بلیک میلر صحافی

اقبال آفریدی 20 سال سے صحافت کے شعبہ سے منسلک ہیں ۔ فوجی آپریشن ہوا تو وہ پشاور چلے آئے ۔ اس صحافی کی تنخواہ 5 سے 6 ہزار ہے ۔ پشاور آ کر کرایہ کا گھر لیا تو اخراجات بھی بڑھ گئے ۔ بچوں کے سکول کی فیسیں ، بجلی کے بل اور دو وقت کی روٹی کے لیے اقبال آفریدی کو کپڑے کی ایک دکان پر نوکری کرنی پڑی۔ صحافیوں کی تنظیم کا رکن ہونے اور 20 سال سے صحافت کے میدان میں ڈٹے رہنے والا اقبال آفریدی دن کو قلم اٹھائے صحافت کا فرض ادا کرتا ہے اور رات کو ایک دکان کے باہر کلاشن کوف پکڑے سکیورٹی گارڈ کی ڈیوٹی دیتا ہے یوں وہ ہر ماہ 10 سے 11 ہزار کما لیتا ہے۔ اس سے پہلے اس صحافی نے ٹیلی فون کے محکمہ میں بطور ٹیکنیشن بھی کام کیا لیکن پولیٹیکل انتظامیہ کے دباﺅ کی وجہ سے نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔

اقبال آفریدی ابھی زندہ ہے لیکن 30 ستمبر کو پاکستان کے ایک پریس کلب کے جنرل سیکرٹری کو قتل کر دیا گیا ۔ جس کے بعد پریس کلب بند کر دیا گیا ۔ تب سے یہ پریس کلب بند پڑا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ صحافیوں کو بند نہیں کیا جا سکتا ۔ انہیں باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ لہذا 25 دن بعد یعنی 25 اکتوبر کو اسی پریس کلب کے صدر کے دونوں بیٹوں کو بھی فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ 2009 سے لے کر اب تک اس پریس کلب کے دو صدر اور ایک جنرل سیکرٹری مارے جا چکے ہیں ۔جبکہ ایک صدر کوایک دن کے وقفے سے اپنے دو جوان بیٹوں کے جنازوںکا تحفہ دیا گیا ۔ اسی پریس کلب کے ایک صدر محمد خان ساسولی نے کہا تھا کہ جب ہم قوم پرستوں کی کوریج کرتے ہیں تو حکومت دھمکیاں دیتی ہے اور اگر ہم حکومت کی رپورٹنگ کرتے ہیں تو ہمیں خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ کا نام دیا جاتا ہے ۔ محمد خان کو بھی گولیاں مار دی گئیں ۔ ان کے قاتل بھی نامعلوم افراد ہی تھے۔اس سے قبل 31 اگست کوایک اور پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری کو گینگ وار کے خلاف بات کرنے پر قتل کر دیا گیا ۔ وہ صحافیوں کی حفاظت پر منعقدہ ورکشاپ میں شرکت کے لیے گئے تھے۔اس سے کچھ اور پیچھے جائیں تو 2012 میں ہی ایک اور صحافی رزاق گل پریس کلب سے گھر جانے کے لیے نکلے تو اگلے دن ان کی لاش ہسپتال سے دریافت ہوئی ۔ انہیں بھی نامعلوم افراد نے گولیاں ماردی تھیں ۔ہماری طرح ان سب صحافیوں کے بھی بیوی، بچے ، بہن ، بھائی اور ماں باپ تھے۔

یہ 2012 کی کہانیاں ہیں ۔جن میںسے صرف ان چند صحافیوں کے قتل کا بتایا ہے جو پریس کلب جیسے طاقتور اداروں کے عہدے دار تھے۔ جنہیں حکومت سے تحفظ بھی مل سکتا تھا اور جن کے ساتھ طاقتور میڈیا گروپ بھی تھے لیکن ان کے علاوہ بھی کئی کہانیاںبکھری پڑی ہیں ۔ کسی صحافی پر مقدمہ بنانا کتنا آسان ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ستمبر میں ایک صحافی کے قتل پر جب اس کے ساتھی صحافیوں نے احتجاج کیا تو حکومت نے احتجاج کرنے والے ساتھیوں پر مقدمات بنا دیے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن 26 صحافیوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے ان میں سے ایک کا نام سلیم شاہد تھا ۔ سلیم شاہداحتجاج والے دن پاکستان میں ہی نہیں تھا ۔ وہ اپنے اہل خانہ ک ہمراہ حج کرنے سعودی عرب گیا ہوا تھا۔لیکن اس پر بنایا گیا مقدمہ ریکارڈ پر موجود ہے ۔ اب یا تو پاسپورٹ ٹکٹ اور پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی عملہ کی مہر لگی سفری دستاویز جعلی ہیں اور دو ملک اس گمنام صحافی کے ساتھ مل گئے ہیں یا پھر تھانے کی ایف آئی آر جعلی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے 93 فیصدصحافی جانی و مالی طور پر شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں جبکہ 74 فیصد صحافیوں کو گزشتہ ایک سال کے دوران دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صدف بیگ نے اسی حوالے سے معلومات اکھٹی کیں اور رپورٹ تیار کی جس میںخوفناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ سلیم صافی جب ملے تو وہ بھی اسی بات کا رونا رو رہے تھے۔ فاٹا کے 53 فیصد صحافی باقاعدہ تنخواہ کے بغیر کام کر رہے ہیں اور بعض اوقات جس خبر کی وجہ سے صحافی کو قتل کیا جاتا ہے ، اس کا ادارہ اس کے قتل کے بعد بھی اس خبر کا معاوضہ ادا نہیں کرتا۔ 86 فیصد صحافیوں کو خطرناک علاقوں میں کام کرنے کے باوجود کسی قسم کی لائف انشورنس یا میڈیکل کی سہولت حاصل نہیں ۔ عدنان رحمت نے جو ریکارڈ اکھٹا کیا اس کے مطابق گذشتہ 6 سال سے اوسطا ہر ماہ ایک صحافی قتل ہو رہا ہے۔ کتنوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں ۔کتنوں کو اغوا کیا گیا اور کتنوں کو کسی اور انداز سے خوفزدہ کیا گیا اس کا ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ 2006 سے اب تک 86 صحافی قتل ہوئے جن میں ایک امریکی اور ایک افغانی بھی شامل ہے ۔ امریکی ڈینئیل پرل کے سوا کسی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔

یہ باتیں ،یہ ریکارڈ ، یہ لاشیں اور یہ خبریں سب بکواس ہیں ۔ اصل بات صرف اتنی ہے کہ سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹ ہونے والے بیانات اور کمنٹس کے مطابق پاکستان کے صحافی انتہائی طاقتور، رشوت خور، بلیک میلر ، کرپٹ اور امریکی ایجنٹ ہیں ۔ اقبال آفریدی اگر دن میں صحافت اور رات کو چوکیداری کرتا ہے تو یہ اس کا کوئی نیا ڈھونگ ہے ۔ اس کے گھر کی زمین کھودیں تو ضرور وہاں سے سونے کی دیگیں برآمد ہوں گی۔ پریس کلب کے صدر کے دو جوان بیٹے مارے گئے تو ضرور یہ بھی اس کی کوئی چال ہو گی۔یقینااس کے یہ دونوں جوان بیٹے ناخلف اور بد تمیز ہوں گے اور اس نے انہیں خود مار دیا ہو گا تاکہ نام کما سکے۔ میری کتاب ”خودکش بمبار کے تعاقب میں “ کی تقریب رونمائی کے موقع پر پریس کلب میں سارے میڈیا کے سامنے دہشت گردوں کو للکارنے والے ا سکالرڈاکٹر شبیہ الحسن اسی ہفتے نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے تو ضرور انہوں نے بھی ان دہشت گردوں کو کئی سال تک مسلسل بلیک میل کیا ہو گا۔ میں یہ سب باتیں تسلیم کرتا ہوں کیونکہ میں سوشل میڈیا کی طاقت سے انکار نہیں کر سکتا ۔ البتہ اپنے دوستوں سے ایک بات ضرور پوچھنا چاہتا ہوں ۔ اس وقت صرف الیکٹرانک میڈیا میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ کام کر رہے ہیں ۔ جی ہاں ! میں انہی چند چینلز کی بات کر رہا ہوں جو آپ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں ۔ اخبارات ان کے علاوہ ہیں ۔ مجھے صرف100 ایسے صحافیوں کے نام گنوا دیں جو آپ کے خیال میں بلیک میلر ہیں ۔ ڈیڑھ لاکھ میں سے صرف 100 صحافی ایسے بتا دیں جو کروڑ پتی ہیں ۔ میں انہی ڈیڑھ لاکھ میں سے صرف ایک سو ایسے صحافیوں کی لسٹ تیار کرنا چاہتا ہوں جو سیاسی ٹاﺅٹ ہیں اور انہوں نے صحافت کی آڑ میں بنگلے کھڑ ے کر رکھے ہیں ۔ لاہور سے شائع ہونے والے ایک بڑ ے اخبار میں مالکان کے علاوہ صرف ایک شخص اپنی گاڑی پر آتا ہے اور وہ بھی پرانا ماڈل ہے ۔ پچھلے ماہ پاکستان کے سب سے بڑے اردواخبار میںتقریبا 10 سال تک کرائم ایڈیشن کے انچارج کے طور پر کام کرنے والا صحافی جب وہ اخبار چھوڑ کر گیا توموٹر سائیکل استعمال کرتا تھا اور آج بھی اسی موٹر سائیکل پر نظر ّآتا ہے ۔ پاکستان کے ہی دوسرے بڑے اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر کا بیٹا صحافت میں اعلٰی تعلیم کے بعد دھکے کھا رہا ہے اس کا بڑا بھائی محض فوٹوگرافر کے طور پرنوکری کر رہا ہے مگر باپ کسی اچھے عہدے کے لیے سفارش کرنا حرام سمجھتا ہے۔ میر ے سامنے ہزاروں مثالیں موجود ہیں لیکن میں انہیں نظر انداز کر کے صرف 100 ایسے صحافیوں کی لسٹ مانگ رہا ہوں جنہوں نے کرپشن اور بلیک میلنگ سے کروڑوں کمائے ہیں ۔ آپ جس بھی شعبہ میں ہیں ایک مرتبہ خود کو منصف بنا کر سوچیں کہ کیا آپ کی فیلڈ میں کوئی کرپٹ نہیں ؟ یا کوئی ایسی فیلڈ جس میں کالی بھیڑیں نہ ہوں ؟ تو کیااس بنیاد پر آپ کو بھی کرپٹ سمجھا جائے یا آپ پر لعن طعن کی جائے تو یہ درست ہو گا ۔ اس کا جواب آپ خوددیں تو مناسب ہو گا لیکن میں چینلز کی دنیا کے صرف 100 افراد کی لسٹ مانگ رہا ہوں ۔تا کہ صحافت چھوڑنے کے لیے میرے پاس کوئی ایساجواز موجود ہو جو میں اپنے دوستوں کو دے سکوں ۔ میں سونے کے لیے آنکھیں بند کرتا ہوں تو میرے سامنے اپنے صحافی دوستوں کی لاشیں آ جاتی ہیں ۔اٹھ کر انٹر نیٹ پر دیکھتا ہوں تو فیس بک صحافیوں کے لیے گالیوں اور الزامات سے بھرا ہوتا ہے ۔ ہر صحافی بلیک میلر ہے تو جن کی ایمانداری کا میں خود گواہ ہوں انہیں کس کھاتے میں رکھوں؟ جو انہی راہوں میں مارے گئے ان کی قبروں پرلگی تختی پر کیا لکھواﺅں؟ جو بھوک اور افلاس کا شکار ہیں ، جو آپ کے لیے خبر لاتے ہیں اور بدلے میں دہشت گرد ان کے بچے مار دیتے ہیں انہیں کیا نام دوں؟ مجھ سے مارے جانے والے صحافیوں کے بچے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے بابا بلیک میلر تھے تو ہم بھوکے کیوں ہیں ؟ میں ان سب صحافیوں کی قبروں پر بلیک میلر لکھوا دیتا ہوں ، ان کے بچوںکے ماتھے پر پکی سیاہی سے چور کی اولاد لکھوا دیتا ہوں مگر اس کے لیے مجھے ڈیڑھ لاکھ میں سے صرف 100ارب پتی صحافیوں کے نام چاہیں تاکہ میں یہ مشن چھوڑ دوں اور آپ کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پر لکھوں کہ سید بدر سعید سمیت پاکستان میں سب صحافی بلیک میلر اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں ۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.