ملالہ کے نام خط

ملالہ تم خوش قسمت ہو کہ تمھارے لئے پاکستان کی آزاد میڈیا زور و شور سے مہم چلا رہا ہے تمھیں دختر پاکستان کا لقب دینے کا مطالبہ ہورہا ہے تمھارے لئے ستارہ شجاعت کا بھی اعلان کیا گیا ملالہ ہر جگہ تمھاری جرات کو سلام کیا جارہا ہے -ملالہ !تمھیں دیکھنے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف بھی آرہا ہے اورتمھاری وجہ سے این جی اوز کی دکانداری بھی چل گئی ہیں اور اب ان کی خواتین کی تصاویر اخبار میں تواتر سے چھپ رہی ہیںکاغذی شیر لالٹین کے دور میں پھینکنے والے اور پونڈاور ڈالر لیکر سیاست کرنے والے رہنماء اور وزراء آئے دن بیانات دے رہے ہیں تم اتنی بین الاقوامی شخصیت بن گئی ہو کہ میڈونا نے تمھاری لئے گانا گایا انجلینا جولی نے تمھار ے لئے آن لائن خط لکھا -مجھے بہت خوشی ہوئی کہ سوات سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی لڑکی کو اتنا اعزاز ملا ہے لیکن !

ملالہ ! میرا تم سے یہ سوال ہے کہ کیا بی بی سی پر لکھنے والی ڈائری تم خود لکھا کرتی تھی حالانکہ تم اس وقت چوتھی جماعت کی طالبہ تھی مجھے نہیں پتہ کہ گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھنے والا کون صحافی تھا اور کیوں ملک چھوڑ کر چلا گیا ہے اگر یہ تم لکھتی تھی تو تم نے باجوڑ ` خیبر ایجنسی مہمند ایجنسی وزیرستان سمیت تمام قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونیوالوں کیلئے کیوں نہیں لکھا اور مجھ جیسے بچوں کیلئے کیوں نہیں لکھاجنہیں نہیں پتہ کہ انہیں کس جرم میں زندہ درگور کردیا گیا اور ان کے خاندان کو کس جرم کی سزا میں ماردیا گیا -غلطی ہوگئی میں اپنا تعارف کرانا بھول گئی -

مجھے جس نام سے پکارو مجھے کوئی غرض نہیں کیونکہ اب میرا بچپنا دس سال کی عمر میں ختم ہوگیا مجھے اپنے علاقہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہاں میں اتنا کہہ دیتی ہوں کہ میرا تعلق قبائل سے ہے -میں جب پیدا ہوئی تھی تومیرے )داجی (والد جو کہ غریب دکاندار تھے نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا میں اپنی تین بھائیوں کے بعد چوتھی پیدا ہونیوالی اکلوتی بہن تھی اسی بناء پر میرے تینوں بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میں اپنی بے بے )امی ( کی جان تھی میں لفظ بول تو نہیں سکتی تھی لیکن رب کائنات نے مجھے آنکھیں تو دی تھی میں جب اپنے گھر کو دیکھتی تو خوش ہوتی تھی کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں جب میں پانچ سال کی عمر کو پہنچ گئی تو میرے والد نے لڑکوں کے سکول میں داخل کروا دیا حالانکہ ہمارے خاندان والے والد کے اس اقدام کے خلاف تھے کہ ہمارے خاندان میں کسی لڑکی نے سکول نہیں پڑھا -میرے والد کو بتایا گیا کہ لڑکیوں کیلئے صرف قرآن پاک کی تعلیم ہے لیکن میرے ) داجی ( والدنے سب کے رائے مسترد کردی اور مجھے سکول میں داخل کروا دیا وہ دن مجھے یاد ہے جب میں نے اپنا نام لکھنا سیکھ لیا تھا اس دن میرے داجی اور بے بے نے مجھے نئے کپڑے لیکر دئیے تھے اور میرے بھائی بھی بہت خوش تھے لیکن پھر منظر تبدیل ہوگیا اور!

ہمارے علاقے میں دکانداروں کو خطوط ملنا شروع ہوگئے کہ اتنے پیسے بھیج دو ورنہ سزا کیلئے تیار رہو-مجھے یاد ہے جب میں سکول سے واپس آئی تھی تومیرے داجی جو کہ دوپہر کے کھانے کیلئے گھر آئے تھے بے بے کو علاقہ چھوڑنے کا کہہ رہے تھے ان کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرے داجی کو بھی خط ملا ہے اور وہ کہہ رہے تھے کہ موجودہ حالات میں ہمیں پشاور جانا ہوگا تاکہ ہمارے بچے امن و سکون سے رہ سکیں -جبکہ میری بے بے انہیں کہہ رہی تھی کہ صبر کرلو حالات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن حالات ٹھیک تو نہیں ہوئے البتہ میرے داجی جو مشکل سے گھر کا گزارہ چلا رہے تھے ان کی دکا ن میں نامعلوم لوگوں نے بم رکھ دیا اور یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ میرے دو بھائی اس دن دکان پر میرے داجی کیساتھ تھے دھماکہ تو ہوگیا لیکن اس دھماکے نہ ہماری زندگیوں میں دھماکہ کردیااس وقت میں آٹھ سال کی تھی جب ہمارے گھر میں میرے دو بڑے بھائیوں جن کی عمریں 12 اور 14 سال کی تھی کے جسم کے کٹے پھٹے حصے "ڈیڈ باڈی" کے نام پر لائی گئی جبکہ میرے داجی کی صرف پھٹی پرانی چپلیاں ہمارے گھر آئی تھی اس دن میرے بے بے کی آنکھوں میں جتنے آنسو میں نے دیکھے تھے اتنے آنسو ملالہ تم نے نہیں دیکھے ہونگے تین لاشوں کے سامنے میری بے بے کا کیا حال ہوا شائد ہی تمھیں اندازہ ہو لیکن اس واقعے نے ہمارے بے بے کو ڈرا دیا اایک ہفتے کے بعدجب ہمارے سب اپنوں نے آنکھیں بدل دی اور ہم نے اپنا علاقہ چھوڑ دیا اور ہم خیموں میں پناہ گزین ہوگئے!

ہمارے علاقہ چھوڑنے کے بعدلوگوں کے گھروں کو چھوڑنے کا سلسلہ ہوگیا ہمارے علاقے کے لوگوں نے پناہ گزینی شروع کردی میری بے بے کو داجی کی موت نے ڈرا دیا تھا وہ ہمیں ہر وقت خیمے میں رکھتی تھی ہمارے علاقے سے آنیوالے لوگ ہر وقت ڈر ے ڈرے رہتے تھے اپنے علاقے میں دھماکوں سے ڈرتے تھے لیکن اب یہاں خیموں میں یہ ڈر تھا کہ ہمیں پولیس والے سے ڈر لگتاتھا کہ کہیں ہمیں کسی سے تعلق کی بناء پر ہمیں گرفتار نہ کرے کیونکہ بہت سارے میرے ہم جولیوں کے والد اور بھائی قبائلی علاقوں میں کسی سے تعلق کی بناء پر گرفتار ہوگئے اور پھر لاپتہ ہوگئے میرے ساتھی اپنوں کو یاد کرکے رویا کرتے تھے ہاں میرے ایک ساتھی کے بھائی کی لاش ملی تھی جسے "بوری میں بند"کرکے ڈال دیا گیا تھا مجھے نہیں پتہ کہ اس کو مارنے والے کون تھے لیکن اس واقعے کے بعد ہمارے خیموں میں اور بھی ڈر پیدا ہوگیا!

ملالہ! میری باتیں تمھیں شائد بری بھی لگی کیونکہ میں اپنی بوری کہانی سنا رہی ہوں مجھ سے دو سال بڑا بھائی انہی خیموں میں راشن لینے گیا تھا کہ کہیں گم ہوگیااس کی اچانک گمشدگی نے میرے بے بے کو پاگل کردیا ہمارا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا اورپناہ گزین خیموں کے انچارج میری بے بے کو گالیاں دے رہے تھے کہ تم کیسی عورت ہو کہ اپنے بیٹے کا پتہ نہیں - حالانکہ میری بے بے کو میرے داجی نے بھی کبھی گالیاں نہیں دی تھی لیکن میری بے بے سے غلطی ہوگئی اور میری بے بے نے پہلی مرتبہ میر ے بھائی کو لائن میں کھڑا کردیا تھا کہ باہر لائن میں کھڑے ہو کر خیرات میں ملنے والا راشن لے آئو -وہ راشن تو نہیں لایا لیکن میری بے بے کو پاگل کرگیا کوئی کہتا تھا کہ میرے بھائی کو بیگار کیمپ والے لے گئے ہم دھماکوں سے تباہ حال ہو کر یہاں پہنچے تھے کہ یہاں پر امن ہے لیکن یہ کیسا امن ہے ملالہ کہ میرا بھائی کھو گیا اور میری بے بے پاگل ہوگئی -بے بے تو پاگل ہو گئی لیکن مجھے زندہ در گور کر گئی مجھے خیمے سے ایک شخص جو وہاں خیموں میں لوگوں کو امداد دے رہا تھا اور اخبار والے اور خیموں کے انچار ج انہیں "سر "کہہ رہے تھے نے مجھے وہاں دیکھ کر گلے لگایا اور مجھے چوما کہ تم میری بیٹی ہوان کی مجھے گود میں لینے والی تصویر اخبار میں بھی چھپی تھی اور مجھے "سر" جووہاں پر بیٹی کہہ کرلائے تھے نے اپنے گھر میں بچوں کے کھیلنے کیلئے نوکرانی رکھ دیا اور اب جبکہ میری عمر دس سال ہے میں تین اور چار سال کے بچوں کو اسی"سر" کے گھر میں ان کیساتھ کھیلتی ہوں !ان کے بچے سکول جاتے ہیں لیکن میں ان کی غیر موجودگی میں گھر کی برتنوں کی صفائی کرتی رہتی ہوںاور پتہ نہیں یہ سلسلہ کب تک جاری رہیگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے -ملالہ ! میرا صرف یہ سوال ہے کہ میرا کیا جرم ہے کیامیںبچی نہیں ہوں کیا میرا سکول جانے کو دل نہیں کرتا -

ملالہ!تم اتنی خوش قسمت ہوں کہ برطانیہ میں علاج کیلئے پہنچ گئی ہوں لیکن یہاں میں"سر"کے گھر میں کام کرتے ہوئے بیمار ہو جاتی ہوں تو مجھے گھر کی ماسی "تھپڑ "مارتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تم بڑی "ملالہ " بنی پھرتی ہوں اور اس کے تھپڑوں کے ڈر کی وجہ سے میں اپنی بیماری کا بھی کسی کو نہیں کہتی -ملالہ !میں اپنے اس خط میں "آذاد"میڈیا سے بھی سوال کرنا چاہتی ہوں کہ کیا میں کسی کی "ملالہ "نہیں مجھ پر جو گزری کیا یہ کسی "صحافی "کو نظر نہیں آتا یا میرے علاقے میں جس سکول کو "مورچہ"بنایا گیا ہے اس کو مورچہ بنانے والے کیا بچوں کے حقوق سے آگاہ نہیں-ملالہ میں تمھاری توسط سے کسی حدتک جذباتی اور بے حس قوم سے بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایک ہفتے پہلے تو تم لوگ گستاخ رسول کے پیچھے احتجاج کررہے تھے لیکن آج انہیں پیغمبر کی شان میں ہونیوالی گستاخی یاد نہیں -ملالہ! تمھارے ساتھ تو دو اور لڑکیاں بھی زخمی ہوگئیںکیا اس کا کسی نے پوچھا میں اسی خط کے ذریعے ارباب اختیار سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس کی آڑ میں آپریشن کہاں پر ہوگا اور کتنے مجھ جیسے بدقسمت اور زندہ درگور ہونگے مجھے طالبان سے کوئی لینا دینا نہیں نہ ہی مجھے سیکورٹی فورسز سے کوئی مقصد ہے مجھے صرف یہ جواب دو کہ میرے " بچپنے کا دشمن کون ہے" کون میرے لئے آواز اٹھائے گا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498001 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More