروخت کر رہے ہیں اور خرید رہے ہیں۔
پولیس نے بچہ کی ہلاکت کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا۔
محمد سبحان اس دنیا سے چلا گیا مگر ہم سب کے لئے ایک مستقل سوالیہ نشان
چھوڑ گیا۔کتنے دکھ کی بات ہے اس سے پہلے پورے ملک میں باالخصوص لاہور میں
کئی نوجوان پتنگ کی ڈور سے گلا کٹ جانے سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
ہیں۔ان کی اموات کے بعد ابھی تک پورے ملک میں کسی نے قومی لیول پر پتنگ
اڑانے کی دھاتی تار بنانے پر اور پتنگ اڑانے پر پکی پکی پابندی کیوں نہیں
لگائی؟ہاں اگر اس عمل میں تاخیر ہوئی ہے تو آئندہ اس کام سے توبہ کرلینے یا
پابندی لگانے سے ہمیشہ کے لئے قومی لیول پر عوام مستفید ہونگے اور جانوں کا
یوں ضیاع نہیں ہوگا۔مگر یہ مردانہ حکم کون کب اور کیسے جاری کرے گا ؟محمد
سبحان اور اس کے والدین کی آنکھوں میں یہی سوال نہ جانے کب تک میرے جیسے
حساس لوگوں کی نیندیں اڑاتا رہے گا؟
ایک اور خبر کے مطابق پنجاب کے کسی گاﺅں میں ایک عورت نے محض اس لئے خود
کشی کر لی کہ اسکے پاس اپنی بیٹی کو دینے کے لئے سکول فیس نہیں تھی۔
اس ملک کے قیام کو65سال ہوئے ہیں اور اگر کسی ایماندار کے سکول کے قیام
کو65سال ہوئے ہوں تو شاید اس کے پرائیویٹ سکول کی فیس بھی عام اور غریب
خاندان کے طلباءکے لئے فری ہو جائے۔لیکن ہم بدقسمت اور نالائق مسلمان ہیں
جو شاید غریب اور مجبور عوام کے لئے دل میں کوئی حس نہیں رکھتے۔ہم کتنے
فضول اور ناپائیدار مسلمان ہیں کہ جن کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی
مایوسیاں اور محرومیاں سمجھنے کے لئے شاید ہمیں کوئی خاص الخاص حس کی ضرورت
ہے وگرنہ اللہ پاک نے ہم سب کو دو آنکھیں اور دوکانوں سے نواز ہے۔اس غریب
کی خود کشی کا سبب غربت ہے اور اس غریب بچی کی والدہ کی غربت کو نہ تو اس
کے پڑوسی سمجھ پائے،نہ سکول والے،نہ اس علاقے کا ایم پی اے یا ایم این
اے،نہ ہی وزیر اعلیٰ،نہ ہی وزیر اعظم اور نہ ہی صدر پاکستان؟افسوس صد افسوس
ہمارے حکمران نجانے کیوں نہیں ڈرتے؟ اتنی بڑی بڑی کرسیاں ،اتنے بڑے بڑے
عہدے اور اتنی بڑی کاریں مگر ان کے آس پاس غریب لوگ مایوس اور محروم۔اگلے
جہاں ہم سارے کیا جواب دیں گے کہ ہمیں اپنی دولت کو خرچ کرنے کا صحیح طریقہ
ہی نہیں آیایا ہماری آنکھیں دولت کی چکا چوندی میں مست رہیں۔ہم عیاش اور
آوارہ زندگی گزار کر خالی ہاتھ بھلا اس جہان کے مالک کے سامنے خدانخواستہ
کسیے کھڑے ہو پائیں گے۔اللہ ہم سب پر رحم کر!اللہ ہم سب کو دیکھنے والی
آنکھ اور سننے والی حس عطا فرما! ورنہ تو اللہ والے ایسے ہوا کرتے ہیں ۔ذرا
سنیئے تو،ذرا پڑھیئے تو؟
ایک دفعہ حضرت عمربن عبد العزیز بیت المال (سرکاری خزانہ) کے معائنے لئے
تشریف لائے۔بیت المال کے عطریات کی خوشبوآپ کی ناک میں پہنچی تو آپ نے اپنی
ناک بند کر لی لوگوں نے پوچھا”کیا بات ہے ،امیر المومنین؟“
امیر المومنین نے فرمایا!”مجھے خدشہ ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن
مجھ سے یہ نہ پوچھ لے کہ تم نے بیت الما ل کے اندر مسلمانوں کی خوشبو کیوں
سونگھی تھی؟“
ہمارے حکمران ،ہمارے صاحب استطاعت اور ہم سب نجانے کس ہوس میں اپنی زندگی
گزار رہے ہیں،ہمیں نجانے کیا سے کیا ہونا ہے؟ہمیں نجانے کس کس کا مال ہڑپ
کرنا ہے ؟ہمیں نجانے کس کس کا خون پینا ہے؟ہمیں نجانے کس کس کی عزت نفس
پامال کرنی ہے؟ہمیں نجانے کس کس کی خود کشی ہونے پر آنکھیں موندنی ہیں؟ہمیں
نجانے کس کس نالائق اور نا اہل کو سلیکٹ اور ایلیکٹ کروانا ہے؟ہمیں نجانے
کس کس کوبے گھر کرنا ہے؟ہمیں نجانے کس کس کی روزی پر لات مارنی ہے؟ہمیں
نجانے اپنی پتنگ بازی سے کس کس کے گلے کاٹنے ہیں؟ہمیں نجانے کس کس کا مال
سوئس بینکوں میں بھرنا ہے؟ہمیں نجانے کس کس کو ملالہ یوسف زئی کی طرح اپ
کرنا ہے اور ہمیں نجانے عافیہ صدیقی کی طرح کس کس کو قید عمر دلانی ہے؟ یہ
پیمانے تو ہمارے اپنے ہی ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کے پا س تو انصاف کا پیمانہ
بہت ہی اعلیٰ ہے جس سے ہمیں اورہمارے حکمرانوں کوبالکل ڈر نہیں لگتا۔جس دن
ہم ڈریں گے اس دن سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ |