عوام ابھی تک محوِ حیرت اور سکتے
کے عالم میں ہیں کہ کیا واقعی سپریم کورٹ نے اتنا بڑا عوامی مفاد عامہ کا
فیصلہ سنا دیا ہے اور اس پر کاروائی عمل میں لاتے ہوئے فوری سرکاری
نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ سی این جی کے ریٹ میں بڑے مارجن کا فرق
مبلغ تیس روپئے ارتیس پیسے کی کمی سپریم کورٹ کاواقعی بہت بڑااقدام ہے جس
سے ایوانِ بالا لرز رہا ہوگا۔ سی این جی کے ریٹ اب جولائی 2012ءکی نرخوں کی
سطح پر آگئی ہے۔اس سے بھی بڑھ کر ایک فیصلہ آیا ہے کہ ہفتہ وار پیٹرولیم
مصنوعات پر ردّوبدل نہیں کیا جائے گا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اوگرا کو سی این جی کا منافع طے کرنے کا
قطعی کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ پیٹرول اور سی این جی دو الگ الگ شعبے ہیں
مگر ہمارے یہاں کا چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے اس لئے یہ تمام اقدام اوگرا
کے ذریعے ہی کروایا جاتا رہا ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ CNGپیٹرول
کی قیمت میں کسی قسم کا جوڑ نہیں ہونا چاہیئے، گیس پر زائد رقم کی وصولی سے
عوامی استحصال ہو رہا ہے، اعلیٰ عدلیہ نے اب تک CNGپر لیئے جانے والے سر
چارج کی تفصیلات بھی منگوا لی ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کھپت میں کس
کس کا کچّہ چِٹھا کھلتا ہے اور کون کون بے نقاب ہوتا ہے۔
25اکتوبر 2012ءبروز جمعرات اور سعادتِ حج کے مبارک دن اعلیٰ عدلیہ نے عوام
کیلئے اتنا بڑا تحفہ دیا ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی،قیمتوں میں تیس
روپئے کا فرق کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے۔ عوام کی نظریں اب پیٹرول کی
قیمتوں پر لگی ہوئی ہیں اور پاکستانی عوام یہ چاہتی ہے کہ پیٹرولیم کی
قیمتیں بھی پرانی سطح پر بحال کی جائیں۔ سپریم کورٹ نے پہلے بھی ایک مرتبہ
ایسا ہی حکم نامہ جاری کیا تھا پیٹرولیم کے سلسلے میں اور قیمتیں بھی کم
ہوئیں تھیں مگر غالباً صرف دو دنوں کیلئے کیونکہ سربراہان نے سپریم کورٹ کے
فیصلے پر لبیک تو کہا تھا مگر پھر پیٹرولیم لیوی کے نام پر نیا ٹیکس لگا کر
پیٹرولیم کی قیمتیں وہیں پہنچا دیں تھیں ۔ اب عوام یہ بھی سوچ رہی ہے بلکہ
کئی لوگوں کی گفت و شنید سننے میں بھی آئی ہے کہ CNGکی پرائس کم تو کر دی
گئی ہیں مگر کیا کہنا ارباب کا‘ کب اس پر بھی کوئی اور نیا ٹیکس لگا کر
قیمتیں پھر سے آسمان پر پہنچا دیں جائے۔ سپریم کورٹ کو اس معاملے پر بھی
سخت فیصلہ لینا ہوگا تاکہ کمی کے بعد کوئی دوبارہ قیمتوں کے فرق کو متزلزل
نہ کر سکے۔
اب سنا یہ گیا ہے کہ چونکہ سی این جی مالکان کو بھی ان قیمتوں سے بڑا منافع
ملتا رہا ہے اس لئے انہوں نے قیمتوں میں کمی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا
ہے اوراس سلسلے میں کاروائی کیلئے عدالتِ عالیہ میں درخواست بھی دائر کی
گئی ہے ۔ عوام کے جیبوں پر ڈاکہ ڈال ڈال کر مالکان بھی اس کے عادی ہو گئے
ہیں اور وہ کمی کسی صورت برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ
اتھارٹی (اوگرا) بھی اس وقت بہت تذ بذب کا شکار ہے کہ یہ ماجراکیا ہو گیا
ہے جہاں ہر ہفتے قیمتیں بڑھتی ہوں وہاں یکدم اتنی گراوٹ اور وہ بھی فوری،
مگر مرتا کیا نہ کرتا فوری حکم پر فوری کاروائی کرتے ہوئے قیمتیں فوری کم
کر دی گئیں ہیں۔
جہاں عوام براہِ راست ہر ہفتے اضافے سے پریشان تھے اور ہر خاص و عام فرد
بھی اس مہنگائی سے متاثر نظر آتا تھا اور کیوں نہ نظر آئے کیونکہ ان فیصلوں
سے ظاہر ہے کہ براہِ راست عوام اور عام فرد ہی متاثر ہوتا تھا اور ان چیزوں
کے اضافے سے عام اشیاءخورد و نوش پر بھی بُرے اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں اور
روز مرہ کی اشیاءبھی اسی ratioسے مہنگی ہوتی رہی ہیں اب ان میں بھی کمی آنی
چاہیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ برادری کو بھی چاہیئے کہ اب وہ اپنے
کرائے نامے پر بھی نظرِ ثانی کریں اور عوام کی داد رسی میں اپنا حصہ ڈالیں
تاکہ غریب اور پسے ہوئے عوام کو اس کمی کے اثرات کا ثمر مل سکے۔
ویسے بھی عوام ایک عرصے سے مہنگائی کی چکی میں پِسے چلے جا رہے ہیں ، بجلی
کی بندش نے پہلے ہی عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا کہ رہی سہی کسر گیس کی
بندش نے پوری کر دی۔ ہمارے یہاں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا وقت بھی مقرر نہیں (اب
قدرے اس لوڈ شیڈنگ میں بہتری آئی ہے) کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحے اس
مسئلے سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے اور گھر کا چولہا جلتے جلتے اچانک ٹھنڈا پڑ
جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر گیس مکمل طور پر بند نہیں بھی
ہوتا ہے تو پریشر اس قدر کم ہو جاتا ہے کہ اس پر کھانا تیار کرنا نہایت
دشوار ہو جاتا ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ جب مٹی کے تیل کا استعمال عام
تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس انداز میں تبدیلی آتی گئی اور اس کی جگہ گیس
کے چولہوں نے لے لی اور اب تو ہر دوسرے گھر میں گیس کے چولہے ہی ہیں اس لئے
مٹی کے تیل یا لکڑی کا استعمال نہیں رہا۔ گیس کی بندش یا پریشر میں حد درجہ
کمی کا مسئلہ ہمارے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ مسئلہ دن بہ دن شدت
اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یوں عوام اربابِ اقتدار اور اربابِ اختیار سے یہ
درخواست کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس مسئلے پر بھی جلد قابو پانے کی سعی کی
جائے۔
ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے پائپ لائن ابھی تک عدم استحکام کا شکار ہے
اگریہ کام وقت پر ہو جاتا تو شاید آج ہمارے یہاں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں
ہوتی۔ مگر یہ سلسلہ کیوں ابھی تک بریک کا شکار ہے اس کی وجوہات کیا ہیں ،
یہ توانائی سے متعلق افراد سے ہی جانا جا سکتا ہے۔
ایک موقع پر پاکستانی عدالتِ عطمیٰ میں رانا بھگوان داس کمیشن کی جانب سے
جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق گیس کی فی کلو لاگت صرف 17روپے ہے جو
99روپئے فی کلو فروخت کی جا رہی ہے۔ اتنا بڑا مارجن کافرق تو واقعی عوام پر
ظلم سے کم نہیں تھا۔ ویسے بھی سننے میں یہی آتا ہے کہ پاکستان میں گیس کی
کمی نہیں ہے کیونکہ ہمارے ملک میں گیس وافر مقدار میں موجودہے مگر پھر بھی
نہ جانے کیوں گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی بجلی کی طرح اپنے عروج پر ہے اور کئی
کئی دن تک بلا ناغہ ملک بھر میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ پتہ نہیں ہم
کب ہر معاملے میں خود کفیل ہونگے ۔ 65سالوں ترقی کے نام پر ہمارے
رفقاءحضرات نے لفظی جمع خرچ تو بہت کیا ہے مگر عملی طور پر اس کے ثمرات آج
تک صحیح معنوں میں دیکھنے میں نہیں آ سکا۔یہاں تو نظر یہی آتا ہے کہ ہم ہر
نئے دن کی شروعات کسی نہ کسی طرح کی کرائسس سے ہی کرتے ہیں ۔ ابھی تک ہم
لوگوں نے ترقی کی منازل طے کرنا کیوں شروع نہیں کرکیایا کرسکے یہ تو ایک
الگ موضوع ہے مگر ترقی کیونکر ممکن ہو سکتا ہے اور ترقی حاصل کرنے کیلئے کن
بنیادوں پر ترجیحی نوعیت کے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے اس پر ہمیں اب
واقعی سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی دنیا کی صفوں میں ترقی یافتہ کہلا
سکیں۔
بہرحال آج اعلیٰ عدالت کا فیصلہ خالصتاً عوامی مفاد میں آیا ہے ۔ اور
پاکستانی عوام کی خواہش یہی ہے کہ اس فیصلے کے بعد کوئی فیصلہ صادر نہ کر
دیا جائے جس سے عوام کی خوشی پر اوس پڑ جائے۔ اسی طرح کے مزید فیصلوں کی
ابھی ہماری عوام کو ضرورت ہے تاکہ پِسی ہوئی غریب عوام سکھ کا سانس لینے کے
قابل ہو سکیں۔ |