کشمیری قذاق، جھوٹوں کی حکومت اور ڈاکٹرز

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت حارثہ ؓ کی ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت خباب ؓ نے کہاکہ میں نے اپنے آپ کو حضور کے ساتھ اس حال میں دیکھا ہے کہ میں ایک درہم کا بھی مالک نہیں تھا اور آج میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہوئے ہیں پھر اُن کیلئے جب کفن لایاگیا تو اسے دیکھ کر روپڑے اور فرمایا (مجھے تو ایسا اچھا اور مکمل کفن مل رہاہے ) اور حضرت حمزہ ؓ کے کفن کی تو صرف ایک دھاری دار چادر تھی اور وہ بھی اتنی چھوٹی کہ اُسے سر پر ڈالا جاتا تو پاﺅں ننگے ہوجاتے اور اگر پاﺅں ڈھانکے جاتے تو سر ننگا ہوجاتا آخر سر ڈھک کر پیروں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی اسی طرح حضرت ابو وائل شقیق بن سلمہ ؒ کہتے ہیں حضرت خباب بن ارت ؓ بیمار تھے ہم لوگ ان کی عیادت کرنے گئے تو انہوں نے فرمایا اس صندوق میں 80ہزار درہم رکھے ہوئے ہیں اور اللہ کی قسم (کھلے رکھے ہوئے ہیں ) میں نے انہیں کسی تھیلی میں ڈال کر اُس کا منہ بند نہیں کیا (انہیں جمع کرکے رکھنے کا میرا ارادہ نہیں ہے ) اور نہ میں نے کسی مانگنے والے سے انہیں بچا کررکھاہے (جوبھی مانگنے والا آیا ہے اُسے ضروردیاہے ) میں تو انہیں خرچ کرنے کی پوری کوشش کرتارہا لیکن یہ پھر بھی اتنے بچ گئے اور اس کے بعد رو دیئے ہم نے عرض کیا کہ آپ کیوں روتے ہیں تو انہوں نے فرمایا میں اس وجہ سے روتاہوں کہ میرے ساتھی اس دنیا سے اس حال میں گئے کہ (دین کے زندہ کرنے کی محنت انہوں نے خوب قربانیوں اور مجاہدوں کے ساتھ کی اور ) انہیں دنیا کچھ نہ ملی (یوں ہی فقر وفاقہ میں یہاں سے چلے گئے اس لیے ان کی محنت اور اعمال کا سارا بدلہ انہیں اگلے جہان میں ملے گا ) اور ہم ان کے بعد یہاں دنیا میں رہ گئے اور ہمیں مال دولت خوب ملی جو ہم نے ساری مٹی گارہ میں یعنی تعمیرات میں لگادی ۔

قارئین آج کے کالم کے عنوان سے آپ اچھی طرح اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ سینئر سپشلسٹ ڈاکٹرز کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہم آج کی بیان کردہ سنہری اور درخشاں مثال کے مطابق آپ کے سامنے آزادکشمیر کی 1947کی حالت اور آج کی حالت کا تقابلی جائزہ لیں گے اور اس سب بحث کے دوران ان معصوم سینئر سپشلسٹ ڈاکٹرز کے مسئلے کے حل کی طرف بھی آئیں گے ۔قدرت اللہ شہاب بھی آزادکشمیر کی آزادی کے وقت یہاں چیف سیکرٹری کی حیثیت سے تعینات ہوئے تھے اور وہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت آزادکشمیر کے صدر ووزیر اعظم سے لیکر وزراءکرام اور تمام افسران کا مشنری جذبہ کس سطح پر تھا ایک وزیر کے متعلق تو وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جنجال ہل سے جب دارالحکومت مظفرآبادشفٹ کیاگیا تو وہ وزیر اپنی گاڑی میں سرکاری کاغذات لے کر جارہے تھے کہ راستے میں حادثہ پیش آگیا دیہاتی اُن کی مدد کو آئے اور شدید زخمی وزیر اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک انہیں یقین نہ ہوگیا کہ تمام سرکاری کاغذات حفاظت کے ساتھ درست جگہ پہنچانہیں دیئے گئے قدرت اللہ شہاب میرپور کا یہ واقعہ بھی نقل کرتے ہیں کہ وہ منگلاڈیم کے کنارے جگہ پر جیپ پر سوار ہوکر جارہے تھے کہ راستے میں ایک بوڑھے جوڑے نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا اُن کے ساتھ ایک گدھے کے اُوپر دوبوریاں لدی ہوئی تھیں قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ میں نے گمان کیا کہ شاید یہ کوئی مدد مانگیں گے میں نے گاڑی روک کر پوچھا کہ کیا بات ہے تو بوڑھے آدمی نے سوال کیا کہ بیت المال کس طرف ہے میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ آپ نے بیت المال جاکر کیاکرناہے تو اُس بوڑھے آدمی نے جواب دیا کہ میں نے اورمیری بیوی نے میرپور کے ملبے کے ڈھیر سے سونے اورچاندی کے زیورات پر مشتمل یہ دوبوریاں اکٹھی کی ہیں اور ہم یہ بیت المال میں جمع کرانا چاہتے ہیں قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ میں نے انہیں اپنی جیپ میں بوریوں سمیت سوار کیا اور بیت المال لے گیا قدرت اللہ شہاب مزید تحریر کرتے ہیں کہ آج جب میں ان نیک طینت اور پاک باز ہستیوں کے متعلق سوچتاہوں تو حسرت ہوتی ہے کہ میں اُن کے جوتوں میں کیوں نہیں بیٹھا ۔

قارئین یہ تو وہ کریکٹر تھا کہ جو تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں حکومتی سطح سے لیکر عوامی سطح تک دکھائی دیتاتھا جوں جوں وقت گزرتاگیا ظاہری ترقی تو ہوتی گئی لیکن اخلاقیات اور اعلیٰ سماجی اقدار کھو گئیں ایف ایم 93ریڈیوآزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری میں ہم نے کچھ عرصہ قبل ”ملکی ترقی میں بیوروکریسی کا کردار “ کے عنوان سے ایک مذاکرہ رکھا جس میں دوسینئر ترین بیوروکریٹس سردار رحیم خان موجودہ سیکرٹری سیرا اور ڈاکٹر آصف سابق سیکرٹری سیرا نے تفصیلی گفتگو کی انہوںنے بتایا کہ آزادکشمیر میں جب 1947میں انقلابی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس وقت صرف چند سوکلومیٹر سٹرک پورے آزادکشمیر میں موجود تھی آج دس ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکوں کاجال پورے آزادکشمیر کو آپس میں مربوط انداز میں جوڑے ہوئے ہے تب سے لیکر اب تک سرکاری ہسپتالوں ،ڈسپنسریوں ،سکولوں ،کالجوں ،یونیورسٹیوں سے لیکر موجودہ دومیڈیکل کالجز سے لیکر ہر شعبہ زندگی میں جو ترقی ہوئی ہے اُس کا سیاسی سطح پر خواب سیاستدان دیکھتے ہیں اور اُن خوابوں میں عملی رنگ یہ پروفیشنل بیوروکریسی بھرتی ہے ہم نے ان دونوں معزز شخصیات سے ایک چبھتا ہوا سوال بہت ہی شوگر کوٹڈ انداز میں کیا کہ آپ یہ بتائیے کہ سننے میں آیاہے کہ جب بھی بیوروکریسی ملکی مفاد میں کوئی اہم فیصلہ کرتی ہے جس کی زد میں سیاسی قوتیں آرہی ہوتی ہیں یا اُن کو کوئی اعتراض ہوتاہے تو وہ سیاسی قوت چاہے حکومت جماعت سے تعلق رکھتی ہو یا اس کا تعلق اپوزیشن ہو اس موقعے پر مختلف حربے استعمال کرکے دیانتدار بیوروکریٹ کو پریشرائز کیاجاتاہے کیایہ درست ہے اور اس موقع پر بیوروکریسی کا ردعمل کیاہوناچاہیے اس پر سردار رحیم خان نے بہت دلچسپ جواب دیا انہوںنے کہاکہ یہیں پر تو اس بیوروکریٹ کی دیانتداری ،پیشہ ورانہ صلاحیت او رایمان کا امتحان شروع ہوتاہے کہ وہ کس تدبر کے ساتھ اس تمام دباﺅ کر برداشت کرتے ہوئے اپنے ایمان کی روشنی میں اپنی پروفیشنل ڈیوٹی انجام دیتاہے ہمارے رہبر اوررہنما اور پروگرام کے جزولاینفک سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خان نے یہاں اُن سے سوال کیا کہ کیا ایسا واقعی ہوتاہے کہ بیوروکریٹ کو دباﺅ میں لاکر سیاستدان اپنی مرضی کاکام کروائیں اس پر سردار رحیم خان بے ساختہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ آپ نے ایک سینئر صحافی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے پھنسا ہی لیاہے بالکل ایسا ہوتاہے اور کئی واقعات آن دا ریکارڈ موجود ہیں ۔

قارئین اس سب پس منظر کو بیان کرنے کے بعد آئیے اب موضوع کی طرف چلتے ہیں آزادکشمیر میں محکمہ صحت عامہ کے سٹرکچر کچھ اس طرح ہے کہ اس محکمہ کے سربراہ یعنی سیکرٹری ہیلتھ روز اول سے پاکستان آرمی سے تعلق رکھتے ہیں عام طور پر بریگیڈئیر یا جنرل رینک کے آفیسر پاکستان سے اس عہدے پر فائز کیے جاتے ہیں اور انہیں لینٹ آفیسر بھی کہاجاتاہے یہاں آپ کی دلچسپی کیلئے ہم بتاتے چلیں کہ آزادکشمیر میں چیف سیکرٹری ،سیکرٹری فنانس او رسیکرٹری ہیلتھ ان تین عہدوں پر روزاول سے ہی لینٹ آفیسرز تعینات کیے جاتے ہیں آزادکشمیر کے عوام اور بیوروکریسی عموماً یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ ان تین اہم عہدوں پر آزادکشمیر ہی کے بیوروکریٹس اور آفیسرز کو تعینات کیاجاناچاہیے خیر سیکرٹری ہیلتھ کے انڈر ڈی جی ہیلتھ کام کرتے ہیں اس کے بعد تما م اضلاع کے اندر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ز اور اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کی پوسٹیں موجود ہیں اوراسی طرح تمام ضلعی ہیڈکواٹر ہسپتالوں میں میڈیکل سپریٹنڈنٹس ہوتے ہیں اور اسی طرح اُن کے سب آرڈینٹس موجود ہیں جو پورے ہیلتھ سٹرکچر کی ایک چین بناتے ہیں آزادکشمیر میں ہم نے گزشتہ ایک کالم میں بھی عرض کیاتھا کہ جس ڈاکٹر نے صرف ایم بی بی ایس کیاہوتاہے وہ میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے گریڈ 17میں تعینات ہوتاہے اور موجودہ سروس رولز کے مطابق 20ویں گریڈ تک ترقی کرسکتاہے جبکہ وہ ڈاکٹر جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایک سال کا مینجمنٹ کا ڈپلومہ یا ڈگری حاصل کرتے ہیں وہ ادارہ کے سربراہ یعنی ڈی جی تک بن سکتے ہیں اور ایسی ہی کئی مثالیں موجود ہیں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور ڈی ایچ کیو ہسپتالوں کے سربراہان بھی ایک سالہ ڈپلومہ یا ڈگری ہولڈر ڈاکٹرز ہوتے ہیں جن کے انڈر وہ اعلیٰ دماغ کام کررہے ہوتے ہیں جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد چار سال سے آٹھ سال مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ٹیچنگ ہسپتال کو جائن کرتے ہیں اور ایف سی پی ایس ،ایم سی پی ایس ،ایم آر سی پی ،ایف آر سی ایس ،ایم آر سی اوجی اور دیگر بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں آج سے 20,25سال قبل چونکہ محکمہ صحت آزادکشمیر میں سپشلسٹ ڈاکٹرز کا شدید فقدان تھا اس لیے جب اُس وقت فیلو شپ حاصل کرنے کے شوقین ڈاکٹر صاحبان نے محکمہ سے سپشلائزیشن کرنے کی اجازت مانگی تو محکمہ نے یہ کہہ کر فیلو شپ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا کہ اگر یہ ڈاکٹر ز چار ،چھ یا آٹھ سال کیلئے تعلیم حاصل کرنے چلے گئے تو محکمہ صحت کا نظام تباہ وبرباد ہوجائے گا اس کا حل محکمہ نے یوں نکالا کہ اُن دنوں پاکستان آرمی ایک سے دوسال کی گریڈنگ کرایاکرتی تھی اور میڈیسن ،سرجری،گائنی اور دیگر شعبہ جات میں آزادکشمیر کے ان ڈاکٹرز کو تربیت حاصل کرکے گریڈڈسپشلسٹ کا درج دے دیاگیا یہ ڈاکٹرز فیلو شپ کیے ہوئے ڈاکٹر ز کی طرح آپریشن بھی کرتے رہے ،ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مریضوں کا علاج بھی کرتے رہے اور گریڈ 19تک ان کو ترقی دے دی گئی اب جب کہ وہ کیرئیر کے اختتامی اوور ز کھیل رہے ہیں اور انہیں گریڈ 20میں ترقی دینے کا موقع آیاہے تو کم پوسٹیں ہونے کی وجہ سے سنیارٹی کے قواعد وضوابط اور معیار کا جھگڑا شروع کردیاگیاہے ڈاکٹر وقار حیدر جو کہ مظفرآباد کے کارڈیالوجسٹ ہیں ان کے متعلق اور ان کے ایک او رکولیگ کے متعلق محکمہ کے ڈاکٹرز اور عوام الناس میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ انہوںنے سابق سیکرٹری ہیلتھ بریگیڈیئر کمال الدین سومرو کی دوستی کا فائد ہ اُٹھاتے ہوئے سروس رولز میں کچھ ایسی تبدیلیاں کروائیں کہ جس کی وجہ سے وہ تمام سنیارٹی لسٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے 30ویں نمبر سے 22ویں اور بعد ازاں 8ویں نمبر پر جاپہنچے اس وقت جن ڈاکٹر ز کو بائی پاس کیا گیاہے انہوںنے اس کے متعلق ایک کیس بھی دائر کررکھا ہے ہم آج کے کالم میں ڈاکٹر وقار حیدر ،ڈاکٹر شہلاوقار اور دیگر درجنوں سپشلسٹ ڈاکٹرز سے ہونے والی طویل گفتگو اور ڈسکشن کا خلاصہ اورمسئلے کا حل تجویز کررہے ہیں اور وہ حل یہ ہے کہ حکومت آزادکشمیر ،وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید ،چیف سیکرٹری ارباب شہزاد ،سیکرٹری فنانس لیاقت ہمدانی اور سیکرٹری ہیلتھ جنرل عباس ان تمام سپشلسٹ ڈاکٹرز جنہوںنے گریڈنگ یا فیلو شپ کررکھی ہے اور جنہوں نے اپنی جوانی غریب عوام کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی اُن کی خدمات کے اعتراف میں مزید 14یا 18آسامیاں تخلیق کرے اور ان تمام ڈاکٹرز کو ایک ہی آرڈر کے ذریعے گریڈ 20میں ترقی دے دی جائے اس میں نہ تو بہت زیادہ پیسہ انوالو ہے اورنہ ہی حکومت پر کوئی زیادہ بوجھ پڑتاہے ویسے جو حکومت وزراءکے پروٹوکول ،بیوروکریسی کی گاڑیوں کے پٹرول کے اخراجات ،چھوٹے ملازمین جو ان بڑے افسران کے گھروں میں ذاتی ملازمین کی طرح کام کرتے ہیں ان کی تنخواہوں کی مدمیں ہر سال 20کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ کرتی ہے اگر ایمان داری سے فیصلہ کرے تو یہ تو صرف 18آسامیاں تخلیق کرنے کی ایک معصوم سی گزارش ہے جس پر صرف چند کروڑ روپے اخراجات آئیں گے اور آنے والے پانچ سالوں کے دوران 80فیصد ڈاکٹر ز ریٹائربھی ہوجائیں گے ۔

جناب وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید اورچیف سیکرٹری ارباب شہزاد ہمیں امید ہے کہ ایک سنجیدہ مسئلے کو دردمندی کے ساتھ سمجھتے ہوئے اس کا درست حل نکالاجائے گا یہی وقت کی آواز اور ڈاکٹرز کی فریادہے اس وقت ان سپشلسٹ ڈاکٹرز کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھ کر نوجوان ڈاکٹروں میں شدید بددلی پائی جاتی ہے اور مسئلے کا حل نہ نکلا تو ہماری یہ پیش گوئی یاد رکھیے گا کہ یاتو ایک انتہائی خوفناک قسم کی ہڑتال محکمہ صحت کے نظام کو تباہ کرکے رکھ دے گی اور یا پھر آزادکشمیر کے زیادہ تر ڈاکٹرز یہ ملک چھوڑ کر ہجرت اختیار کرجائیں گے خداراہ اس برین ڈرین کو روک لیجئے

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
کمپنی کے مینجر نے جونیئر آفیسر کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ اس مہینے میں تم نے تیسری مرتبہ جھوٹ بولاہے تمہیں پتہ ہے ہماری کمپنی جھوٹوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے
جونیئر آفیسر نے بے نیازی سے جواب دیا
”جی ہاں پتہ ہے جب وہ جھوٹ بولنے میں ماہر ہوجاتے ہیں تو انہیں سینئر مینجر بنا دیاجاتاہے “

قارئین سروس رولز انسانوں کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں اورانسانوں پر لاگو ہوتے ہیں موجودہ سروس رولز موجودہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعزاز نسیم نے بنائے تھے اور آج سے 20روز قبل انہوں نے ہمیں پہلا فون کیاتھا کہ وہ اپنا اور محکمہ کا موقف تحریری انداز میں ہمیں بھیجیں گے اس کے بعد انہوںنے متعدد مرتبہ فون کرکے یہ وعدہ دوہرایا لیکن وعدہ پوراہونے کا دن آج تک نہیں آیا اللہ انہیں زندگی اورسلامتی دے بقول شاعر ہم یہی کہیں گے
ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک
خدا کرے کہ قیامت ہواور تو آئے
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374560 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More