دوسری قومیں مادی وسائل کے سہارے
آسمان کی بلندیوں تک پہنچ سکتی ہیں ،لیکن امت مسلمہ قرآن سے بے نیاز ہوکر
عروج کے دن نہیں دیکھ سکتی۔ اس کتا ب کو رسماً پڑھنے یا اس پر سرسری نظر
ڈالنے سے یہ قوم پستی کا شکار ہو جائےگی اور اس کا وجود خطر ے میں پڑ جائے
گا۔
امت مسلمہ کی کیا صورت حال ہے ؟ وہ کن مسائل و مشکلات سے دو چار ہے ؟یہ اور
اس طرح کے سوالوں کے جواب کسی سے مخفی نہیں ۔ہر خا ص و عام واقف ہے کہ ان
دنوں ملت اسلامیہ تعلیمی ، سیاسی، اقتصادی غرض زندگی کے تما م میدانوں میں
پسماندہ طبقات سے بھی پیچھے ہے ،اس کی اکثریت گھٹن ،اضطراب اور بے چینی کا
شکار ہے ، ہر طر ف مایوسی کے بادل چھا ئے ہوئے ہیں ،مرثیہ خوانی کی لے تیز
سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔یعنی اس صورتحال پر ماتم کر نے اور مگر مچھ کے
آنسو بہانے والے بہت ہیں ، خواب بننے اور لائحہ عمل تیار کرنے والے ذہن
خال خال نظر آتے ہیں۔ اس مختصر گروہ میں بھی بیشتر عملی میدان میں کورے
ہیں۔ داخلی انتشار دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ دشمنوں کے تیور بھی بگڑے ہیں ،وہ
ملت کی ساکھ بگاڑنے اور اسکے فکری و تہذیبی سرمائے کو پامال کر نے پر تلے
ہوئے ہیں ،آئے دن ملی زوال کے آئینہ دار سروے اور جائزے سامنے آتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرونِ اولی کے حاملین قرآن تو معزز تھے لیکن اس
عہد میں قرآن سے بے پناہ اور والہانہ لگاؤکا دم بھرنے والے مسلمان زوال
کا شکار کیوں ہیں ؟
قوموں کا عروج اور زوال کوئی انہونی بات نہیں ہے ،قوموں کے گرنے او ر اٹھنے
کا عمل جاری رہتا ہے ، لیکن قومیں کیوں اٹھتی اور گرتی ہیں ؟ اپنے کرتوت کے
نتیجے میں ،زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لینے والی قومیں کا میاب اور ہاتھ پر
ہاتھ دھرے بیٹھ رہنے والی قومیں ناکام ہوتی ہیں۔جو قومیں برائی کی فصل بوتی
ہیں وہ کڑوے کسیلے پھل چکھتی ہیں اوربھلائی کو فروغ دینے والی قومیں خوشیوں
کے دن دیکھتی ہیں :
’’انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نےکوشش کی ۔‘‘ (النجم۵۳ :۳۹)
یعنی جو جیسا کرے ویسا بھر ے گا ، جب تک ہم اپنا رویہ تبدیل نہیں کریں
گےاسی طرح گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبو ر ہوں گے۔(کاش ہم قرآن پر عمل کر تے تو
یہ نوبت نہ آتی ،یہ قرآنی اصولوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے )ہم اپنی
روش کیسے بدلیں ؟صرف مادی وسائل یاکسی اور چیز کے سہارے سے؟دوسری قومیں
مادی وسائل کے سہارے آسمان کی بلندیوں تک پہنچ سکتی ہیں ،لیکن امت مسلمہ
قرآن سے بے نیاز ہوکر عروج کے دن نہیں دیکھ سکتی۔ اس کتا ب کو رسماً پڑھنے
یا اس پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ قوم پستی کا شکار ہو جائےگی اور اس کا وجود
خطر ے میں پڑ جائے گا۔ حدیث کے مطابق:
’’یقیناً اس کتاب کے ذریعہ اللہ بہت سی قوموں کوبلند کرتا ہے اور بعض قوموں
کو پست کرتا ہے ۔‘‘
یعنی مسلمانو ں کی قسمت کا فیصلہ اسی کتاب سے ہوتا ہے ،وہ اس سے رشتہ جوڑیں
گے تو معزز ہوں گے ورنہ ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جائے گی ،یقینا ًآج
ہمار ی زبوں حالی کا سب سے اہم سبب قرآن سے بے اعتنائی ہی ہے۔
اللہ تعالٰی نے انسانوں کو پیدا کر کے ان کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑدیا
بلکہ ان کی ضروریا ت کی تکمیل کے لئے اسباب اورسائل بھی فراہم کئے :
’’وہی ہے جس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے استفادے کے لئے پیدا کیں۔‘‘
(البقرۃ۲:۲۹)
ان چیزوں سے استفادہ کیسےکیا جائے؟ انسان اس سے بے خبر تھا ،اسے اچھے برے
اور غلط صحیح کی تمیز نہ تھی ، یہی بتانے کے لئے اللہ تعالی نے ہرزمانے میں
انبیاء اوررسل بھیجے اور انسانوں کی رہنمائی کے لئے کتابیں نازل کیں ۔ جن
سے اخذو استفادہ کا دائرہ محدود تھا ،آخر میں سرورِ کائناتؐ کو ساری دنیا
کا رسول بنا کر بھیجاگیا۔نبی کریمؐ کو کتاب ہدایت کی شکل میں قرآن مجید
دیا گیا،جو ماورائے عصر ہے ،اس کی تعلیمات دائمی اور ابدی ہیں ۔وہ نظام
زندگی کا مکمل نصاب اور قیامت تک کے انسانوں کے لئے ہادی ورہنما ہے ،اس کا
مقصد نزول اندھیرےمیں ہاتھ پاؤں مارنے والوں کو ایمان کا نور دینا اور
انسان کو دردر کی ٹھوکر کھانے سے بچانا ہے ،جو انسان بھی سچے دل سے قرآن
سے ہدایت طلب کر ے گا ، اس کا دروازہ کھٹکھٹائے گاخالی ہاتھ نہیں جائے
گا،ہدایت و رہنمائی کا سامان ضرور مل جائے گا۔ دوسر ے لفظوںمیں یہ ہدایت
ونور کا ایسا سرچشمہ ہےجس سے ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق سیراب اور اپنےدل و
دماغ کے میل کچیل صاف کرسکتاہے:
’’رمضان کامہینہ جس میں ایسا قرآن نازل ہو ا جو لوگوں کے لئےہدایت ہے اور
جس میںحق و باطل کو واضح کر دینے والی نشانیاں ہیں ۔‘‘ (البقرۃ۲:۱۸۵)
’’یہ سارے انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے ۔‘‘ (ابراہیم ۱۴: ۵۲)
’’ یہ جہاں والوں کے لئے ایک یاد دہانی ہے۔‘‘ (القلم۶۸:۵۲)
’’یہ تو صرف یاد دہا نی ہے سارے جہاں والوں کے لئے اور ہر اس شخص کےلئے جو
راہ راست پر چلنا چاہے۔‘‘ (التکویر۸۱:۲۷۔۲۸)
غرض نزول قرآن کا بنیادی مقصد انسان کو بنا نا، سنوارنا اور اسے اعلیٰ
اقدار کا حامل بنانا نیز اسے جہالت اور نادانی کے اندھیرے سے نکالنا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ مجموعۂ حیات جیسے ہی لوگو ں کے ہاتھوں میں
پہنچتا لوگ اسے قبول کرتے،اس کے ایک ایک حکم پر دل وجان سے عمل کر تے
،زندگی کے تمام شعبوں میں اسے رہنما مانتے ،اس کی ہر بات پرکا ن دھرتے،خاص
طور پر وہ لوگ جو قرآن کو دستور حیات مانتے ہیں ۔لیکن قرآن کے ساتھ ان کا
رویہ کیا رہا ؟ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے الفاظ میں :
’’کتا ب اللہ کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ اہل کتاب سے مختلف نہیں ۔وہ
قرآن کو بڑی عظمت کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں ۔اس کی ادنیٰ سی بھی توہین
برداشت نہیں کرسکتے بلکہ اس کے لئے جان دینے پر تیار رہتے ہیں۔ان کایہ
جذبۂ عقیدت قابل قدر و تحسین ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ان کا اپنا برتاؤکیا
ہے ؟وہ اسے جزدان میں لپیٹ کر طاقوں میں سجاکر رکھتے ہیں۔ تکرار و نزاع کی
صورت میں اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا تے ہیں ،کسی کے مرنے پر، دوکان یا مکان
کے افتتاح پریا کسی بھی خوشی یا غم کے موقع پر اکٹھا ہوکر اس کی تلاوت کر
تے ہیں۔ بھوت پریت یا جنات سے حفاظت کے لئے اس کی چند آیتیں پڑھ کر
پھونکتے ہیں اور بس ۔کچھ لوگ زیادہ دین دار ہوتے ہیں تو وہ روزانہ اس کا
کچھ حصہ تلاوت کر لیتے ہیںلیکن ان کے حا شیہ خیا ل میں یہ بات نہیں آتی ہے
کہ قرآن سمجھ کر بھی پڑھنے کی کوئی چیز ہے ۔زیادہ تکلیف دہ بات تو یہ ہے
کہ اس جانب توجہ دلانے پر ان کا ردعمل یہ ہوتاہے کہ قرآن کریم اللہ تعا لی
کا عظیم الشان کلا م ہے،اس کو سمجھنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘
گویا عوام تو عوام خواص بھی قرآن کے مقصد نزول سے غافل ہیں ۔ہما ری یہ
حرکتیں قرآن کی شان میں گستاخی سے کم نہیں ہیں،اللہ تعالیٰ نے قرآن کو
کمتر ثابت کرنے او راسے نظر انداز کرنے والوں کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا
دیاہے :
’’اور جو میرے ذکر (صحیفۂ ہدایت قرآن ) سے روگردانی کرے گا ،اس کی زندگی
تنگی میں رہے گی اور ہم ایسے شخص کو قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔‘‘
(طہٰ۲۰ : ۱۲۴)
اہل کتاب کے اسی رویے پر قرآن نے ضرب لگائی ہے :
’’تم (کسی لاگ لپیٹ کے بغیر صاف صاف) کہہ دو ،اے اہل کتاب!تم(اس وقت ) تک
کسی اصل پر نہیں ہویہاں تک کہ تم تورا ت و انجیل قائم کرلواوراس چیز کو جو
تمہا رے رب کی طرف سے تم پر اتری ہے ۔‘‘ (المائدۃ۵ : ۶۸)
قرآن سے عدم وابستگی کے نتیجے میں مسلمانوں کی بھی کو ئی حیثیت تسلیم نہیں
کی جائے گی اوروہ ذلیل و خوار سمجھے جائیں گے۔
اسی طرح قرآن دنیاکی تما م نعمتوں میں وہ عظیم نعمت ہے جس پر لوگوں کو
خوشیاں منا نا چاہئے:
’’کہویہ قرآن اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے ۔ پس اس کے نزول پر لوگوں کو
خوشیاں منانا چاہئے،وہ ان چیزوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے جسےلوگ ذخیرہ کرتے
ہیں ۔‘‘(یونس۱۰:۵۸)
اللہ تعالیٰ کاضابطہ ہے کہ جو قوم اس کی نعمتوں کی ناقدری کرتی ہے اللہ
تعالی اسے آسمان سے زمین بنا دیتا ہے جیساکہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا۔ پھر
قرآن جیسی عظیم نعمت کو نظر انداز کرنے والے کاکیا انجام ہوگا اور اسے
کیسے برے دن دیکھنے ہوں گے؟جس کے بارے میں ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں ۔
نعمتوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا :
’’پھر اس (جزاو سزا ) کے دن نعمتوں کے بارے میں باز پر س ہوگی
۔‘‘(التکاثر۱۰۲:۸)
ظاہر ہے جو نعمت جتنی زیادہ اہم ہوگی اس سے متعلق سوال بھی ویسا ہی
ہوگا،پھرہم سے قرآ ن کو نظر انداز کرنے کے بارے میں پوچھا جائے گا تو کیا
جواب دیں گے ، جب نبی کریمؐ درد بھر ے لہجے میں اللہ سے فریاد کریں گے:
’’اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا
تھا ۔‘‘
(الفرقان ۲۵ : ۳۰ )
اس وقت ہمارے اوپر کیا گزرے گی ؟ہم کس کی پنا ہ ڈھونڈیں گے؟ہم کسے مدد
کےلئے پکاریں گے؟ہم لاکھ چلائیں گے، واویلا مچائیں گے ، اس وقت کوئی شنوائی
نہیں ہوگی اور سخت ترین عذاب کے حوالے کردیئے جائیں گے،اس لئے ہمیں قرآن
سے وابستہ ہوکر خود کو دنیا کی ذلت ورسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچانا
چاہئےاور قرآن کو اپنے خلاف نہیں بلکہ اپنی حمایت میں دلیل بنانے کے لئے
راہ ہموارکرنی چاہئے۔ حدیث میں ہے:
’’ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہوگا۔‘‘
جو شخص قرآن کو اپنائے گا۔ اسے’’ اجرکبیر‘‘ سےنوازا جائے گا(بنی
اسرائیل۱۷:۹)
جب اللہ تعالیٰ اجرکبیر کہے، اس کی کوئی حدمتعین نہ کرے تو وہ کتنا بڑا اجر
ہوگا؟کیسا ہوگا؟ وہ کن چیزوں سے نوازےگا ،انسان اس کاتصور بھی نہیں
کرسکتا،اسی مبہم انداز میں اللہ تعالی نے اہل کتاب پر افسو س کیا ہے :
’’اگر وہ تورات اور انجیل اور اس چیز کو جوان کے رب کی طرف سے اتری ہے ،کو
قائم کئے ہوتے تو کھاتے اپنے اوپر سے اوراپنے پاؤں کے نیچے سے
۔‘‘(المائدۃ۵ :۶۶)
یعنی ان پر زمین وآسمان سے نعمتیں برستیں۔ اسی لہجے میں قوم شعیب سے کہا
گیا کہ :
’’اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے تو ہم ان پر
آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔
سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا ۔ (الاعراف ۷:۹۶)
تو کیوں نہ ہم بھی اللہ کی طرف پلٹیں اور دیگر افکار و نظریات سے بے نیاز
ہوکر قرآن سے وابستہ ہوجائیں پھر ہمارے اوپر وہ نوازش ہوگی جس کا ہم تصور
نہیں کرسکتے ، ہرمیدان میں کامیابی اور اونچا مقام حاصل ہوگا اور آخرت میں
مسرت وشادمانی کی گھڑیاں نصیب ہوں گی ،مولانا سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں
:
’’ مسلمانو! ربانی قوت کا یہ سرمایہ (قرآن) اب بھی تمہارے پاس ہے اور اللہ
کے اس خزانۂ رحمت کی کنجی اب بھی تمہارے ہاتھ میں ہے، ہمت کرواور ادب سے
اس کے اوراق کھولو،ا س کے معنوں کو سمجھو، اس کی باتوں پر یقین کرواور اس
کے حکموں کو مانواورعمل کرو پھر دیکھو کہ تم کہاں سے کہاں پہنچتے ہو۔‘‘ |