حکیم محمد اشرف ثاقب
کرسچن مو رلنگا کو لمبو یو نیورسٹی میں شعبہ سیا سیا ت کا پروفیسر تھا۔ وہ
جب اپنی کلاس کو لیکچر دیتا تو بسم اللہ پڑھتا حالانکہ وہ عیسائی تھا۔ اکثر
اُس کے طالب علم اُس سے سوال کر تے کہ سر آپ مسلما ن نہیں مگر ہر کام سے
پہلے آپ بسم اللہ پڑھتے ہیں ۔ وہ کہتا کہ بسم اللہ پڑھنے میں بہت برکت ہے۔
اور مجھے ان دولفظو ں پر اتنا یقین ہے۔ جس طرح کہ کسی جا نور کا دودھ واپس
تھنوں میں نہیں جا سکتا ۔ شاگرد اُس سے سوال کر تے کہ سرآپ کو ان لفظوں پر
یقین کس طرح ہے؟کیا آپ کے ساتھ کو ئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے ۔ جس سے آپ متا
ثر ہو کر بسم اللہ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں کرسچن مو رلنگا نے کلا س روم
کی چھت کی طرف دیکھا اور اپنے ایک طالب علم سے پانی کا گلا س منگوایا رومال
سے چہرہ صاف کیا پھر بڑے دھیمے انداز سے اپنے لبو ں کو حرکت دی اور کہا کہ
ایک مر تبہ میں کو لمبو ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا گاڑی لیٹ تھی ریلوے
اسٹیشن پرپُرانی کتابو ں کا ایک سٹال لگا ہو ا تھا۔ میں نے ایک پُرانے
رسالے کو اُٹھا یا اور پڑھنا شروع کر دیا ۔ جس میں ان دولفظوں کے بہت زیادہ
فوائد لکھے ہو ئے تھے۔ میں نے اُس کی قیمت پوچھی اُس نے مجھ سے پیسے نہ لئے
حالانکہ وہ مسلما ن نہیں تھا غالباًاُس کی قیمت بہت کم تھی وہ پمفلٹ ٹائپ
صر ف بیس صفحات پر مشتمل تھا۔ اور ان اوراق میں صرف اور صرف بسم اللہ پڑھنے
کی فضیلت درج تھی ۔ابھی میں اس رسالے کی ورق گردانی کررہا تھا کہ اُدھر سے
گاڑی کی جھجک جھجک کی آواز آئی ۔ کچھ دیر ہی بعد گاڑی آندھی اور طوفان کی
طرح ریلوے اسٹیشن پر آکر رُک گئی ۔ کچھ مسافر گاڑی سے اُتر رہے تھے اور کچھ
اپنی منزل پر جا نے کیلئے گاڑی میں سوار ہورہے تھے ۔
پروفیسرکر سچن مو رلنگا اپنی کتا ب برائٹ وے میں لکھتا ہے کہ میں بسم اللہ
کے دو لفظ پڑھ کر گاڑی میں سوار ہو گیا ۔ گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں
ہو نا شروع ہو گئی ۔ جب گاڑی ایک پہاڑی راستے سے گزر ی تھی کہ اچانک ایک
زوردار دھما کہ ہو ا ورگاڑی کے چند ڈبے انجن سے جُدا ہو کر سینکڑوں فٹ گہری
کھا ئی میں جا گرے۔ جس ریل کے ڈبے میں میں بیٹھا ہو اتھا وہ بھی گہری کھا
ئی میں جا گرا اچانک زوردار دھما کے اور شورشرابے میں بے ہو ش ہو گیا ۔ جب
مجھے ہو ش آیا تو ڈبہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا اور میرے اوپر نیچے لا
شوں کے انبار لگے ہو ئے تھے میرے چاروں طرف گوشت کے لو تھڑے لٹکے ہو ئے تھے
۔ ڈبے کے اندر خون کی نہریں جا ری تھیں ۔ میں نے باہر نکلنے کی بہت کو شش
کی مگر ناکا م رہا ۔ جب 24گھنٹے گزرگئے ۔ تو مجھے زندگی کا چراغ بُجھتا نظر
آیا ۔ پھر اگلے چوبیس گھنٹے بھی گزر گئے میں زندگی اور مو ت کی کشمکش میں
آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ اچانک مجھے اُس پمفلٹ میں لکھے ہوئے لفظوں کی
فضیلت یا د آئی۔ میں نے فوراًاُن بسم اللہ کے لفظوں کو پڑھنا شروع کر دیا ۔
خدا کی قدرت ٹھیک پندرہ منٹ بعد مجھے دائیں جانب سے ایک روشنی نظر آئی میں
نے آگے بڑھ کر اُسی روشنی کا جائزہ لیا تو میرے سامنے ایک گاڑی کی کھڑکی
کھُلی جس سے بمشکل میرا جسم گاڑی سے با ہر آیا ، جب میں اُس مو ت کی وادی
سے باہر آیا میں نے آسما ن کی طرف دیکھا اور کہا کہ Thanks Godتو نے مجھے
نئی زندگی عطا کی ہے۔
قارئین محترم دیکھئے ایک عیسائی کو لفظ بسم اللہ پر اتنا یقین مگر آج ہم نے
اپنے آفاقی مذہب کو چھو ڑ دیا ہے ، آج یہو دو نصاریٰ تو غیر مسلم ہو تے ہو
ئے بھی اسلامی روایا ت اور اسلام کے آفاقی اصو لو ں پر کا ربندہیں ۔ مگر ہم
جو کلمہ گو مسلما ن ہیں اپنے مذہب سے بیزار نظر آتے ہیں ۔ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیا ت ہے ۔ اس کی روایات اس کے سنہرے اصو ل قواعد و ضوابط کا میا بی
و کامرانی کے راستے دکھا تے ہیں۔ مگر ہم اپنی اسلامی تہذیب و تمدن کو چھو ڑ
کر اغیا ر کے راستے پر چل رہے ہیں ، نہ ہما ری کو ئی منزل ہے ۔ اور نہ ہی
ہم نے اپنی منزل کا تعین کیا ہے۔ اس لئے ہم منزل سے دور سے دور تر ہو تے جا
رہے ہیں، آج پاکستان میں دیکھ لیں ، فحا شی و عریا نی عام ہے۔عورتوں کا
کھُلے عام پھرنا آزادی نسواں کا نام دیا جا رہا ہے ۔ اللہ کے بھیجے ہو ئے
دین کی کھُلے عام خلا ف ورزیا ں کر رہے ہیں ، نا انصافی قتل و غارت کے با
زار گرم ہیں۔ قانو ن کو صر ف فائلو ں میں بند کر دیا گیا ، چپڑاسی سے لیکر
اوپر تک رشوت کا بازار گرم ہے رشوت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ تو پھر کیا ہو
گا آسمانوں سے عذاب نازل ہو گا زمین سے لا وا اُبلے گا، رزق کی تنگی ہو گی
ہما رے گھروں میں بد سلو کی اور جھگڑے ہو نگے اولا دیں ما ں با پ سے نفرت
کریں گی۔ یہ سب کچھ معاشرہ میں ہو رہا ہے ۔ |