ہمارے بعض سیکولر دانشور اپنی
تحریروں اور تقریروں میں قوم کو ہمیشہ یہی درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم
مجبور ، بے بس ، لاچار اور کمزور ہیں اس لیے غیرت و حمیت کو بے شرمی اور بے
حمیتی کی لوری سُنا کرسُلا دینا چاہیے کیونکہ زمینی خُداؤں کی چوکھٹ پہ
سجدہ ریز ی میں ہی عافیت ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایٹمی قوتیں بھی کمزور
ہوا کرتی ہیں؟۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ ہم کمزور
ہیں تو پھر بھی ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال
نے تو درسِ خودی اُس وقت دیا تھا جب مسلمانانِ ہند مایوسیوں کی اتھاہ
گہرائیوں میں گرے ہوئے تھے ۔انہوں نے فرمایا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
٭
تو اگر خود دار ہے منت کشِ ساقی نہ ہو
عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
ہمارے یہ دانشور کہتے ہیں کہ جہاں عقل کا دروازہ نہیں کھلتا وہیں غیرت کی
بات کی جاتی ہے ۔ ان کے نزدیک عقل کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہم اپنی غیرتوں کو
”امریکی“ شراب پلا کر مدہوش کر دیں ۔ حیران ہوں کہ اسی کمزوری کا حوالہ دے
کر پرویز مشرف ڈراتا تھا اور اسی کمزوری کی بات موجودہ حکمران کرتے ہیں ۔جبکہ
ملکی حفاظت پرمامور ہمارے دفاعی سائنس دان اپنی بھرپور اور توانا آوازمیں
ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دفاع نا قابلِ تسخیر ہے ، جس کی کبھی
تردید سامنے نہیں آئی۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ پوری دنیا ہمارے ایٹمی
پروگرام سے خائف ہے اور ہم پوری دنیا سے ۔ 40 سال ہونے کو آئے ہم نے بھوکے
رہ کر اپنا سب کچھ ملکی دفاع کے لئے قربان کر دیا اور اب جب کسی کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوئے تو امریکہ کو خُدا مان لیا ۔ ایٹم
بمبوں ، ایٹمی میزائیلوں اور آب دوزوں سے لیس دنیا کی بہترین جرّی فوج
رکھنے والے بزدل حکمرانوں کے لئے ہی شایدعلّا مہ اقبال نے کہا تھا
مجھے روکے گا تو اے نا خُدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
یہ توتاریخ کا ایک معمولی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ جس زمانے میں اقبالؒ
نے شاعری شروع کی اس وقت مسلمانانِ ہند انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر
رہے تھے ۔مایوسیوں میں گھرے ہوئے مسلمانوں کو کوئی ایسا روزن بھی نظر نہیں
آتا تھا جس سے امید کی کوئی کرن آتی ۔اس دورِ ابتلا میں بھی ترجمانِ حقیقت
حضرتِ اقبال نے فرمایا
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
٭
یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتحِ کامل کی خبر دیتا ہے جوشِ کا ر زار
انہوں نے سرزمیںِ ہند کے مسلمانوں کو درسِ بیداری دیتے ہوئے فرمایا
کیوں گرفتارِ طلسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفان بھی ہے
٭
کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرسِ اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے
٭
کانپتا ہے دل ترا اندیشہء طوفاں سے کیا
ناخدا تُو، بحر تُو ، کشتی بھی تُو ، ساحل بھی تُو
لیکن دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہم کمزور بھی نہیں لیکن پھر بھی صرف ”دشمنوں
کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ “سے مرے جا رہے ہیں۔آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو شرمندہ
ہوتے کہ انہوں نے اپنی عمرِ عزیز ایسے لوگوں کے لئے صرف کر دی جو غیرت کا
درس دینے والوں کو طنزیہ انداز میں ”غیرت بریگیڈ “ اور ” غیرت لابی“ جیسے
ناموں سے پُکارتے ہیں ۔ شائد ایسے ہی دانشوروں اور حکمرانوں کے لئے حضرتِ
اقبالؒ نے نظم ” غلام قادر روحیلہ“ لکھی تھی۔ جس میں بتلایا گیا ہے کہ غلام
قادر روحیلہ نے تیموری شہزادیوں کو اپنے سامنے ناچنے پر مجبور کیا اور پھر
تھوڑی دیر بعد وہیں پلنگ پر خنجر سرہانے رکھ کر لیٹا اور سو گیا کچھ دیر تک
سوتے رہنے کے بعد وہ اٹھا اور انتہائی افسوس سے کہنے لگا کہ اس نے تو سونے
کا محض بہانا کیا تھا ۔وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آیا کوئی شہزادی اسے غافل
سمجھ کر اسے اسی کے خنجر سے قتل کرنے کے لئے آگے بڑھتی ہے یا نہیں ؟۔لیکن
کسی شہزادی کی غیرت و حمیت نہیں جاگی اور
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے ز مانے پر
حمیّت نام ہے جس کا ، گئی تیمور کے گھر سے
آج یہی حال ہمارا بھی ہے ۔ ڈرون حملے ہو رہے ہیں ، سینکڑوں ریمنڈ دندناتے
پھر رہے ہیں ، سرحدی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، اور ہم ؟۔۔۔ ہم جو ڈرون گرا
سکتے ہیں، ریمنڈوں کی گردنیں اتار سکتے ہیَں ، اور دشمنوں کو دندان شکن
جواب دے سکتے ہیں لیکن کچھ نہیں کرتے کہ
” حمیّت نام ہے جس کا ، گئی تیمور کے گھر سے “
افکارِ اقبال کی بہ اندازِ حکیمانہ نفی کرنے والے اِن دانشوروں کو کم از کم
اخلاقی لحاظ سے تو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس ارضِ پاک کو اپنا ٹھکانہ
بنائیں کیونکہ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے عروقِ مُردہ مشرق میں خونِ زندگی
دوڑایا اور مسلمانانِ ہند کو ایک نظریے پر اکٹھا کیا ۔یہ انہی کا خواب تھا
جسے بابائے قوم نے حقیقت کا روپ بخشا ۔قائدنے 24 مارچ 1940ءکو قراردادِ
پاکستان کی منظوری کے بعد بے ساختہ فرمایا ”اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو کتنے
خوش ہوتے“۔لیکن جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اسے دیکھ کر تو بے ساختہ یہ کہنے
کو جی چاہتا ہے کہ ”اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو کتنے دُکھی ہوتے “- |