بسم اللہ الرحمن الرحیم
نکاح کے مسائل
اﷲ عزوجل ارشادفرماتاہے:
نکاح کرو جو تمھیں خوش آئیں عورتوں سے دو دو اور تین تین اورچار چار۔ اور
اگر یہ خوف ہوکہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک سے۔(پ۴،النساء:۳)
اور فرماتا ہے:
اپنے یہاں کی بے شوہر والی عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے نیک غلاموں اور
باندیوں کا۔ اگر وہ محتاج ہوں تو اﷲ (عزوجل) اپنے فضل کے سبب اُنھيں غنی کر
دے گا۔ اور اﷲ (عزوجل) وسعت والا علم والا ہے اور چاہيے کہ پارسائی کریں وہ
کہ نکاح کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اﷲ (عزوجل) اپنے فضل سے انھيں
مقدور والا کر دے۔(پ۱۸،النور:۳۲۔۳۳.)
حدیث : رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو میرے طریقہ کو
محبوب رکھے، وہ میری سُنت پر چلے اور میری سُنت سے نکاح ہے۔
'کنزالعمال ''،کتاب النکاح،الحدیث:۴۴۴۰۶
حدیث :رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جسے چار چیزیں ملیں
اُسے دُنیا و آخرت کی بھلائی ملی۔
1دل شکر گزار، 2زبان یادِ خدا کرنے والی
3بدن بلا پر صابر 4 اورایسی بی بی کہ اپنے نفس اور مالِ شوہر میں گناہ کی
جویاں نہ ہو۔
'المعجم الکبیر''،الحدیث:۱۱۲۷۵
حدیث: رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عورت سے نکاح چار
باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے (نکاح میں ان کا لحاظ ہوتا ہے)۔ 1مال 2 حسب 3
جمال 4 دِین اور تو دِین والی کو ترجیح دے۔''
صحیح البخاري''،کتاب النکاح الحدیث:۵۰۹۰
حدیث: ابن ابی حاتم ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی، اُنھوں نے
فرمایاکہ: اﷲ (عزوجل) نے جو تمھیں نکاح کا حکم فرمایا، تم اُسکی اطاعت کرو
اُس نے جو غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے پورا فرمائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
''اگر وہ فقیر ہوں گے تو اﷲ (عزوجل) اُنھيں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔''
'کنزالعمال ''،کتاب النکاح،الحدیث:۴۵۵۷۶
سوال نمبر۱: بعض لوگوں کایہ کہنا ہے کہ نکاح نہ کرنا گناہ ہے کیا یہ بات
درست ہے؟
جواب : انسان کی کیفیات مختلف ہوتیں ہیں اور ان کیفیات اور حالات کے مختلف
ہونے سے نکاح کرنے یا نہ کرنے کے احکام مختلف ہیں
نکاح کرنا سنت موکدہ
اگر عتدال کی حالت ہو یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہو نہ نامردہو اورمہر
و نفقہ(کپڑے ،کھانے پینے وغیرہ کے اخراجات۔) پر قدرت بھی ہو تو نکاح سُنّتِ
مؤکدہ ہے کہ نکاح نہ کرنے پر اڑا رہنا گناہ ہے اور اچھی نیت سے نکاح کیا
جائے تو حصول ثواب کا ذریعہ ہے
نکاح کرنا واجب
اگر شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تو معاذ اﷲ اندیشۂ زنا ہے اور مہر
ونفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح واجب۔يونہی جبکہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ
اُٹھنے سے روک نہیں سکتا یا معاذ اللہ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا (مشت زنی)
تونکاح واجب ہے۔
نکاح کرنا فرض
اور اگر کیفیت ایسی ہے کہ اس بات کا یقین ہے کہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع
ہو جائے گا تو نکاح کرنا فرض ہے ۔
نکاح کرنا مکروہ
اور اگر اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کریگا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو
ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو نکاح کرنامکروہ ہے
نکاح کرنا حرام
اور اگراس بات کا یقین ہو کہ نکاح کریگا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو
ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہرحال
ہو جائے گا۔
اب غور کرلیا جائے کہ جس شخص کے متعلق نکاح نہ کرنے پر گناہ کا کہا جا رہا
ہے اس کی کیفیت کیسی ہے آیا اس پر نکاح کرنا سنت موکدہ یا واجب یا فرض ہے
اگر تو کیفیت ایسی ہے تو نکاح نہ کرنے پر اڑے رہنا واقعی گناہ ہے اور اگر
اس کی حالت یہ ہے کہ وہ حق زوجیت و نان ونفقہ ادا نہیں کرسکتا تو اس کے لئے
تو نکاح نہ کرنا ضروری ہے تو نکاح نہ کرنے پر اس کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے۔
سوال نمبر۲:نکاح کے مستحبات بیان فرمادیں۔
جواب : نکاح میں یہ امور مستحب ہیں :
1۔اعلانیہ ہونا۔ 2 ۔جمعہ کے دن 3 ۔مسجد میں ہونا۔
4 ۔ نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا، کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث میں
وارد ہوا۔ 5۔گواہانِ عادل کے سامنے۔
6۔عورت عمر، حسب ، مال، عزّت میں مرد سے کم ہو 7 ۔چال چلن اور اخلاق و
تقویٰ و جمال میں زیادہ ہو۔
8۔جس سے نکاح کرنا ہو اُسے کسی معتبر عورت کو بھیج کر دکھوالے اور عادت و
اطوار و سلیقہ وغیرہ کی خوب جانچ کر لے کہ آئندہ خرابیاں نہ پڑیں۔
9۔ کنواری عورت سے اور جس سے اولاد زیادہ ہونے کی اُمید ہو نکاح کرنا بہتر
ہے۔ سِن رسیدہ اوربدخلق اور زانیہ سے نکاح نہ کرنا بہتر۔
10 ۔عورت کو چاہيے کہ مرد دیندار، خوش خلق
11 ۔ مال دار، سخی سے نکاح کرے، فاسِق بدکار سے نہیں۔
12 ۔ اور یہ بھی نہ چاہيے کہ کوئی اپنی جوان لڑکی کا بوڑھے سے نکاح کر دے۔
یہ مستحباتِ نکاح بیان ہوئے، اگر اِس کے خلاف نکاح ہوگا جب بھی ہو جائے گا۔
سوال نمبر۳: کن رشتہ داروں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے
جواب : اﷲ عزوجل فرماتاہے:
ترجمہ کنز الایمان
(۱)اُن عورتوں سے نکاح نہ کرو، جن سے تمھارے باپ دادا نے نکاح کیا ہو مگر
جو گزر چکا ،بیشک یہ بے حیائی اور غضب کاکام ہے اور بہت بُری راہ ۔(۲) تم
پر حرام ہیں تمہاری مائیں(۳) اور بیٹیاں اور (۴)بہنیں اور(۵) پھوپیاں
اور(۶) خالائیں اور (۷)بھتیجیاں اور (۸)بھانجیاں اور (۹)تمھاری وہ مائیں
جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا (۱۰)اور دُودھ کی بہنیں اور (۱۱)تمھاری عورتوں
کی مائیں اور(۱۲) اُن کی بیٹیاں جو تمھاری گود میں ہیں، اُن بیبیوں سے جن
سے تم جماع کر چکے ہو اور اگر تم نے اُن سے جماع نہ کیا ہو تو اُن کی
بیٹیوں میں گناہ نہیں(۱۳) اورتمھارے نسلی بیٹوں کی بیبیاں (۱۴)اور دو بہنوں
کو اکٹھا کرنا مگر جو ہو چکا۔ بیشک اﷲ (عزوجل) بخشنے والا مہربان ہے(۱۵)
اور حرام ہیں شوہر والی عورتیں مگر کافروں کی عورتیں جو تمھاری مِلک میں
آجائیں، یہ اﷲ (عزوجل) کا نوشتہ ہے اور ان کے سوا جو رہیں وہ تم پر حلال
ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو پارسائی چاہتے، نہ زنا کرتے۔
سورۃ النساء پارہ۴،۵:آیت۲۲۔۲۴.
محرمات وہ عورتیں ہیں جن سے نکاح حرام ہے اور حرام ہونے کے چند اسباب ہیں،
(۱)حرمتِ نسب(۲)حرمتِ مصاہرت (۳)جمع بین المحارم(۴)حرمت بوجہ حقِ غیر
(۵)حرمت رضاعت(۶) حرمت بالشرک (۷)حرمت متعلق بہ عدد
(حرمتِ نسب)
قسم اوّل نسب: اس قسم میں سات ۷ عورتیں ہیں:
1 ماں، 2 بیٹی، 3 بہن، 4 پھوپی، 5 خالہ، 6 بھتیجی، 7 بھانجی۔
دادی، نانی، پردادی، پرنانی اگرچہ کتنی ہی اوپر کی ہوں سب حرام ہیں اور یہ
سب ماں میں داخل ہیں کہ یہ باپ یا ماں یا دادا، دادی، نانا، نانی کی مائیں
ہیں کہ ماں سے مراد وہ عورت ہے، جس کی اولاد میں یہ ہے بلاواسطہ یا
بلواسطہ۔
بیٹی سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اس کی اولاد ہیں۔ لہٰذا پوتی، پرپوتی،
نواسی، پرنواسی اگرچہ درمیان میں کتنی ہی پشتوں کا فاصلہ ہو سب حرام ہیں۔
بہن خواہ حقیقی ہو یعنی ایک ماں باپ سے یا سوتیلی کہ باپ دونوں کا ایک ہے
اور مائیں دو یا ماں ایک ہے اور باپ دو سب حرام ہیں۔
باپ، ماں، دادا، دادی، نانا، نانی، وغیرہم کی پھوپیاں یا خالائیں اپنی
پھوپی اور خالہ کے حکم میں ہیں۔ خواہ یہ حقیقی ہوں یا سوتیلی۔
بھتیجی ،بھانجی سے بھائی ،بہن کی اولادیں مراد ہیں، ان کی پوتیاں، نواسیاں
بھی اسی میں شمار ہیں۔
(حرمتِ مصاہرت)
قسم دوم مصاہرت
(۱)اُن عورتوں سے نکاح نہ کرو، جن سے تمھارے باپ دادا نے نکاح کیاہو۔
اورتمھاری عورتوں کی مائیں اور(۲) اُن کی بیٹیاں جو تمھاری گود میں ہیں،
اُن بیبیوں سے جن سے تم جماع کر چکے ہو اور اگر تم نے اُن سے جماع نہ کیا
ہو تو اُن کی بیٹیوں میں گناہ نہیں(۳) اورتمھارے نسلی بیٹوں کی بیبیاں
(سورۃ النساء پارہ۴،۵:آیت۲۲۔۲۴)
قسم دوم مصاہرت: یعنی زوجۂ موطؤہ(وہ بیوی جس سے ہمبستری کی ہو) کی لڑکیاں،
2 زوجہ کی ماں، دادیاں، نانیاں،
3 باپ ،دادا وغیرہما کی بیبیاں،
4 بیٹے پوتے وغیرہما کی بیبیاں۔
جمع بین المحارم
قسم سوم: جمع بین المحارم ۔
اور دو بہنوں کو اکٹھا کرنا( حرام ہے)مگر جو ہو چکا۔ بیشک اﷲ (عزوجل) بخشنے
والا مہربان ہے
(سورۃ النساء پارہ۴،۵:آیت۲۲۔۲۴)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اور اُس کی پھوپی کو جمع نہ کیا جائے اور نہ
عورت اور اُس کی خالہ کو۔
صحیح بخاری و مسلم
ایسی دو عورتوں کو نکاح میں جمع نہیں کر سکتا بلکہ اگر طلاق دے دی ہو اگرچہ
تین طلاقیں تو جب تک عدّت نہ گزرلے
مذکور ہ حرمت صرف نسب کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دودھ کے ایسے رشتے ہوں جب
بھی دونوں کا جمع کرنا حرام ہے، مثلاً عورت اور اس کی رضاعی بہن یا خالہ یا
پھوپی کو جمع کرنا حرام ہے
(حرمت بوجہ حقِ غیر)
قسم چہارم حرمت بوجہ حقِ غیر
اور حرام ہیں شوہر والی عورتیں
(سورۃ النساء پارہ۴،۵:آیت۲۲۔۲۴)
دوسرے کی منکوحہ سے نکاح نہیں ہوسکتا بلکہ اگر دوسرے کی عدّت میں ہو جب بھی
نہیں ہوسکتا۔ عدّت طلاق کی ہو یا موت کی یا شبہ نکاح یا نکاح فاسد میں دخول
کی وجہ سے۔
حرمت رضاعت
قسم پنجم حرمت رضاعت
تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور دُودھ کی بہن
(سورۃ النساء پارہ۴،۵:آیت۲۲۔۲۴)
رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو عورتیں ولادت (نسب) سے
حرام ہیں، وہ رضاعت سے حرام ہیں۔
صحیح بخاری
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے فرمایا: ''بیشک اﷲ تعالیٰ نے رضاعت سے اُنھيں حرام کر دیا جنھیں
نسب سے حرام فرمایا۔
صحیح مسلم
بچہ نے جس عورت کا دودھ پیا وہ اس بچہ کی رضاعی ماں ہو جائے گی اور اس عورت
کا شوہر (جس کا یہ دودھ ہے یعنی جس کی صحبت سے عورت کو دودھ اترا) اس دودھ
پینے والے بچہ کا رضاعی باپ ہو جائے گا اور اس عورت ( جس کا دودھ پیا)کی
تمام اولادیں اس کے رضاعی بھائی بہن ہو جائیں گےخواہ اسی شوہر سے یہ بچے
ہوں یا دوسرے شوہر سے ہویا اس کے دودھ پینے سے پہلے کی اولاد ہیں یا بعد کی
یا ساتھ کی۔
اور عورت( جس کا دودھ پیا) کے بھائی، رضاعی ماموں اور اس کی بہن رضاعی
خالہ۔ يوہيں اس شوہرکی اولادیں اس کے رضاعی بھائی بہن اور اُس کے بھائی اس
کے رضاعی چچا اور اُس کی بہنیں، اس کی رضاعی پھوپیاں خواہ شوہر کی یہ
اولادیں اسی عورت سے ہوں یا دوسری سے۔ يوہيں ہر ایک کے باپ ،ماں اس کے دادا
دادی، نانا ،نانی۔
جو نسب میں حرام ہے رضاع میں بھی حرام مگر بھائی یا بہن کی ماں کہ یہ نسب
میں حرام ہے کہ وہ یااس کی ماں ہوگی یا باپ کی موطؤہ اور دونوں حرام اور
رضاع میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں، لہٰذا حرام نہیں اور اس کی تین صورتیں
ہیں۔
رضاعی بھائی کی رضاعی ماں (جس کا دودھ نہ پیا)
یا رضاعی بھائی کی حقیقی ماں (جس کا دودھ نہ پیا)
یا حقیقی بھائی کی رضاعی ماں۔
حرمت بالشرک۔
قسم ششم حرمت بالشرک
مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک ایمان نہ لائیں، بیشک مسلمان باندی مشرکہ
سے بہتر ہے اگرچہ تمھیں یہ بھلی معلوم ہوتی ہو اور مشرکوں سے نکاح نہ کرو
جب تک ایمان نہ لائیں، بیشک مسلمان غلام مشرک سے بہتر ہے، اگرچہ تمھیں یہ
اچھا معلوم ہوتا ہو، یہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اﷲ (عزوجل) بلاتا ہے جنت
و مغفرت کی طرف اپنے حکم سے اور لوگوں کے ليے اپنی نشانیاں ظاہر فرماتا ہے
تاکہ لوگ نصیحت مانیں۔ (سورۃالبقرہ:پارہ ۲،آیت ۲۲۱)
مسلمان کا نکاح مجوسیہ،بت پرست، آفتاب پرست، ستارہ پرست عورت سے نہیں
ہوسکتا خواہ یہ عورتیں حرّہ (آزاد)ہوں یا باندیاں، غرض کتابیہ کے سوا کسی
کافرہ عورت سے نکاح نہیں ہوسکتا۔
مرتد و مرتدہ( جو اسلام سے پھر گئے ہوں جیسے قادیانی) کا نکاح کسی سے نہیں
ہوسکتا، اگرچہ مرد و عورت دونوں ایک ہی مذہب کے ہوں۔
یہودیہ اور نصرانیہ سے مسلمان کا نکاح ہوسکتا ہے مگر نکاح نہ کرنا بہتر ہے
کہ اس میں بہت سے مفاسد کادروازہ کھلتا ہے۔ مگر یہ جواز اُسی وقت تک ہے جب
کہ اپنے اُسی مذہبِ یہودیت یا نصرانیت پر ہوں اور اگر صرف نام کی یہودی
نصرانی ہوں اور حقیقۃً نیچری اور دہریہ مذہب رکھتی ہوں، جیسے آجکل کے
عموماً نصاریٰ کا کوئی مذہب ہی نہیں تواُن سے نکاح نہیں ہوسکتا، نہ ان کا
ذبیحہ جائز بلکہ ان کے یہاں تو ذبیحہ ہوتا بھی نہیں۔
(حرمت متعلق بہ عدد)
آزاد شخص کو ایک وقت میں چار عورتوں اور غلام کو دو سے زیادہ نکاح کرنے کی
اجازت نہیں اور آزاد مرد کو کنیز کا اختیار ہے اس کے ليے کوئی حد نہیں۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
(ملخص از بہار شریعت حصہ اول)
والسلام مع الاکرام
ابو السعد محمد بلال رضا قادری |