اجتماعی قبریں اور بھارتی بی ایس ایف کی پُراسرار کھدائی

بھارتی وزیر داخلہ پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسند بھیجنے کا گھساپٹا الزام دہرایا ہے جبکہ انہی الزامات کی آڑ میں قاتل بھارتی افواج لاپتہ کشمیری نوجوانوں کو کنٹرول لائن کے قریب شہید کرکے ان کی لاشیں وہاں اجتماعی قبروں میں دفن کر دیتی ہیں جن کی مقامی شناخت بعد میں سامنے آ جاتی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی بی ایس ایف نے یہ سرنگ سامبا ریجن شکر گڑھ سیکٹر میں بتدریج زیرو لائن تک کھود دی ہے عسکریت پسندوں کو بھیجنے کے لئے سرنگ کھودنے کا الزام پاکستان پر لگا کر نہ تو پاکستان رینجرز کو معائنے کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی فلیگ میٹنگ کرتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی بی ایس ایف کی طرف سے کی جانے والی پُراسرار کھدائی کے جواز کے طور پر یہ مبینہ سرنگ بھارتی علاقے سے شروع اور وہیں ختم ہوئی تھی۔ حسب روایت بھارت نے پہلے اپنے گھر سے اس کی تحقیقات کرنے کے بجائے تمام الزام پاکستان رینجرز پر ڈال دیا جو کہ چانکیائی ذہنیت کا ایک اور بدترین نمونہ ہے۔ یہ سب کچھ دورہ واہگہ بارڈر کے موقع پر ہمارے علم میں آیا۔

واہگہ بارڈر پر بابِ آزادی کے قریب ہم بھی موجود تھے فضاء”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ“ کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی۔ خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ نشستیں موجود بھی تھیں اور وہاں تِل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ دراصل میں اپنی والدہ شاہین اختر، چھوٹی بہن ملیحہ جاوید اور والد محترم راجہ جاوید علی بھٹی کے ہمراہ خونِ شہیداں سے کھینچی ہوئی لکیر کے اِس پار آزادی کی قدر و قیمت کو پورے جوش و جذبے سے پاکستان اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے نعرہ زن ہو کر زندگی کی سب سے بڑی خوشی سمیٹ رہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان رینجرز کی طرف سے پرچم اتارنے کی تقریب کا جس انداز میں اہتمام اور اس موقع پر پاکستانی عوام کا جوش و جذبہ، قومی نغموں کی گونج میں ایک ایسا سماع باندھ دیتا ہے جو دنیا کی تاریخ میں شاید کسی اور سرحد پر دیکھنے کو نہیں ملتا۔

پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارت نے خاردار تار لگا رکھی ہیں تاہم پاکستان رینجرز نے بڑے پیمانے پر شجر کاری کررکھی ہے جو کہ بطور چیئرپرسن انوائرمنٹل واچ ٹرسٹ میرے لئے قابل ذکر اور قابل تقلید بھی ہے۔ واہگہ بارڈر کے دورے کے بعد ہم نے بی آر بی پر حاضری بھی دی جو کہ انشاءاللہ بہتی رہے گی جہاں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر نے دشمن بھارت کے عزائم خاک میں ملا دیئے تھے۔

واہگہ بارڈر کے دورے کے دوران یہ ناگوار انکشاف بھی ہوا کہ بھارتی بی ایس ایف نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کے قریب نہ صرف پُراسرار کھدائی شروع کررکھی ہے بلکہ ”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کی پالیسی بھی اپنا رکھی ہے۔ اگرچہ پاکستان رینجرز نے بھارت کی طرف سے سامبا ریجن کے قریب پاک بھارت سرحد پر واقع شکر گڑھ سیکٹر میں بھارت کی طرف سے خفیہ سرنگ کھودے جانے کو فوری طور پر روک دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت کی یہ سرگرمیاں بھارتی بارڈرسیکورٹی فورس (بی ایس ایف) اور پاکستان رینجرز (پنجاب) درمیان ہونے والے بارڈر گراﺅنڈ رولز 1961ءکی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح باہمی رضامندی سے طے پانے والے بارڈر گراﺅنڈ رولز کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ رینجرز نے سرحد کے ساتھ بھارت کی خفیہ سرگرمیوں پر سخت اعتراض کیا ہے گو کہ بھارتی سرحد کی طرف سرنگ کھودنے کا کام شروع کرنے کے بعد ختم بھی کردیا گیا ہے جس میں بھاری مشینری اور کھدائی کا پیٹرن یا سٹائل ظاہر کرتا ہے کہ بی ایس ایف زیر زمین بنکرز کھودنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان میں سے بعض میں ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد چھپانا، اس کے علاوہ سمگلرز کو محفوظ راستہ فراہم کرنا یا فوج کو ان بنکرز کے اندر چھپا دینا اور مشتبہ سرگرمیوں کو خوفناک حد تک لے جانا ہے۔ پاکستان رینجرز کی طرف سے فیلڈ کمانڈرز نے اس ایشو پر اپنے ہم بھارتی منصب کے ساتھ متعدد بار فلیگ میٹنگز کا مطالبہ بھی کیا مگر دوسری طرف سے تاخیری حربے استعمال کئے گئے جبکہ سرنگیں کھودنے کا کام زیرو لائن کے قریب تیزی سے کیا گیا۔ سرنگ کھودنے کی سائٹ پر ایک ہی میٹنگ ہوئی تھی جب بی ایس ایف حکام سے ان کے دعوے کے مطابق سرنگ کے دستاویزی ثبوت دکھانے کا کہا گیا تو وہ کچھ بھی دکھا نہ پائے لیکن حسب روایت بغیر ثبوت الزام تراشی کی بھارتی فوج ، حکومت کی روایتی پالیسی بی ایس ایف نے بھی اپنا رکھی ہے۔یاد رہے کہ بھارت کی طرف سے تقریباً ایک ماہ قبل سرنگ کی کھدائی شروع ہوئی جو بتدریج زیرو تک لائن کھودد ی گئی۔ جس کے بعد اب بی ایس ایف ان سرنگوں کو کسی بھی وقت ڈرامائی موڑ دے سکتی ہے ۔ لینیئر شکل میں کھودی گئی ان سرنگوں کے درمیان تقریباً 15 میٹر کا وقفہ دیا گیا ہے جو ہوسکتا ہے کہ زیرو لائن تک باہم ملائی گئی ہوں جس کا مقصد پاکستان پر الزام لگانا یا پھر بھارت کی طرف سے کوئی مہم جوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ صحافیوں کے ایک گروپ نے پاکستان رینجرز (پنجاب) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل میاں محمود ہلال حسین کے ہمراہ بذات خود سرنگ کی سائٹ کا دورہ کیا تھا مگر گراﺅنڈ پر سرنگ کے کوئی شواہد نہیں ملے تھے تاہم پاکستانی فیلڈ کمانڈرز نے نوٹ کیا تھا کہ بی ایس ایف نے بھاری مشینری جن میں ایکسویٹر جیسی مشینری شامل تھی کے ساتھ کھدائی کا کام کیا ہے۔ سرنگ کھودنے کی سرگرمیاں پاک بھارت سرحد کی زیرو لائن کے قریب دیکھی گئی ہیں اور یہ گاﺅں لیمبریل کے قریب واقع پاکستانی علاقے سے دیکھی جاسکتی تھیں۔ اس سال 29 جولائی کو بی ایس ایف نے اپنے ریاستی میڈیا کے ذریعے ایک دیہاتی کی طرف سے نام نہاد 300 میٹر طویل سرنگ دریافت کرنے کا پروپیگنڈا کیا تھا۔ بی ایس ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سرنگ سامبا میں بارشوں کے نتیجے میں دریافت ہوئی تھی جو بھارت کی چلیاری پوسٹ کے قریب واقع تھی۔ پاکستان رینجرز نے بی ایس ایف کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھاکہ زیر زمین سرنگ سامبا سیکٹر میں پاکستانی بارڈر کے ساتھ دریافت ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی بی ایس ایف کی طرف سے کی جانے والی پُراسرار کھدائی کے جواز کے طور پر یہ مبینہ سرنگ بھارتی علاقے سے شروع اور وہیں ختم ہوئی تھی۔ حسب روایت بھارت نے پہلے اپنے گھر سے اس کی تحقیقات کرنے کے بجائے تمام الزام پاکستان رینجرز پر ڈال دیا جو کہ چانکیائی ذہنیت کا ایک اور بدترین نمونہ ہے۔
Shumaila Javaid Bhatti
About the Author: Shumaila Javaid Bhatti Read More Articles by Shumaila Javaid Bhatti: 15 Articles with 10640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.