علماءکی جانفشانی وجانشینی:
ارشاد خداوندی ہے:﴾الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم
السلام دینا﴿۔.... اسلام اپنی مکمل صورت میں سید الکونین کے ذریعہ روئے
زمین پر آیا، اور دنیا میں پھیلی جہالت وتاریکی کو دور کیا، اپنی نور کی
کرنوں سے سارے جہاں کو منور کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ خاتم
النبیین ہیں، آپ پر جو ذمہ داری تھی وہ قدرتی طور پر آپ کی امت پر آپڑی، جس
کی تعبیر بقول امام احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ یوں ہے:” قام ابوبکر
یوم الرّدة مقام الانبیاء“ کہ ” حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فتنہ ارتداد کے
وقت انبیاءکی جانشینی فرمارہے تھے۔“
چنانچہ ....ہندوستان میں اسلام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مسعود
ہی میں آچکا تھا، پھر محمد ابن القاسم کے ذریعے باقاعدہ سندھ میں حکومت
قائم ہوئی، اور تیسری صدی میں محمود غزنوی کے ذریعے باقاعدہ وسیع اسلامی
مملکت کی بنیاد ڈالی گئی، .... امت محمدیہ اور اس کے اکابر نے اس فرض کو
محسوس کیا، اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی، اورایک لمحہ کے لیے بھی اس
سے غفلت نہیں برتی، اور ان شاءاللہ تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گاکہ وہ
احکام شرعیہ کی راہنمائی فرماتے رہیں گے۔....ان اکابر علماءکی علمی بصیرت
اوردقت نظر معترف ومسلم ہے، حالات وزمانہ پر گہری نظررکھتے تھے،اور وسیع
النظری کے ساتھ مسائل میں غور وفکر کیا کرتے تھے، کیوں کہ احکام شرعیہ میں
جمود کا مزاج نہیں ہونا چاہیے۔
علماءہند نے علوم اسلامیہ پر بے مثال خدمات انجام دیں، جس کو ” الثقافة
السلامیة ف¸ الہند “ میں حضرت مولانا عبد الحی حسنی رحمہ اللہ نے تفصیل کے
ساتھ بیان کیا ہے، تفسیر، حدیث، نحو ، صرف، ادب ، منطق ، فلسفہ ، علم کلام
اور تاریخ وغیرہ تمام علوم میں بے شمار تصنیفات وتالیفات چھوڑیں، البتہ فقہ
اور اصولِ فقہ پر خاص کام کیا ہے ، خصوصاً فقہ حنفی پر۔
آج ایک طرف جدید ، بے لگام تمدنی ترقی نے نت نئے مسائل کا طوفان لا کھڑا
کردیا ہے اور بقول خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ : ”
کلّما زاد الفجور کثرت المسائل “ ۔کہ جس قدر فسق وفجور میں اضافہ ہوگا
مسائل بھی اسی قدر بڑھتے جائیں گے۔ مثلاً : ٹیسٹ بے بی ٹیوب، انسانی دودھ
اور منی بینک، تبدیلی جنس بذریعہ سرجری، جینیٹک اور کلوننگ کے مسائل، نیز
دنیا کے سیاسی، معاشی اور اجتماعی نظام روز مرہ کی تبدیلیوں اور خصوصاً
بینکنگ ومیڈیکل سائنس کی دنیا میں غیر معمولی انقلاب نے سینکڑوں ایسے مسائل
پیدا کردیئے جن کا اب سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اس طرح کے پیچیدہ تمدنی اور صنعتی انقلاب کے بعد جدید مسائل بکثرت پیش آنے
لگے ، تو انہیں صحیح طور پر سمجھنے اور ان کے حل کے لیے انفرادی کوششوں کے
بجائے اجتماعی بحث وتحقیق کا نظام زیادہ بہتر ، اور اجتماعی طریقہ استنباط
زیادہ محفوظ اور مامون صورت ،اور غلط رائے دہی سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، سلف
صالحین نے جہاں انفرادی کوششیں کی ہیں، وہیں اجتماعی طریقہ کار بھی اختیار
کیا ہے، کیوںکہ اجتماعی صلاحیت اور کوششوں کے ذریعہ انفرادی کوتاہیوں کی
تلافی ہوجاتی ہے، چنانچہ عہد صحابہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور
صحابہ کے بعد حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے یہی طریقہ اختیار فرمایا،
.... ویسے اس بات کا احساس عالمی طور پر لوگوں کو ہے، اورجدید مسائل کے
بارے میں اب تو پوری دنیا کے مسلمانوں میں بیداری آچکی ہے، عالم اسلام میں
مختلف اہلِ علم نے جن کو اللہ تعالیٰ نے دلِ دردمند اور فکرارجمند سے نوازا
ہے، فقہی مجامع یعنی فقہی اکیڈمیاں قائم کیے ہیں،مثلاً :
1 ” مجمع البحوث السلامیة بالازہر مصر “
2 ” المجمع الفقہ السلام¸ لرابطة العالم السلام ¸ بمکة المکرمة “ (اسلامی
فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ )
3 ” مجمع الفقہ السلام ¸ التابع لمنظمة الموتمر السلام ¸ “ (اسلامی فقہ
اکیڈمی ماتحت تنظیم اسلامی کانفرنس)
4 ” مجمع الفقہ السلام ¸ بجدة “ (اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ)
5 ” مجمع الفقہ السلام ¸ بالسودان “ (اسلامی فقہ اکیڈمی سوڈان)
6 ” ہیئة کبار العلماءبالمملکة العربیة السعودیة “
7 ” اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة بالمملکة العربیة السعودیة “
8 ” رابطة علماءالمغرب برباط “
9 ” قطاع الفتاءوالبحوث الشرعیة بالکویت “
10” المجلس الاورب ¸ للفتاءوالبحوث بدبلن (یر لندا) “ (”یوروپی کونسل برائے
افتا وتحقیق“ بقول مولانا بدر الحسن قاسمی: گوکہ اس کی عمر ابھی تھوڑی اور
اس کے جاری کردہ فتووں کی تعداد بھی کم ہے، لیکن بڑی نزاکت لیے ہوئے ہیں
اور بعض فتووں سے اتفاق کرنا بھی مشکل ہے۔)
11” مجمع فقہاءالشریعة بامریکا “
12” مجمع الفقہ السلام ¸ بالہند “۔(اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)
یہ تو وہ اکیڈمیاں ہیں جو عمومی طور پر فقہ سے متعلق پیش آنے والے اکثر
مسائل سے بحث کرتی ہیں، مگر بعض وہ بھی ہیں جو مخصوص مسائل پر بحث کرتی
ہیں، جیسے :
۱ ” الہیئة الشرعیة بشرکة الراجح ¸ المصرفیة للاستثمار “ ۔ (یہ مالیات پر
نوازل کے بارے مےں خدمت انجام دینے والا ادارہ ہے)
۲ ” الہیئة الشرعیة العالمیة للزکاة بالکویت “ (زکوة سے متعلق مسائلِ جدیدہ
پر بحث کرنے والا ادارہ)
۳ ” معہد خادم الحرمین الشریفین لابحاث الحج “ (یہ ادارہ نوازلِ حج پر بحث
کرتاہے)
۴ ” المنظمة السلامیة للعلوم الطبیة بالکویت “ (اسلامی تنظیم برائے طبی
علوم)
۵ ” مجلس تحقیقات شرعیہ “ (دار العلوم ندوة العلماءلکھنو، یوپی ،
الہند)....وغیرہ۔
۶ ” مجلس دعوت وتحقیق اسلامی “ (بنوریہ ، پاکستان)
اور انفرادی طور پر بھی بے شمار کام ہورہا ہے، عالم اسلام کی یونیورسیٹیاں
جدید مسائل پر PHDکروارہی ہیں، مگر ان تمام کاموں میں علماءہند کا امتیاز
اس معنی کر ہے کہ عام طور پر تقلید کے باب میں عالم عرب وغیرہ ڈھیلے اور
کمزور ہیں، جب کہ علماءہند تقلیدی اصول کو پیش نظر رکھ کر بڑی پختگی وعمدگی
کے ساتھ کام کررہے ہیں، برصغیر میں جدید مسائل پر ہر مکتب فکر کے لوگوں نے
کام کیا ہے ، مگر سب سے زیادہ اور معتدل کام علماءدیوبند نے کیا ہے، برصغیر
میں سواد اعظم فقہ حنفی کا پیروکار ہے، جب کہ سعودی عرب کی تعلیم گاہوں اور
عدالتوں میںفقہ حنبلی کو فوقیت حاصل ہے، شام ، عراق اور مصر وغیرہ میں فقہ
شافعی ، مالکی اور حنفی قدم بہ قدم ہیں، اورتیونس، الجزائر، مراکش اور
موریتانیہ میں اکثریت فقہ مالکی پر عمل کرنے والوں کی ہے ، لیکن ضرورت پڑنے
پر ایک مسلک کے ماننے والوں کا دوسرے مسلک کے کسی جزئیہ پر عمل کرنے کی
گنجائش اکابر اہل علم نے تسلیم کی ہے،اور سب سے اچھی اور زندہ مثال حضرت
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی ” الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة “ہے
، جس میں آپ نے ضرورت کی بنا پر مسئلہ کی مکمل تحقیق وتنقیح کرنے کے بعد
فقہ مالکی پر عمل کو اختیارفرمایا ہے۔
برصغیر میں جدید مسائل پر کام کرنے والے علماءدیوبند:
بر صغیر میں .... ہر دور میں علماء، اصحاب بصیرت فقہاءاور زمانہ کے نبض
شناس مفتیان کرام پیدا ہوتے رہے ہیں، اور انہوں نے بہت ہی بلند پایہ علمی
خدمات سر انجام دی ہے، فتاویٰ عالمگیری(فتاویٰ ہندیہ) ، اور فتاویٰ
تاتارخانیہ جیسی کتابیں اس کی روشن مثال ہیں،ہندوستان میں گذشتہ ڈیڑھ سو
سال سے فقہ وفتاویٰ کی خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر علماءدیوبند
کو چُن لیا ہے،مثلاً....:
۱- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ۔(امداد الفتاویٰ،
الحیلة الناجزةللحلیلة العاجزة، بوادر النوادر،.... وغیرہ)
۲- حضرت مولانا مفتی نظام الدین رحمہ اللہ۔ (منتخبات نظام الفتاویٰ)
۳- حضرت مولانا ابوالمحاسن سجادرحمہ اللہ۔(فتاویٰ امارت شرعیہ ، کتاب الفسخ
والتفریق)
۴- مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ۔(جواہر الفقہ،
آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام)
۵- قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ۔(فتاویٰ قاضی، جدید فقہی تحقیقات،
جدید فقہی مباحث، کلوننگ، اہم فقہی فیصلے،سہ ماہی رسالہ ”بحث ونظر“جس میں
مختلف جدید مسائل پر حضرت قاضی صاحب نے قلم اٹھایا، جدید تجارتی شکلیں،عصر
حاضر کے پیچیدہ مسائل کا شرعی حل،....وغیرہ)
۶- حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ۔(فتاوی دار العلوم)
۷- حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ۔(فتاوی محمودیہ)
۸- حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم لاجپوری رحمہ اللہ۔ (فتاوی رحیمیہ)
۹- مولانا محمد تقی امینی رحمہ اللہ ۔(اسلام اور جدید دور کے مسائل)
10- مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ۔(احکام تجارت اور لین دین کے
مسائل)
11- حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ۔ (آپ کے مسائل اور ان
کا حل، شہاب مبین لرجم الشیاطین/ رجم کی شرعی حیثیت، اسلام کا قانون زکوة
وعشر اور نظام مالیات پر شبہات کا جواب)
12- شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ۔ (فتاوی شیخ
الاسلام)
13- حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی۔ (مسائل سود مدلل)
14- بحر العلوم حضرت مولانا فتح محمد صاحب لکھنوی رحمہ اللہ۔ (حلال وحرام
کے احکام المعروف بہ عطر ہدایہ)
15- شیخ الحدیث مولانا عبد الحق ۔ (فتاویٰ حقانیہ)
16- فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد پاکستانی رحمہ اللہ۔ (احسن
الفتاویٰ)
17- حضرت مولانا مفتی محمود صاحب۔ (فتاوی مفتی محمود)
18- حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ۔(امداد الاحکام)
19- حضرت مولانا مفتی عبد ا لکریم گمتھلوی رحمہ اللہ ۔ (امداد الاحکام)
20- حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ۔ (خیر الفتاویٰ)
٭٭٭٭٭
21- حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مد ظلہ۔(نوادر الفقہ، ضابط
المفطِّرات فی مجال التداوی)
22- شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ۔ (فقہی مقالات،
اسلام اور جدید معیشت وتجارت، انعام الباری شرح بخاری، اسلام اور جدید
معاشی مسائل، اسلامی بینکاری کی بنیادیں، بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة عربی،
احکام الذبائح، سود پر تاریخی فیصلہ،وغیرہ)
23- ڈاکٹر مولانا ساجد الرحمن صدیقی مد ظلہ۔ (اسلامی قانون اور تصور ملکیت)
24- حکیم محمود احمد ظفر ۔ (اسلام اور ملکیت زمین، اسلام کا نظام زکوة)
25- حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ۔ (جدید فقہی مسائل، نوازل
فقہیة معاصرة عربی)
26- مولانا عمران اشرف عثمانی۔(شرکت ومضاربت عصر حاضر میں)
27- مولانا زبیر اشرف عثمانی ۔ (جدید معاشی نظام میں اسلاقی قانون اجارہ)
28- مولانا اعجاز صمدانی ۔ (تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ، مالی معاملات
پر غرر کے اثرات، غرر کی صورتیں، تجارتی کمپنیوں کا لائحہ عمل شریعت کے
دائرہ میں)
29- مولانا مفتی ذاکر حسن نعمانی ۔ (اسلامی معیشت”معیشت کے بے شمار پیچیدہ
مسائل کا حل“)
30- مولانا برہان الدین سنبھلی۔ (موجودہ زمانہ کے مسائل کا حل)
31- مولانا بدر الحسن قاسمی۔ (عصر حاضر کے فقہی مسائل)
32- مولانا حشمت اللہ۔(جدید معاملاتی مسائل)
33- مفتی شبیر صاحب قاسمی۔ (ایضاح النوادر، ایضاح المسائل)
34- مفتی محمد جعفر ملی رحمانی/مولانا حذیفہ وستانوی ۔ (محقق ومدلل جدید
مسائل)
35- ڈاکٹر حافظ عبد الرحیم۔(مضاربت سود کا اہم متبادل)
36- مولانا عبید اللہ اسعدی۔( الربا/سود کیا ہے؟، تحدید نسل اور اسلامی
تعلیمات)
37- مولانا روح اللہ نقشبندی غفوری۔ (فضیلت مسواک اور حقیقت ٹوتھ پیسٹ)
38- مولانا موسی کرماڈی ، لندن۔ (عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل اور ان کاحل )
39- مولانا محمد عمر عابدین قاسمی۔ (حقوق اور ان کی خرید وفروخت)
40- پروفیسر ڈاکٹر نور محمد غفاری۔ (سرمایہ دارانہ نظام انشورنس اور اسلام
کا نظام کفالتِ عامہ)
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا“کے قیام کا مقصدقاضی صاحب کی زبانی:
کوئی بھی فقہ یا قانون اپنی حرکت سے ہی زندہ رہتا ہے، زندگی کی حرارت اور
حرکت کسی بھی زندہ قانون میں نمایاں ہوتی ہے، بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ
قانون کی تطبیق بہت نازک اور ذمہ داری کا کام ہے، قانون میں حرکت اور بدلتے
ہوئے حالات کے ساتھ ہم آہنگی اصول اور قواعد کلیہ اور تعبیر قانون کے مسلمہ
ضوابط کی بنیاد پر ہی برقرار رہ سکتی ہے، فقہ اسلامی کی پائداری اور حالات
اور زمانے کی تبدیلیوں کے باوجود انسانی زندگی میں انضباط پیدا کرنے اور
صحیح رہنمائی دینے کی بھرپور صلاحیت در اصل ان اصولی احکام کی رہین منت ہے
جنہیں فقہاءنے کتاب وسنت سے مستنبط کیا ہے اور ہر عہد میں اس عہد کے حالات
کو سامنے رکھ کر احکام فقہیہ کی تطبیق کا نازک فریضہ انجام دیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ایسی جامع شخصیتیں موجود تھیں جو کتاب وسنت ، فقہاءکے
اجتماعی اقوال ، قیاس کے اصولوں اوراستنباط کے طریقوں پر حاوی تھیں، شرع کے
عمومی مصالح اور تشریع کے اغراض ومقاصد پر ان کی نگاہ تھی اور وہ زمانہ
شناس بھی تھے، لہٰذا انہوں نے اپنے عہد میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال اور
ورع وتقویٰ کے ساتھ مقاصد شرع اور قوانین دین پر مضبوط گرفت رکھتے ہوئے
اپنے وقت کی مشکلات کا حل نکالا، ان اصحاب افتاءبزرگوں کا فتویٰ رائج سکّے
کی طرح مسلم معاشرے میں قبول عام اختیار کرتا رہا۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں، سائنس
وٹیکنالوجی کی ترقی نے نئے افق پیدا کئے، دنیا ایک چھوٹی سی بستی بن گئی،
معاشی اور اقتصادی امور میں نئی ترقیات نے نئے مسائل کھڑے کیے، جو لوگ
اسلام پر چلنا چاہتے ہیں اور شریعت کو اپنی معاشرت ، تجارت اور زندگی کے
دوسرے میدانوں میں معیار ہدایت قرار دے کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان کے
سامنے ایسے سیکڑوں سوالات پیدا ہورہے ہیں جن کے بارے میں وہ علماءواصحاب
افتاءکی طرف رجوع کرتے ہیں اور رہنمائی کے طالب ہیں۔ دوسری طرف ایسی جامع
شخصیتوں کا فقدان ہوگیا جو علم وتحقیق کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کرسکیں
اور جن کا تنہا فتویٰ بھی مسلم معاشرے میں قابل قبول ہو۔
اس لیے ضرورت تھی کہ اجتماعی فکر کی بنیاد ڈالی جائے اور علماءواصحاب دانش
باہمی تبادلہ خیال کے ذریعہ ان مسائل کا ایسا حل نکالیںجو اصول شرع سے ہم
آہنگ ہو اور فکری شذوذ سے پاک ہو۔
یہی وہ مقصد تھا جس کے لیے ” مجمع الفقہ السلامی الہند“ کی تشکیل عمل میں
آئی جس میں علماءاور فقہاءکے علاوہ ارباب علم ودانش، میڈیکل سائنس،
معاشیات، سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کو بھی شریک کیا گیا ہے ، اور خوشی
کی بات یہ ہے کہ اس علمی اور تحقیقی عمل کی آواز باز گشت ہندوستان سے باہر
بھی سنی جانے لگی ہے۔ |