کمبوڈیا (چاولوں کی سرزمین)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(9نومبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

کمبوڈیا جنوب مشرقی ایشیاکا ملک ہے،اس کے مغرب اور شمال مغرب میں تھائی لینڈہے،شمال مشرق میں ”لاؤس“کی ریاست ہے،مشرق اور جنوب مشرق میں ویت نام واقع ہے جبکہ جنوب مغرب میں تھائی لینڈ کی خلیج کے ساحل ہیں۔کمبوڈیاکا کل رقبہ ستر ہزارمربع میل سے کچھ زائد ہے۔”فونم پن“اس ملک کادارالحکومت ہے۔جنوب مشرقی ایشیاکی تاریخ میں کمپوڈیاکا بہت بڑا کردار رہاہے،گیارہویں سے تیرویں صدی کے دوران تھائی لینڈ اور ویت نام سمیت اس تمام تر سرزمین پر کمپوڈیاکے بادشاہوں کی حکومت رہی ہے۔اس وقت کے تہذیبی و ثقافتی اثرات آج تک ان علاقوں کی لباس و زبان ،طرزتحریراور بودوباش میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔اس ملک کی آب و ہوا جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح خشک اور گرم ہے،جغرافیائی زبان میں اس خطے کو مون سون آب و ہوا کا خطہ کہاجاتا ہے۔گرمیوں میں بارشوں کے باعث موسم خوشگوار ہو جاتاہے جبکہ سردیوں کی راتیں نمی سے بھرپور ہوتی ہیں۔سال بھر کااوسط درجہ حرارت 28سے35ڈگری سینٹی گریڈکے درمیان رہتاہے۔

کمبوڈیاکی سرزمین کاوسطی علاقہ چاول کی فصلوں کے باعث پانی کے بھرے کھیتوں کی شکل اختیار کرچکاہے۔درمیان میں کہیں کہیں آبادی ،درختوں کے ذخیرے اور دیگر فصلوں کے کھیت بھی نظر آتے ہیں۔درختوں کے ذخیروں اور دریائی و سمندری ساحلی علاقوں کے جنگلات میں چیتے،شیر،بھیڑیے اور بہت سے اور جانوروں کی نسلیں بھی قدرت نے فراہم کررکھی ہیں۔کمبوڈیاکے درخت خوبصورت پرندوں سے بھرپور ہیں جن میں زیادہ اہم بگلے،کونجیں،تیتر،چکور،موراور جنگلی بطخیں ہیں۔کمبوڈیاکے جنگلات خاص طور پر سانپ کی چار خطرناک ترین نسلوں کے لیے بھی بہت مشہور ہیں۔

کمبوڈیاہمیشہ سے ایک دیہاتی طرز کی سرزمین رہا ہے جہاں لوگ شہروں کی نسبت دیہاتی آبادیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آبادی کی بہت کم شرح ایسی ہے جو دس ہزار سے زائد مکینوں کی بستیوں میں رہتی ہے۔اس ملک کے زیادہ تر مکانات لکڑی سے بنے ہیں ان کی چھتیں گھاس پھوس سے تیار کی گئی ہیںاور لکڑی کے بڑے بڑے شہتیروں پر اٹھائی گئی ہیںاوردیواریں پام کے درختوں کی خاص طرح کی چھال سے چنی گئی ہیں۔بہت عمدہ گھروں کی چھتیں دھات سے بھی تیار کی جاتی ہیں۔کمبوڈیاکے تمام تر دیہی علاقوں میں خالصتاََ دیہاتی طرز کی بودوباش نظر آتی ہے جس میں پوراکاپوراخاندان کھیتوں میں گھساہوااپنی فصلوں کی نگہداشت اور ان کی پرورش کرتا ہے۔گھرکے تمام افراد علی الصبح منہ اندھیرے بیدار ہوتے ہیں اور دوپہر سے قبل ہی اپنی جملہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکتے ہیں۔بہت کم امور شام کی ٹھنڈی چھاؤں پر اٹھا رکھے جاتے ہیں اور وہ بھی صرف کچھ افراد کی حد تک۔بجلی کی سہولت چونکہ ابھی تک کمبوڈیاکے بیشترسے زیادہ علاقوں میں نہیں ہے اس لیے شام کی گودبہت جلد ہی اس ملک کے مکینوں کو نیندکی آغوش میںسمیٹ لیتی ہے ۔

چاول کی فصل کا زمانہ یہاں کی آبادی کا بہت مصروف ترین وقت ہوتا ہے جس میں گھرانے کے تمام افراد کو بہت تیزی سے کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کی زراعت ابھی تک مشینوں سے کافی حد تک ناآشنا ہے۔بہت زیادہ کام کرنے پر بہت زیادہ آمدن کا بھی انحصارہوتا ہے اور اسی آمدن پر ہی ساراسال کی گزران ممکن ہے۔ میلوں ٹھیلوں ، شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مقامی رسوم و رواج فصل کی کٹائی کے بعد ہی منعقد کیے جاتے ہیںجب لوگوں کی جیبیں کرنسی سے بھری ہوتی ہیں کیونکہ روکڑاہی خوشی کو دوبالا کرتاہے۔کمبوڈیا کے اندر اسی سرزمین کے لوگوں کی ہی زیادہ اکثریت آباد ہے لیکن پھر بھی چین سے آئے کچھ قدیم قبائل،کچھ ویت نام کے لوگ اورایک قلیل تعدادیورپیوں کی بھی یہاں موجودہے۔کمبوڈیاکے لوگوں کی اکثریت بدھ مذہب کی پیروکارہے اور شاید اسی وجہ کے باعث1975میں اس مذہب کو کمبوڈیاکاباقائدہ سرکاری مذہب مان لیاگیاتھا۔دوردرازکے قبائلی آج بھی اپنے آباؤاجدادکی ارواح کی پوجا کرتے ہیں جبکہ چینی اور ویت نامی لوگ تاؤازم اور کنفیوشس کے پیروکارہیں اور ویت نامیوں میں ایک قلیل تعداد مذہب مسیحی کے ماننے والے بھی ہیں۔

1863میں اس سرزمین کو بھی غلامی کا منحوس پہناواپہنناپڑا جب یورپی قذاق،ایک فرانسیسی بحریہ کے افسر نے یہاں کی آزادیوں پر قدغن کا پہلاوارکیااور ایک معاہدے کے ذریعے مقامی بادشاہ سے خارجہ امور کا اختیار سلب کرلیا۔اس افسر نے ویت نام کے راستے سے کمبوڈیاکی زمین کے تقدس کو رونداتھا۔لیکن بہت جلدمعاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرانسیسیوں نے یہاں کے داخلی امور پر بھی اپنی دسترس مضبوط کر لی ۔1897میں غاصب فرانسیسی افسران نے کمبوڈیاکے انتظامی اختیارات بھی اپنے تسلط میں لے لیے اور بادشاہ کو تقریباََ بے دست و پاکر دیا۔1941میں جاپانیوں نے یورپیوں کو بے بس تو کیالیکن بہت کم مدت کے لیے اور1945میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر فرانسیسی ایک بار یہاں کے سفیدوسیاہ کے مالک بن بیٹھے۔لیکن اب کی بار کمبوڈیاکوفرنچ یونین میں ایک نیم خود مختار ملک کی حیثیت دے دی گئی جسکااپناایک آئین اور کچھ سیاسی پارٹیاں بھی تھیں لیکن اب بھی استعمار نے اصل اختیارات اپنے پاس ہی رکھے اور کمبوڈیاکی پارلیمان کو بے اختیارہی رکھا۔1945اورسال آزادی1953کے درمیان کا عرصہ سیاسی جدوجہدپر محیط ہے جس میں اس ملک کے باسیوں نے کئی قسم کے سیاسی داؤ پیچ دیکھے اور یورپیوں کی چالاکیوں کا شکار ہوئے۔بلآخرایک تھکادینے والے مجاہدے کے بعد فرانس نے کمبوڈیاکی پارلیمان کو اسکے اصل حقوق لوٹادیے۔1954میں جینواکانفرنس اس ملک کی سیاسی حاکمیت کا فیصلہ کن سنگ میل ثابت ہوئی۔

کمبوڈیاکی معیشیت کا انحصارچاول اورربرپر ہے۔جب کبھی عالمی منڈی میںان دونوں کی قیمت اچھی ہوتی ہے توکمبوڈیاکی معیشیت پراس کے بہت عمدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔زراعت یہاں کی معیشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ چاول کی پیداوارکاانحصار زراعت پر ہی ہے۔لائم اسٹون،فاسفیٹ اور کچھ دیگر قسم کے قیمتی پتھروں کے خزانے یہاں کی سرزمین کے سینے میںدریافت ہوئے ہیں۔لیکن پھر بھی چاول ہی یہاں کی نقد آور فصل ہے جو ملک میں اور ملک کے باہر بھی کمبوڈیاکی معیشیت کا اصل سنبھالا ہے۔ملک کے تقریباََ تمام قابل کاشت علاقے میں چاول کاشت کیاجاتاہے لیکن بدقسمتی سے پانی کی عدم فراوانی کے باعث سال میں صرف ایک ہی فصل اٹھائی جاسکتی ہے جبکہ پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے تو اس ملک کی آب و ہوا دو فصلوں کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔سویابین،میٹھے آلواور دیگر بیجوں والی فصلیں بھی کہیں کہیں اس وقت کاشت کر لی جاتی ہیں جب سال کے بقیہ حصے میں زمین خالی پڑی ہو۔کیلا،سنگترہ،انانا س اور کچھ آم بھی وہاں کے مشہور پھل ہیں لیکن یہ سب ہی ملک کے اندر ہی استعمال کر لیے جاتے ہیں اور برآمد کرنے کی نوبت نہیں آتی۔1981میں یہاں ایک دستورنافذ کیاگیااور پھر1989میں اس میں ترمیم کی گئی جس کے مطابق قومی اسمبلی اور کونسل آف دی اسٹیٹ جوقومی اسمبلی کے اراکین میں سے ہی منتخب کی جاتی ہے ، یہاں کا حکومتی نظم و نسق چلاتی ہیںجبکہ وزراپر مشتمل کابینہ حکومتی احکامات کو نافذ کرتی ہے۔

اس سرزمین پراسلام کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے۔انیسویں صدی کے آخر تک مسلمان ایک خاص گروہ کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے تھے اورانہوں نے اپنی ایک ڈھیلی ڈھالی سی تنظیم بھی بنا لی تھی۔آزادی کے بعد سے ایک پانچ رکنی کونسل وہاں پرمسلمانوں کی نمائندگی کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ ”چام“ اور”ملائی“قبائل کی اکثریت مسلمان ہے۔1975میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ سے دولاکھ کے درمیان تھی،اس تعدادمیں مسلسل اضافہ ہوتا رہااور اب ایک اندازے کے مطابق کم و بیش دو فیصدکے لگ بھگ مسلمان اس خطہ ارضی پر آباد ہیں جو کل آبادی کا تقریباََ ڈھائی لاکھ بنتاہے۔یہاں کے مسلمان فقہ شافعی کے پیروکار ہیں۔1962میں چم قبائل کے اندر مساجد کی تعداد سو سے بھی زائد تھی ۔ اس وقت مسلمانوں کی ہر چھوٹی بڑی آبادی میں ایک ”حاکم“ہوتاہے جو مسلمانوںاورمساجد کے جملہ امور کا ذمہ دار سمجھاجاتاہے ،ایک”امام“ہوتاہے جو مسجدمیں نمازکی پنج وقتہ ادائگی کا اہتمام و انتظام کرتاہے اورایک ”بلال“ہوتاہے جو آذان دیتاہے اورمسلمانوں کو نمازکے لیے بلاتاہے ۔”چورروئی چنگور“دارالحکومت کے قرب و جوار میں ایک مقام ہے جہاں مسلمانوں کے راہنما قیام پزیر ہیںاور یہ مسلمانوں کا مقامی وروحانی مرکزبھی سمجھاجاتاہے۔ہرسال اس ملک سے متعددمسلمان نوجوان حصول تعلیم کے لیے ملائشیاجاتے ہیں اور کچھ لوگ حج کرنے بھی جاتے ہیں۔1950میں یہاں کے سات فیصدمسلمان حج کر چکے تھے اور مقامی اجتماعات میں وہ لباس زیب تن کیاکرتے تھے جو صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص تھاجواس سفرسعادت کافیض حاصل کر چکے ہوں۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571850 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.