ہمارا یقین و ایمان ہے کہ ہر
بندے کو اپنا آخری سفر ضرور طے کرنا ہے۔ مشہور مقولہ بھی ہے کہ ”جس کی اذان
ہوئی ہے اس کی نماز بھی ہوگی “ ۔ جس کسی کا کوئی اپنا سفرِ آخرت پر روانہ
ہو رہا ہو تو یقیناً اس پر رنج و الم کا پہاڑ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور کیوں نہ
ٹوٹے کہ عدم کے سفر سے کسی کی واپسی ممکن نہیں !انسان کی قدر اگر اس کی
زندگی میں کی جائے تو زیادہ عزت افزائی ملا کرتی ہے(خیر سے سکندر صنم کو تو
اس کی زندگی میں بھی بے تحاشہ کامیابی اور پذیرائی ملی ہوئی تھی) مگر ہمارے
یہاں ایک دستور چلا آ رہا ہے کہ مرنے کے بعد اس کی پذیرائی کی جاتی ہے ، اس
لئے میں بھی اسی رسم کو نبھاتے ہوئے ” سکندر صنم“ کیلئے چند الفاظ لکھنے کی
کوشش کر رہا ہوں۔
ہر دل میں خواہش ہوتی ہے کہ Celebretyسے ملاقات کی جائے اور دوستوں کو اس
سلسلے میں بتایا جائے کہ میں نے فلاں فلاں فنکار سے ملاقات کر چکا ہوں۔
لیکن میری پہلی ملاقات موصوف سے جب ہوئی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں
تھا کہ اتنا اچھا اور اتنا بڑا فنکار مجھ سے ملاقات کرے گا۔ مگر مجھ پر
حیرتوں کا پہاڑ جب ٹوٹا جب انہوں نے مجھے بغل گیرکیا اور میری خیریت دریافت
کی اور مجھے چائے کی آفر بھی کی، کاش کہ میرے پاس اس وقت کیمرہ ہوتا اور
سکندر صنم کے ساتھ میری بھی تصویر ہوتی تو آج وہ بھی میں اس کالم کے ساتھ
آپ سے شیئر کرتا۔ یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اتنے نفیس انسان تھے
کہ ان سے ملنے کے بعدمیرا یہ تاثر زائل ہو گیا کہ کوئی فنکار عام فرد سے
ملنے کو ترجیح نہیں دیتا۔
محمد سکندر (صنم) کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل
نام بھی محمد سکندر ہے۔ ان کے والد صاحب سید عبدل الستار شوقین جیت پوری
گجراتی شاعری سے جانے جاتے تھے۔ کیونکہ وہ پاک و ہند کے بہت ہی معروف شاعر
تھے۔ ان کا ہی خمیر محمد سکندر کے اندر ٹیلنٹ بن کر اُبھرا دنیائے اسٹیج پر
چھا جانے والا محمد سکندر المعروف سکندر صنم گریٹ فنکار کی طرح پاک و ہند
میں چھا گیا۔
Basicallyتو سکندر صنم ایک سنگر تھے اور اسٹیج ڈراموں میں چائلڈ ہوڈ کے طور
پر جلوہ گر ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک
پروفیشن چُن لینا چاہیئے یوں وہ شو بز کی دنیا میں آگئے۔ عوام کی طرف سے بے
تحاشہ چاہے جانے اور پذیرائی ملنے کے بعدظاہر ہے کہ وہ بڑے آرٹسٹ بن گئے۔
وہ بھارت کے مشہور پروگرام ” گریٹ انڈین لافٹر چیلنج “ میں بھی اپنے فن کا
جلوہ دکھا چکے ہیں اور وہیں انہیں ” کامیڈی کنگ“ کا خطاب بھی ملا۔ اس کے
علاوہ سکندر صنم نے بے شمار ڈوپلیکیٹ فلمیں بنائی جو عوام میں بے انتہا
مقبول ہوئیں اور یہ بھی ان کی ایک وجہ شہرت تھی۔
ٹی وی ، اسٹیج اور گریٹ انڈین لافٹر چیلنج کے ذریعے سکندر صنم اور ولی شیخ
کی جوڑی بہت مشہور ہو چکی ہے۔ آج جب کہ سکندر صنم ہم میں نہیں ہیں سب سے
زیادہ ان کی کمی ولی شیخ کو ہی محسوس ہو رہی ہوگی۔کیونکہ ان کی جوڑی نے
پاکستان تو کُجا پورے ہندوستان پر بھی اپنے کامیڈی سے تہلکہ مچا رکھا تھا۔
میڈیا پر مجھ سمیت آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ملک کے بڑے قد آور کامیڈینز بھی
ان کے گھر پر موجود ہیں۔ اور کامیڈی کا بادشاہ ” عمر شریف صاحب“ بھی وہیں
موجود ہیں۔ اور انہیں روتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سکندر صنم
بھی ان کے ہی شاگردوں میں سے تھے۔ اور کافی عرصہ تک ان کے ساتھ کام بھی
کرتے رہے ۔ اتنا بڑا فنکار جب کسی کے لئے رونے لگا تو آپ اندازہ کریں کہ
سکندر صنم کس قدر نفیس، شریف، کم گو اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔
جس بیماری سے سکندر صنم آج دارِ فانی میں نہیں رہے اس موذی مرض کو ہم سب
کینسر کے نام سے جانتے ہیں۔ سکندر صنم صاحب کو بھی اسی بیماری نے ہم سے جدا
کروا دیا۔جو ساری دنیا کے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرا کرتا تھا آج خود
ہی خاموش ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ساری وادی پر خاموشی کا راج بپا
کرکے خود سکون کی نیند سو گیااور ہم سب کو تنہا کر گیا۔ ستمبر2012 ءمیں
انہیں لیور کینسر Diagonsedہوا۔ اس کے بعد وہ آغا خان ہسپتال کراچی میں
داخل ہوئے ۔ چند ہفتوں ہی میں وہ ہم سے بچھڑ گئے اس کی ایک خاطر خواہ وجہ
تو یہ ہے کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ کسی اور ملک میں جاکر اپنا
تسلی بخش علاج کروا سکیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک
کوئی ایسا سپورٹر نہیں ہے جو فنکاروں کیلئے فوری رقم کا بندوبست کر سکے۔ اب
دیکھئے نا کہ بھارتی کرکٹ کا نامور ستارہ ” یو راج سنگھ “ بھی اسی بیماری
میں مبتلا تھے مگر وہاں کے کرتا دھرتاﺅں نے بروقت اقدام کرکے انہیں اس مرض
سے نجات دلائی اور وہ آج پھر سے کرکٹ کی دنیا میں اپنا جلوہ دکھا رہے ہیں۔
اگر ایسا کوئی فورم، یا ایسا کوئی انتظام ہمارے یہاں بھی ہوتا تو شاید
سکندر صنم بھی آج ہمارے ساتھ ہوتے۔ (یہاں پر ایک اور ضروری بات کی نشاندہی
کرنا چاہوں گا کہ وقت پر تو سکندر صنم کا علاج ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکا مگر
اب ان کے لواحقین کیلئے کوئی مناسب بندوبست کیا جائے تاکہ ان کے بچے بھی
اور لوگوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہو سکیں) بہرحال ہمارا تو عقیدہ
یہی ہے کہ موت برحق ہے ، جس کا مزا ہر بندے کو چکھنا ہے۔ اس لئے اس معاملے
کو ہم یہیں روک دیتے ہیں کیونکہ ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موت کا وقت معین
ہے جو آنی ہے نہ ایک لمحہ اِدھر ہوگا نہ ایک لمحہ اُدھر........اور ہم تو
اللہ رب العزت کی رضا میں ہی خوش ہیں گو کہ صدمہ بہت بڑا ہے اور اسے بھرنے
میں بھی کافی وقت درکار ہوگا لیکن جو رضائے الہٰی کی مرضی........اور
مسلمان تو ویسے بھی اس شعر سے منکر نہیں ہو سکتا۔
قبر میں ہوگا ٹھکانہ یاد رکھ
آئے گا ایسا بھی زمانہ یاد رکھ
محمد سکندر المعروف ”سکندر صنم “ پانچ اکتوبر 2012ءکو ہم سے بچھڑ گئے اور
اپنے سفرِ آخرت کی جانب رواں دواں ہیں۔( اِنّا للّٰہ وَاِنَّا اِلِیہِ
رَاجِعُون)آج بعد نمازِ عشاءانہیں کورنگی نمبر 1کے قبرستان میں سپردِ خاک
کیا جائے گا۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائیں۔ اور ان کے لواحقین کو
صبرِ جمیل سے نوازیں۔(آمین) |