آج عید قربان کا بہت مسترتوں
اورخوشیوںوالا دن ہے یہ دن ہمیں ایک عظیم باپ اور سعادت مند بیٹے کی عظیم
داستان کے مطلق بتاتا ہے جب حضرت ابراہیم ؑنے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے
بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کر رہے ہیں انھوں نے اس خواب کا ذکرا پنے بیٹے
سے کیا تو انھوں نے بھی سعادت مند بیٹے ہو نے کا بھرپوراظہارکر تے ہوئے
حضرت ابراہیم ؑسے کہا کہ اگر یہ اللہ تعا لیٰ کا حکم ہے تو میں اس کے لئے
ہمہ وقت تیارہوں اور اسی طرح حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو ایک ویران جگہ پر
لے گئے اور ان کوسیدھا لٹا کر ان کی گردن پر چھری چلا دی اورقدرت نے بھی ان
کی قربانی اور بندگی وسعادت مندی کو اتنا پسند فرمایا کہ حضرت اسماعیلؑ کی
جگہ ایک بھیڑ کے بچے کو اس چھڑی کے نیچے بھیج دیااور اس طرح اس بھیڑ کے بچے
کی قربانی ہو گئی اور یہ سنت ابراہیمی ہزاروں سال سے اسی طرح سے ادا کی جا
رہی ہے مگر موجودہ دور کے درندہ نماانسانوں نے مہنگا ئی کا جو سمندر پید
اکیا ہوا ہے اورضروریات زندگی کو ضرورت سے زیادہ مہنگا کیا ہوا ہے اس سے
ایسے لگتا ہے کہ یہ مہنگائی کاطوفان چند سالوںمیں امیروں کے گھروںکوبھی
بہلاکرلے جا ئے گا کیو نکہ آ ج کے درندہ نما ”انسانیت کے دوست“ اورحکمران
بھی اپنی عوام کوزندہ درگور کرنے میں مصروف عمل نظر آ تے ہیں ان لوگوںنے
پیدا واری یونٹوںمیں کم سے کم خرچ کر کے عوام کی جیبوں سے کروڑوں نکالنے کا
جو ہنر حاصل کیا ہوا ہے اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ انسان تو ہیں مگر ان کے
ضمیر ان کے جسموںمیں موجودنہیں ہیں جو اپنے ہی ملک کے عوام کو مہنگائی ،بے
روز گاری، اورکرپشن کے بدنام دھبے سے پریشان کئیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف
اپنی ہی پیدا کردہ چیزوں سے عوام کو زندہ درگور کرتے جا رہے ہیں بقول ان کے
”یہ انسانیت کے عظیم ترین دوست ہیں“ اور اپنے عوام کے لئے ہی یہ تما م
چیزیں پیدا کرتے ہیں مگرحقیقت بالکل اس کے برعکس ہے یہ لوگ چیزیں تو پیدا
کر تے ہیں مگر اپنی عوام کو پریشانی میںمبتلا کرنے کے لئے ان کا استعمال
بھرپور طریقے سے کرتے ہیں آ ج ملک کی کسی بھی مارکیٹ اورکسی بھی چیز کی
جانب نظر ڈورائیں ہر طرف مہنگائی کا سیلاب اس جمہوری دور حکومت میںعوام کو
ڈس رہا ہے آ ج سے 3/4سال قبل جوچیز10روپے کی ملتی تھی آج وہ 30/40میں بھی
بمشکل ملتی ہے اس کے لئے آ ٹے اور چینی کی مثالیںہی کافی ہیںکیو نکہ چینی
28روپے فی کلو اورآٹا 12 روپے فیکلو عام مارکیٹ میں با آسانی اور وافر مل
جا تاتھا مگر آ ج یہی چیزیں بہت مہنگی مل رہی ہیں اگراسی طرح پٹرول، ڈیزل
اورمٹی کے تیل کی بات کی جائے تو وہ بھی اپنی حدوں کو چھو رہے ہیں اور ملک
اسی مہنگا ئی کے زیر اثر ہےجس کی وجہ سے اس بار بھی سنت ابراہیمی اداکرنے
والوںمیں بے تحاشا کمی واقع ہو ئی ہے جو لوگ شاید پچھلے سال سنت ابراہیمی
ادا کر چکے ہیں وہ بمشکل اس سال اس سعادت کے فریضہ کوسر انجام دے سکیں گے
اس مہنگا ئی کے دورمیں وہ صرف قیمتیں پوچھ کر واپس جا تے نظر آئے ہیں گاہک
تاجروں پر زیادہ قیمتیں وصول کر نے کادعوی کرتے ہیں تو تا جر عوام کو ”صرف
باتوں سے دل بہلانے والے “ کہہ کر ٹالنے میں مصروف عمل ہیں اورمنڈی
والوںکوبھی اس مہنگا ئی کاذمہ دار قرار دیتے ہیں بقول ان کے سیلاب
میںہزاروں جانوروں کاضیاع ہوا ہے اس لئے ان کی قیمتوں میں یہ اضا فہ دیکھنے
میںنظر آ رہا ہے اوراوپر سے منڈی والے بھی زیادہ فیس وصول کرتے ہیں اس کے
ساتھ ساتھ وہ یہ تجویز بھی دیتے ہیںکہ اگرجانوروںکی سپلائی ڈ بل کر دی جائے
اورمنڈی کی فیس بھی کم کر دی جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ زیادہ لو گ سنت
ابراہیمی کو ادا کر نے کے قابل ہو جائیں گے اور اس طرح تصویر کا دوسرا رخ
دیکھیں تو مہنگائی کارونارونے والی عوام سے آج بازاروںمیںبے پناہ رش نظر آ
رہاہے اور وہاں تل دھرنے کوجگہ نہیںمل رہی اسکے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے
آتی ہے کہ آج سنت ابراہیمی کا مقصد صرف ذاتی اناکی تسکین اور ذاتی تشہیر کا
ذریعہ بنا دیا گیا ہے آ ج قربانی کو سنت ابراہیمی سمجھ کر ادا نہیںکیا جاتا
بلکہ صرف خود ی کی تشہیر کے لئے استعمال کیا جا تا ہے اور گوشت کی ”تقسیم“
بھی ”تعلق“ اور”خاندانی رسم و رواج“ کے مطابق سر انجام دی جاتی ہے اہم ،خصوصی
تعلق داروں اور”اونچے“ گھرانوں کواچھے اور بہترین گوشت سے نوازہ جاتا ہے
اور ان کی گھر میں آمد کے بعد خوب خاطر مدارت بھی کی جا تی ہے جب کہ اس
قربانی کے حقیقی حق داروںکویا تو ٹرخادیاجا تا ہے یاپھر اس گو شت سے نوازہ
جا تاہے جوخود کھا نے سے ”صاحب ِقربانی“ عا جز ہو تا ہے مطلب اس گوشت کی
تقسیم کرتے وقت بھی اس گوشت کو آپس میں مکس(ملایا ) نہیں جاتا بلکہ ہر
بہترین حصے کو یا تو اپنے فریج میں”فریز“ کر لیا جاتا ہے یا پھر اہم لوگوں
کو ”تحفے“ میں اوراپنی بڑائی جتلانے کے لئےستعمال کیا جاتا ہے یہ ہماری قوم
کی اجتماعی بے حسی اور سنت ابراہیمی کے متضاد کام کر نے کی زندہ جاوید مثال
ہے جب کہ لوگوں کوایساہرگز نہیں کرناچاہیئے کیونکہ ایک ایک قربانی کا حساب
روز آ خرت اللہ تعالیٰ کودینا ہے اور اپنے دین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے
قربانی کے فرائض کو اداکرنا چاہیئے کیو نکہ خدائے بزرگ وذوالجلال کا واضع
ارشادہے کہ ”مجھ تک تمھاری قربانی کا گوشت، خون اور کھالیں نہیںبلکہ تمھاری
نیتیں پہنچتی ہیں“ آج اسی ارشاد پر عمل پیرا ہوکر اپنے لئے روز آخرت کے لئے
سرخروہو نے کے لئے کام کر نا چاہیئے اوردین میںجسطرح قربانی کے فرائض
اورسنتوںپرعمل کرنا بتایا گیا ہے اسی پر عمل پیرا ہو کر غریبوں، مسکینوں،
محتاجوں، حقیقی ضرورتمندوں، رشتہ داروں، اورخوداپنے گھر والوںکے لئے گوشت
تقسیم کرنے کا جو طریقہ بتا یا گیا ہے اس پرعمل پیرا ہو نا چاہیئے اور
اگربحیثیت قوم اورایک فرد ہم اس پر قائم نہیں تو ہمیں اجتماعی طور پر آ ج
یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج ہم جسطرح اور جس سوچ سے قربانی کی سنت ادا کر
رہے ہیں کیا یہی وہ درس تھاجوہمیںحضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑنے
قربانی کے حوالے سے دیاتھا یا آ ج ہماری قربانی سے روح ابراہیمی نظر آ تی
ہے جواس وقت حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑنے ادا کی تھی ہمیں بھی اپنی
قربانی کو اسی کے مطابق ڈھالناہوگا اور اگر ایسا نہیں تو ہمیں اپنے اعمال
اور اپنے کردار پر نظر ڈالتے ہو ئے سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا
ہوگا تا کہ خود دین پرعمل پیرا ہو کر اپنی قربانی کو قربانی کی روح کے
مطابق اداکر سکیں اور آخرت میں یہ ہمارے لئے بخشش کاذریعہ بن سکے- |