تحفظ ناموس رسالت ﷺ کا گمنام سپاہی

میانوالی کے اس بوڑھے کسان کی چوپال پر بیٹھے مجھے کافی وقت بیت گیا تھا،میں حیران تھاکہ تقریباًایک صدی کے مدو جزر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی اس کی قوت سماعت اور گویائی کمال کی تھی ، عمر عزیز کے اس حصے میں آج بھی آپ کو اس کے ڈیرے پر موقر قومی اخبارات و رسائل دیکھنے کو ملیں گے ۔عالمی حالات اور وطن عزیز کے نشیب وفراز پرگفتگو کرتے کرتے جب بات توہین آمیز فلم ”انوسنس آف مسلمز“تک جا پہنچی تو مجھ سے اس بوڑھے کسان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ، اس کی آنکھیں دور کہیں ماضی کے اوراق میں گم ہوتی دکھائی دیں ، اس کے ایمانی جذبات تھے کہ سنبھلنے میں نہیں آرہے تھے، اس کی زبان پر ایک ہی تکرار جاری تھی کہ اس وقت مسلم امہ کو پھر کسی” غازی میاںمحمد “جیسے شمع رسالتﷺ کے پروانے کی ضرورت ہے ، پھر مجھ سے رہا نہ گیا اورمیں کہہ اٹھا کہ باباآپ کس غازی میاںمحمد کی بات کررہے ہیں، بوڑھے کسان نے میری بے خبری کایہ عالم دیکھتے ہوئے کہا بیٹا آپ کو اپنی ڈائر ی کے وہ اوراق دکھانا چاہوں گا جس سے تجھے اس عاشق رسولﷺ کی بابت بہت کچھ معلوم ہوجائے گا ۔ دریائے سندھ کنارے ایک صدی دیکھنے والا یہ کسان بمشکل تمام اپنی لاٹھی ٹیکتا ہوا جانے کب سے ماضی کے اوراق کریدنے جا چکا تھا اور میں دریائے سندھ کی بے ڈھب لہروں پر نظریں گاڑھے تجسس کی وادیوں میں کھو سا گیا تھا اور شمع رسالت ﷺکے اس پروانے کے حالات جاننے کے لیے میری بے کلی مسلسل بڑھتی جا رہی تھی۔خیالات کا بندھن اس وقت ٹوٹا جب اس نے کاغذوںکا ایک بے جوڑ پلندہ میرے آگے ڈال دیا ۔ جوںجوں غازی میاں محمد شہید ؒکے متعلق پڑھتاگیا میرا رُواں رُواں جذبہ ایمانی سے تھرتھرا نے لگا ، میں نے قلم سنبھالا اور اس کی ڈائری سے حاصل معلومات مضمون کی صورت قرطاس پر بکھرتی گئیں ۔یہ جنوری 1937ءکی ایک سردرات تھی جب مدراس کی ایک چھاﺅنی میں فوجی جوان محو خواب تھے،ان میں دو ہندو فوجی بھی تھے جو رات کے اس پہر گپ شپ کر رہے تھے ، ایک ہندو نے نعت رسول ﷺ کے کچھ اشعارپڑھنا شروع کردیے کہ اسی اثناءدوسرے ہندو چرن داس نے اسے ڈانٹا کہ خبردار یہاں پرمحمد کانام نہ لو، دونوں ہندوﺅں کے مابین یہ بحث وتکرار جاری تھی، اسی دوران انہی کی فوجی یونٹ کے سپاہی میاں محمد بیرک میں داخل ہو رہے تھے کہ چرن داس کے گستاخان الفاظ ان کے کانوں میں پڑے، میاںمحمد نے آگے بڑھ کر چرن داس کو گریبان سے جا پکڑا اور کہا اب اپنی گندی زبان سے میرے نبی ﷺ کانام نہ لینا، لیکن چرن داس نے پھر کہا کہ میں ایسا ہی کہوں گا۔ بس پھر کیا تھا ، چرن داس کے ان الفاظ کہ”میں ایسا ہی کہوں گا“غازی میاں محمد سے سکھ اورچین چھین لیااور انہوں نے اس گستاخ رسول کو جہنم واصل کرنے کا عزم مصمم کر ڈالا۔واقعہ کے دوسرے روز میاں محمد کی گارڈ ڈیوٹی تھی ، انہوں نے وضو کیا ، نماز عشاءادا کی ، وردی زیب تن کی ، رائفل سنبھالی اور محمد عربی ﷺ کا یہ سچا عاشق سیدھا چرن داس کے سر پر جا پہنچا ، اس وقت چرن داس بھی ڈیوٹی پر مامور تھا چنانچہ اس نے اس عاشق نبی ﷺ کے تیور دیکھتے ہی پوزیشن سنبھال کر انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن حق کے غالب آنے سے بھلا باطل کب ٹھہرا تھا جو ا ب ٹھہر پاتا ، غازی میاں محمد ؒ کی گن نے شعلہ اگلا اور ایک گستاخ رسول اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔پوری چھاﺅنی میں خطرے کا الارم بج چکا تھا اور فوجی بڑی تعداد میں جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے ۔ اس سچے عاشق رسول ﷺکو انگریز فوجی افسر نے ہتھیار ڈالنے کو کہا مگر قربان جائیے ناموس رسالت ﷺ کے اس پروانے پر کر کہ اس نے کہا و ہ اپنا ہتھیار صرف کسی مسلمان افسر کے حوالے ہی کر ے گا، میجر فضل آگے بڑھے اوریوں غازی میاں محمد نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ابتدائی تحقیقات میں انگریز کرنل کے سامنے اپنا بیان دیتے ہوئے غازی میاں محمد نے کہا کہ میں نے عشق رسالت ﷺ سے مجبور ہو کر اور نہایت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایااور اب میں محمد عربی ﷺ کے ناموس پر اپنی جان قربان دینا ہی اپنی کامیابی سمجھوں گا ، یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اِدھر ملٹری کورٹ کے انگریز فوجی افسر حیران و ششدر تھے۔دلی کے فوجی ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر انچیف نے غازی میاں محمدکو پولیس اور سول عدالت کے حوالے کرنے کے بجائے ان کا مقدمہ فوجی عدالت ہی میں چلانے کا حکمنامہ جاری کیا، غازی میاں محمد کا تعلق تلہ گنگ سے تھا اور ان کے والد صوبیدار غلام محمد مقدمے کی پیروی کے لیے تلہ گنگ سے مدراس چھاﺅنی جاتے رہے ، وہ بتاتے کہ انگریز فوج میں شامل مسلمان فوجی جوانوں اور افسروں نے غازی میاں محمد کی بے پناہ خدمت کی اور انہیں رشک کی نگا ہ سے دیکھتے۔ ایام اسیر ی ہی میں عید الفطر کے موقع پر ان کی اپیل پر انہیں نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے فوجی دستوں کی سیکیورٹی میں جب باہر لایا گیا تو مدراس کے لاکھوں فرزندان اسلام نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور ہر ایک ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھا۔ 4اگست 1937کو فوجی عدالت کی طرف سے انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ صدقے جائیے اس عاشق رسول ﷺ پر کہ جب فوجی عدالت نے آخر بار ان سے قتل کی وجہ معلوم کرنا چاہی تو انہوں نے ایک بار پھر بآواز بلند کہا کہ میں اس کا اقرار کرتا ہوں اور میں نے ہی اس گستاخ رسول کو قتل کیا ہے۔غازی میاں محمد کے ورثاءکی جانب سے رحم کی آخر ی اپیل انگریز وائسرائے ہند سے کی گئی جو صرف اس بناءپرہی نامنظور ہوئی کہ ”غازی میاںمحمد تو خود اس قتل کا اعتراف کیے ہوئے ہیں“۔ چنانچہ 12اپریل 1938ءکی صبح پانچ بجے یہ عاشق رسول ﷺسفید اجلا لباس پہنے ،فخر و انبساط کے ساتھ چلتے ، ہنستے مسکراتے اور اسی محمد عربی ﷺ کا کلمہ پڑھتے پھانسی کے پھندے پر جھول گیا، شہادت کے وقت آپ کی عمر صرف اکیس سال کے قریب تھی ۔مدراس کے لاکھوں مسلمانوں نے اس عاشق رسولﷺ کی نماز جنازہ اداکی اور انہیں لحد میں اتارا۔تقریبا پون صدی کے گزرجانے کے بعد بھی مدراس کے ریلوے سٹیشن کے قریب ان کی قبر مبارک ہر ایک کے لیے مرجع خلائق بنی ہوئی ہے ، کہتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے گرد ہر وقت نور کاایک ہالہ سا بنا رہتا ہے۔لوح مزار پر یہ درج ہے ۔” عاشق رسولﷺ ، سپاہی میا ں محمد شہید ، قوم اعوان، بلوچ رجمنٹ ولدصوبیدار غلام محمد اعوان سکنہ تلہ گنگ“۔میں اسی دہقان کی ڈائر ی کے الفاظ اور یاد داشتیں اسے سنا رہا تھا ، بات کب کی ختم ہو چکی تھی لیکن اس کی آنکھیں بدستور سوالیہ بنی ہوئی تھیں ، شایداسے آج کے مسلم نوجوانوں میں بھی کسی ”غازی میاں محمد“ جیسے روشن کردار کی تلاش تھی ۔ان کی یہ حالت مجھ سے نہیں دیکھی جا رہی تھی، میرے پاس ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔میں نے ان کے چہرے سے نظریں ہٹا کر پھر سے دریاے سندھ کی انہی بے ڈھب موجوں پر گاڑھ دیں۔۔ ۔۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 4 Articles with 2480 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.