علم کے نسوانی طلب اور طالبان کا جنون

ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ دین محمدی میں علم کی بڑی تاکید اورفضیلت اور حقوق نسواں پر انقلابی ہدایات کے باجود عام مسلمانوں میں ہی نہیں طبقہ علماءمیں بھی تعلیم نسواں اورخواتین کے حقوق سے بے توجہی کا رجحان عام کیوں رہا ہے؟اس معاملے میں مسلم معاشرے کی صورتحال کے اظہار کےلئے شاید ’بے توجہی ‘کا لفظ بہت ہی ہلکا ہے۔ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں یا جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، اس میں لڑکیوں کی تعلیم سے بے توجہی ہی نہیں بلکہ ان کو پڑھانا لکھانا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔یہ جو کچھ تبدیلی آج نظرآتی ہے اس کی بیار تو سر سیدؒ کی بدولت صرف ایک صدی قبل ہی چلنی شروع ہوئی تھی اور الا ماشاءاللہ طبقہ علماءکے گھرانے آج بھی اس سے دور ہیں۔

ہم اپنے جن علماءاور فضلاءپر فخر کرتے ہیں ، جن کی فہم دین ، تقوٰی اور تورع کاذکر ہوتا رہتا ہے،ان کی خواتین خانہ کی تعلیم بھی ناظرہ قرآن اور حرف شناسی سے زیادہ شاید ہی ہوتی تھی۔ خال خال کسی نے قرآن حفظ کرلیا یا اپنے ذاتی ذوق سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیاتو دیگر بات ہے۔ علماءاور فضلاءکے ان خانوادوں کی کوئی خاتون عالم فاضل نظر نہیں آتی۔ ہر چند کہ یہ محترم خواتین عقائد، دینداری اورعبادات میں مردوں سے کم نہ تھیں،ان کی ذہانت کے قصے بھی سنے جاتے ہیں مگر علوم و فنون اسلامیہ کی خدمت میں اس نصف آبادی کا حصّہ صفر کے برابر ہے۔ آخر کیوں؟اب بھی جب کہ تعلیم نسواں کا غلغلہ برابر بڑھ رہا ہے، علمائے کرام کی روش میں کوئی تبدیلی نظرنہیں آتی کہ اس انقلاب میں ان کی خواتین قائدانہ رول ادا کرسکیں۔ اس کے برخلاف ہمارے آئیڈیل اکثر دینی رہنما بچیوں کو تعلیم گاہ بھیجنا باعث عار تصور فرماتے ہیں۔ ان کی مساعی سے جہاں لڑکوں کےلئے بڑے بڑے دارالعلوم اور مدارس وجود میں آگئے ہیں، جن کو بجا طور پر دین کے قلعے کہا جاتا ہے وہیں بچیوں کی تعلیم کی کوئی فکر نہیں ،حالانکہ نبی نے مسجد نبوی میں اسلام کی جو اولین درسگاہ قائم فرمائی تھی اس میں خواتین بھی تشریف لاتی تھیں اور حضور اکرمﷺ ان پر خاص توجہ بھی فرماتے تھے۔

ہمارے اس دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ پیری مریدی اور تعویذ گنڈوں کا دھندا کرنے والوں کے حجروں میںتو خواتین کی خوب پذیرائی ہوتی ہے مگر جو علمائے کرام اور مشائخ عظام کرام اپنے وعظ نصیحت سے اصلاح نفس کا کارِ عظیم انجام دے رہے ہیں وہ بھی اپنی وعظ نصیحت کی مجالس اور اپنی توجہات سے خواتین کو محروم رکھتے ہیں۔حالانکہ ایک خاتون کی اصلاح کا مطلب ایک پورے خاندان کےلئے راہ صواب کھول دینا ہے۔ خواتین کی تشریف آوری سے کچھ اندیشے شاید اپنا کام کرجاتے ہیں حالانکہ دور نبوی کی ایک مشہور روایت ہے کہ صبح کے دھندلکے میںجب ایک صحابیہ ؓ فجر کی نماز کےلئے مسجد نبوی جارہی تھیں، راہ میں کسی اجنبی کی جنسی ہوس کا شکار ہوگئیں، مگر اس شدید شنیع واردات کے باوجود آپ نے خواتین کےلئے مسجد اورمدرسہ کے دروازے بند نہیں فرمائے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے آپ کی نظر میں خواتین کی تعلیم و تربیت کی کس قدر اہمیت تھی؟ تعلیم نسواں کے تعلق سے بیزاری کی یہ کیفیت اسلام کے خود ساختہ نقیبت طالبان اور القاعدہ میں جنون حد تک پہنچ چکی ہے۔ ٹھیک ہے طالبات کی تعلیم کےلئے کچھ احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے لیکن اس کی نفی تو جائز نہیں ۔ ایسی مخالفت کہ طالبات کے مخصوص اداروں کا وجودبھی گوارانہیں، صریحاً گمراہی ہے۔ بیشک بچیوں کو مخلوط اداروں میں مت بھیجئے، مگر ان کےلئے الگ مکتب اور مدرسے قائم کرنے میں کیا عذر ہے؟

اسی کا ایک دوسرا پہلو ترکہ میں لڑکیوں کے حق کی عدم ادائیگی کا شدید رجحان ہے۔ہر چند کہ عائلی معاملات میں ہماری قیادت بڑی حساس ہے ،لیکن حق وراثت کی عدم ادائیگی پر کوئی وحشت نہیں ہوتی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عبادت اور یاضت میں فلاح کے متلاشی اہل ثروت بھی اس معاملے میں انتہائی کوتاہ فکر واقع ہوئے ہیں حالانکہ جس قرآن میں نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج کے احکام صادر ہوئے ہیں، اسی میں وراثت میں ماں، بیوی، پھوپی ، بہن اور بیوہ کے حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں، بلکہ جس قدر تفصیل کے ساتھ حق وراثت کا بیان ہے، اتنی وضاحت کے ساتھ تو نماز،روزہ کے احکام بھی نہیںآئے ہیں۔ عبادات کے طور طریقے تو ہم روایات سے اخذ کرتے ہیں جب کہ ترکہ میں ہرایک کا حصہ قرآن نے کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ اس بے توجہی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم نے بغیر سمجھے تلاوت قرآن کو کافی سمجھ لیا اور اس کو سمجھنے پر قدغن عائد کرکے صہیونی مقاصد کی تکمیل کردی۔ قرآن کے اوراق کی بے حرمتی تو اگر غیر سے بھی ہوجائے تو ہم شعلہ جوالہ بن جاتے ہیں اور ا س کے احکام کی بے حرمتی خود کرتے ہیں تو ہمارا دل نہیں لزرتا۔ معاذ اللہ۔

بہر حال بات تعلیم نسواں کی چل رہی تھی اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقہ کے مرکزی شہر سوات میں طالبان لڑاکوں نے ایک 14لڑکی ملالہ کو نشانہ بنایا جوخود بھی پڑھنا چاہتی ہے اوردوسری بچیوں کی تعلیم کے بارے میں بھی فکر مند ہے۔ ۱۱ سال کی عمر سے ’گل مکئی‘ کے نام سے اس کی ڈایری بی بی سی اردو سے نشر ہورہی تھی ،جس میں وہ طالبان کی زور زبردستی ،خانہ جنگی، سیکیورٹی عملے سے انکی جھڑپوں پرچھوٹے چھوٹے خطوط میں اظہار خیال کرتی تھی۔اس کے یہ خطوط خاصے دلچسپ ہیں۔پاکستانی اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے اور ان کو بڑی مقبولیت ملی۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کی مغربی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس معصوم صدا کا استعمال طالبان کی شورہ پشتی کے خلاف فضا سازی میں بخوبی کیا۔ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر بھی اس کے پروگرام نشر ہورتے رہے ۔ لیکن ہمارے لئے یہ باور کرنا دشوار ہے اس کو بام شہرت تک پہنچانے اور اس پر قاتلانہ حملے کے بعد اس کی ہمدردی میں مغربی میڈیا اور سیاست دانوں کی یہ مہم جوئی صرف اس لئے ہے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کےلئے فکر مند تھی اور طالبان کے احکامات سے نالاں تھی۔جن مغربی طاقتوں کی فوجی کاروائیوں میں خود درجنوں اسکول مسمار ہوگئے ان کواس قبائلی خطے میں تعلیم نسواں کی اتنی فکر کے پس پشت کوئی دوسر ی مصلحت بھی ہونی چاہئے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ ملالہ طالبان کی ملامت میں اپنی نادانی سے گاہے حد سے بڑھ جاتی اور بعض پروگراموں نے اس نے شعائر اسلامی پردہ اور داڑھی پر بھی تنقید کرڈالی۔حیرت کی بات یہ ہے ملالہ کی ڈائریوں میں جو بے ساختہ تحریر کا نمونہ ہیں، نماز ،روزے کا کوئی ذکر نہیںحالانکہ اس نے گھر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً ناشتہ کس نے بنایا، بچوں نے کیا کھیل کھیلے، اس کا چوزہ بیمار ہوگیا تو امی نے کیا کیا؟ وغیرہ۔ایک جگہ کسی زیارت پر جانے کا ذکر ضرور ہے مگر اس صراحت کے ساتھ وہاں ان کا خاندان بغرض تفریح گیا تھا۔ اس طرح کی ڈائریاں جو ایک مسلم گھرانے کے معمول کے دینی اعمال کے ذکرسے خالی ہوں اور ان میں ایسی تنقید ہوجس کی زد اسلامی عقائداور شعائر پر پڑتی ہو، اسلام اور مسلم دشمنی کے اس ماحول میں ان اہل مغرب کےلئے بہت مرغوب ہیں جو آج ملالہ عرف گل مکئی کےلئے رطب اللّسان ہیں۔ چنانچہ امریکی صدر بارک اوبامہ، وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، یو این جنرل سیکریٹری با ن کی مون اور نجانے کس کس نے ملالہ کی مدحت اور اس پرقاتلانہ حملے کی مذمت کی ہے۔برطانیہ نے اس کے علاج کےلئے پیش کش کی اور پاکستانی حکام نے بھی پور ی طرح مستعد ی دکھائی۔برطانیہ کی یہ فکر مندی اور پاکستان کی یہ مستعدی مبارک،لیکن یہ کیسے بھلا دیا جائے کہ ان کے سروں پرنجانے کتنے معصوم انسانوں، صحافیوں اورانسانی حقوق کے علمبرداروں کے قتل کا الزام ہے۔

ملالہ کی اس مقبولیت اور اس پر قاتلانہ حملے سے پاکستان کے اعتدال پسند سیاستدانوں اور ارباب حل وعقد نے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ چنانچہ ملک بھر میں طالبان کی اس مذموم حرکت کے خلاف پرہجوم مظاہرے ہوئے ہیں، جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی علم برداری کا دم بھرنے والے یہ طالبان سیاسی شعور سے کس قدرعاری ہیں۔ عذر گناہ بدتر از گناہ کی مصداق انہوں نے اپنے اس فعل کےلئے شرعی تاویلات بھی اختراع کرلی ہیں اور دلیل یہ دی ہے کہ خضرؑ نے ایک کمسن بچے کو اس لئے ہلاک کردیا تھا کہ اس سے کسی بڑے فتنے کے ظہور کا اندیشہ تھا، چونکہ ملالہ سے بھی فتنہ پروری کا اندیشہ تھا، اس لئے اس کا قتل طالبان کےلئے جائز ہوگیا ہے۔لیکن وہ یہ بھول گئے قرآن نے انسان کی جان کو کس قدر محترم ٹھہرایا ہے اور ان کی شدت پسندی نے زمین میں جو فتنہ برپا کیا ہے اس پر کس قدر سخت گرفت کی گئی ہے۔ بہر حال اس نامسعود واقعہ سے طالبانی مزاج کے خلاف پاکستان میں جو فضا بنی ہے اس کا خیرمقدم کیا جائے گا، کہ مسلکی شدت پسندی نے پاکستان کو تباہ کررکھا ہے۔ مگر اچھا ہوتا کہ یہ معاملہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہی رہتا اور اس میں امریکا، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوںکو دخل اندازی کا موقع نہیں ملتا۔

یورپی ممالک نے ملالہ پر قاتلانہ حملے پر جو ٹسوے بہائے ہیں وہ ان کے گناہوں کی پردہ پوشی نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے جس خطے میں اس معصوم بچی پر یہ حملہ ہوا ہے اسی میں امریکا کے ڈرون حملوں میں گزشتہ آٹھ سال میں زاید از 3200افراد مارے جا چکے ہیں جن میں نہ جانے کتنی ملالہ اور گل مکئی شامل ہیں۔ افغانستان میں بھی امریکا اور ناٹو حملوں میں لاکھوں عورت ، مرد اوربچے مارے جاچکے ہیں جن سے پاکستان کے اس سرحدی خطے کے باشندوں کے خون کے رشتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ القاعدہ اور طالبان کے عروج کےلئے امریکا اور اس کے مغربی حلیف ہی ذمہ دار ہیں۔یہ تحریکات امریکا اور مغربی ممالک کی اس جارحانہ پالیسی کا شاخسانہ ہےں جو انہوں نے اسلامی دنیا کو زیر کرنے اور اسلام کو بدنام کرنے کےلئے اختیار کرکھی ہے۔ لیکن متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں ملالہ کوبہتر علاج کےلئے برطانیہ لیجانے کےلئے اپنا وہ خاص ہوائی جہاز فراہم کیا جس میں تمام ضروری طبی سہولتیں موجود ہیں اور جس میں اس کو پیر کے دن برمنگھم کے کوئین الزبیتھ اسپتال میں منتقل کردیا گیا ۔ ڈاکٹرپر امید ہیں کہ گردن میں گولی لگنے سے ملالہ کے ذہن اور جسم کو جوگزند پہنچی ہے ان کے اثرات زایل ہوجائیں گے۔ آئےے ہم بھی ملالہ کی صحت کی دعا کریں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہ وہ طالبان کے خلاف اپنی مہم میں اسلامی شعائر کو نشانہ بنانے کی فکری کجروی سے کنارہ کش ہوں۔ طالبان اسلام کے ترجمان نہیں ہیں۔ ان کی شریعت قرآن کی شریعت نہیں ، کشت و خون کی شریعت ہے ،جس کی علمائے اسلام برا ¿ت کا اعلان کرچکے ہیں۔ ملالہ کو اسلام کی حقانیت سے آگاہی حاصل کرنے کےلئے براہ راست قرآن ، سیرت رسول اور تاریخ خلفائے راشدین کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ انکو اللہ تعالیٰ نے جو ذہانت اور جرا ¿ت عطا کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ اسلام کی معاونت میں اس کردار کی زندہ جاوید تصویر پیش کرنے کی کوشش کریں جو امہات المومنین حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمیٰ ؓ نے پیش فرمائی تھی یا قرون اولیٰ میں حضرت رابعہ بصریؒ نے اورخلیفة المسلمین مامون رشید کی والدہ ماجدہ اور ہارون رشید کی بیگم زبیدہ نے پیش کی تھی۔

اسلام ایک اعتدال پسند نظام حیات ہے، جو انسان کے سبھی فطری داعیوں کی رعایت رکھتا ہے۔ اس میں اگر کوئی شدت پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ اس کی خطا ہے ، اسلام کی نہیں۔یہ اچھی بات ہے پاکستان کے زاید از چالیس علماءنے مشترکہ بیان جاری کرے طالبان کے اس اقدام کی مذمت کردی ہے اور اس کو اسلام کے منافی قراردیدیا ہے۔علامہ طاہر القادری پہلے ہی ان کی فکر کا پوسٹ مارٹم کرچکے ہیں اور ایک چشم کشا بسیط فتوٰی جاری کرچکے ہیں۔کاش کہ اس سانحہ کے نتیجہ میں پاکستانی عوام اور خصوصاًبرصغیر ہند و پاک کا طبقہ علماءبچیوں میں تعلیم کی طلب کے جذبہ کو سمجھیں اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی اداروں کے قیام پر توجہ فرمائیں۔بچیوں کی کم از کم ثانوی درجات تک کی تعلیم اور تربیت کےلئے مخصوص تعلیم گاہوں کی سخت ضرورت ہے۔ عمر کا یہ مرحلہ ایسا ہوتا ہے جس میں بہکنے کا اندیشہ رہتا ہے۔اگر طلباءکےلئے مدارس کی ایک سنہری زنجیر برصغیر میں شہر شہر قریہ قریہ وجود میں آسکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں بچیوں کےلئے اسلامی جامعات نہ چلائی جاسکیںاور یہ جامعات جدید اوردینی علوم کا دلکش گلدستہ نہ بن سکیں۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.