پردہ

 تحریر:سحرش منیر

انداز بیاں اگرچہ ، میرا شوخ نہیں
شاید کہ تیرے دل میں ا ترجائے میری بات
ہر قسم کی حمد ثناءاللہ مالک المالک اور احکماا لحاکمین واحد لا شریک کے لیے ہے جو پوری دنیا کا رب ، خالق ، مالک اور رازق ہے ۔

رسول ﷺ نے فرمایا، جس شخص کے لیے اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطافرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور بنی نوع انسان کی تخلیق کی ابتدا کے ساتھ ہی اس کی با اختیار زندگی گزارنے کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا مستقل انتظام کیا ہے۔اسلام کی تعلیمات میں سے واضع اور حصول جنت کے لیے چھوٹا سا عمل "پردہ"کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ویسی تو ہم سب جانتے ہیں عورت کا دوسرا نام ہی پردہ ہے مگر عالم کائنات میںصرف مسلمان عورت کو یہ مقام حاصل ہے کہ اللہ نے شیطان سے تحفظ کے لیے پردے کا حکم دیا۔

عورت صنف نازک ہونے کے ساتھ ساتھ کمزور دل اور نازک احساسات کی مالک ہوتی ہے اعتبار کرنا اور جھانسے میں آجانا عورت کے لیے فطری عمل ہے۔ چناچہ انہی تدابیرِشیطان سے بچانے کے لیے اللہ نے اپنے محبوب نبیﷺ کی امت کی ہر عورت کے لیے پردہ ضروری قرار دے دیا۔

"اے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو، جب گھروں سے نکلیں تو اپنی چادریں اپنے سینوں پہ ڈال لیا کریں تا کہ پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ پہچائی جائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"
(القرآن)

پردے کے احکام کے ساتھ ہی اللہ نے واضح کر دیا جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کے تعقب میں لگ جاتا ہے اور مردوں کے لیے اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے۔

پاک ہے وہ ذات جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا اور اس کی نفسیات ، خواہشات اور احساسات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کے اصول وضع کیے۔

قوموں کی ترقی کا انحصار بہترین ماﺅں پر ہوتا ہے اور ماں کا کردار جوان بیٹوں کو غیرت اور شرم کا لباس پہناتے ہیں کسی بھی معاشرے کی ترقی اور عزت کی ڈور عورت کے ہاتھ میں ہوتی ہے مگر افسوس آج کی عورت اپنا مقام کھو چکی ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے احکام الہی کو ماننا تعصب اور تنگ نظری سمجھا جاتا ہے
اسلام نے عورت کو چار بہترین روپ میں عصمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔عورت ماں کے روپ میں شفقت کی دیوی، بہن کے روپ میں پیکر ایثار ، بیوی کے روپ میں پیار کا سمندر اور بیٹی کے روپ میں باپ کی بخشش کا سامان اور عزت و تکریم کا نشان ہے۔میڈیا اور ترقی نے عورت کو اس کے مقام سے کہیں دور دھکیل دیا ہے۔شرم وحیا کی پیکر آج نہایت بلیغ انداز میں انڈین فلموں پہ تبصرے کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہیں۔مغرب ممالک نے ہماری دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھ کے فیشن کی مار مارا ہے۔انہی ممالک کی دیکھا دیکھی مسلم معاشرے بھی جدت پسند بنتے جا رہے ہیں اور کچھ تعلیم یافتہ لوگوں نے پردے کو ترقی کی راہ میں حائل قرار دیتے ہوئے عورت کو جو ترقی دی ہے اس کا صحیحح اور جائز حق نظر نہیں آتا۔انتہائی افسوس کا مقام ہے جس قوم کی عورت کو دیکھ کر کافر ادب سے کھڑے ہو جایا کرتے تھے آج اسی قوم کی بیٹیاں سر پہ دوپٹہ اوڑھنا اور پردہ کرنا جہالت سمجھتی ہیںاور اپنے لیے نمائش پسند کرتی ہیں۔شاید انہیں یہ علم ہی نہیں کہ خود کو ڈھانپنے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے مگر نوجوان نسل اتنی منہ زور ہو چکی ہے کہ مائیں سمجھانے سے پہلے سو بار خود سوچتی ہیں۔فیشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والی لڑکیاں اپنے دائمی نفع کواور بخشش چھوڑ کرعارضی آشائشوں میں مگن عذاب جہنم کو خوب دعوت دے رہی ہیں۔کہاں سے لائی جائیں وہ مائیں جنہوں نے قرآن سیکھا اور اس کی تعلیمات کو حرف آخر بنا کر اپنی زندگیوں کو روشن بنایا جن کے بطن سے امام ابو حنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیسے بیٹے پیدا ہوئے ۔بد نظری زنا کی پہلی سیڑھی ہے اگر انسان اپنی نگاہ نیچی رکھے تو اس فتنہ سے بچا جا سکتا ہے، جب نفس پاک ہو تو چہرے پر پاکیزگی کا نمایاں نکھار نظر آتا ہے۔اگر عورت کے ہاتھ میں مرد کے سکون اور ترقی کی ڈور ہے تو مرد کی پستی کی وجہ بھی یہی ہے موجودہ دور میں مردوں کی بڑی تعداد پردے کے خلاف ہے کہیں بھائی بہن کو ، باپ بیٹی کو اور کہیں خاوند بیوی کو سرے عام بے پردہ لیے گھومتے ہیں، بے پردہ عورت نہ صرف بے برکتی اور افلاس کو گھر میں دعوت دیتی ہے بلکے مرد کو بھی بے غیرت ظاہر کرتی ہے اور جب مرد بے غیرت ہو تو ایک فرد بے غیرت ہوتا ہے جبکہ عورت بے غیرت ہو تو پورا معاشرہ تباہی کا شکار بنتا ہے۔
Ibtasam Tabassum
About the Author: Ibtasam Tabassum Read More Articles by Ibtasam Tabassum: 23 Articles with 18091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.