بظاہر عام سی بات مگر۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ یہ 90سالہ بزرگ پچھلے 22سال سے 40کلومیٹر کا سفر طے کر کے واہگہ بارڈر پر آتا تھااس 22سالہ دور میں اس نے نہ گرمی دیکھی نہ سردی، نہ دھوپ نہ بارش، نہ آندھی نہ طوفان، نہ اپنا کمزور جسم نہ پرپیچ و خمدار راستہ، نہ خوشی دیکھی نہ غمی ۔۔۔جو بھی دیکھا لوگوں نے دیکھا اس کا عزم ، اسکی وطن پرستی ، اسکا سچا جذبہ ، اسکی حب الوطنی ، اسکا مصمم ارادہ ، اسکے بوڑھے جسم سے چھلکتی مومنانہ طاقت اور اسکاسبزہلالی پرچم سے مزین وہ لباس جو مرتے وقت بھی یہ زیب تن کیے رہا۔

1922ءمیں پیدا ہونے والا یہ مہر دین پاکستان بنتے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں منتقل ہو گیا تھااور اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان اس امیدسے آیا کہ اسے یہاں وہ سب کچھ ملے گا جو دو قومی نظریے میں درج تھا لیکن شایدوہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دو قومی نظریہ قائد اعظم ؒکی وفات کے ساتھ ہی صرف کتابوں تک ہی محدودرہ جائے گا۔ گو کہ بابا جی قیام پاکستان کے بعد اپنا سب کچھ چھوڑکر پاکستان منتقل ہوگئے تھے مگر انہیں یہاں تہذیب و ثقافت سے لیکر رہن سہن کے اطوارتک سبھی کچھ وہی ملا جو بھارت میں میسرتھا شاید بابامہر دین اسی غلامی کو ختم کرنے کےلئے بائیس سال تک پاکستانیوں کی خوابیدہ حب الوطنی کوجگاتا رہا مگر 21اکتوبر 2012ءکو یہ بھی بائیس سالہ کوشش کے بعدخاموش ہوگئے۔

کچھ رازآشکار کرنے اور اپنوں غیروں کافرق واضح کرنے کےلئے اللہ پاک نے جس دن بابا مہر دین کواپنے پاس ہمیشہ کیلئے بلا لیااسی دن بھارتی فلمساز یش چوپڑا بھی انجہانی ہوا ۔بابا مہر دین کے جو اس ملک وقوم کی پہچان بنارہا اورجس نے بائیس سال تک اس قوم کووطن پرستی اورحب الوطنی کا درس دیااسکے لئے ملکی میڈیانے کیا رویہ رکھا وہ قلم بند کر کے بابامہر دین کی روح کو اذیت پہنچانے کے مترادف ہے جبکہ انجہانی یش چوپڑا کےلئے ملکی میڈیانے جورویہ اپنا یا وہ یقیناً کسی آزاملک دقوم کا نہیں ہو سکتا۔بابا مہر دین کےلئے ایک چھوٹی سی خبر چلاکر عوام کے لئے غلط صحیح کا تعین کرنے والوں نے ملک و قوم اور بابا مہر دین کے ساتھ اپنا حق تو ادا کر دیامگر وہ یش چوپڑا کے جس نے پوری عمر آزاد پاکستان کے لئے کوئی کام نہ کیا بلکہ جسکی فلمیں نہ صرف ہندوانہ رسم و رواج کا پرچارکرتی رہی بلکی پاکستانی عوام کےلئے بے راہ روی کا باعث بھی بنی اسکے انجہانی ہونے پر جو تماشہ دیکھایا گیا وہ یقیناً ایک خود مختار قوم کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔پاکستانی عوام کےلئے صحیح اور غلط کا تعین کرنے والوں نے نہ صرف انجہانی کےلئے اپنے قلم بے دریغ چلائے بلکہ اپنے اندازمکارانہ کے ساتھ اس قوم کو اشکبار بھی کیا ۔لاہور کے نواحی گاﺅں چندرائے میں سبزکفن میں پڑی بابا مہردین کی لاش اسی غلامی سے آزادی کا پیغام دے کر گئی مگریہ غلامی تو اب ہمارے لیے عام سی بات بن گئی ہے لیکن اس عام سے بات کا اثرکیاہو رہا ہے اور کیا ہو گا ےہ سوچ کر ذہن ماﺅف ہو جاتا ہے اور ایک انجانا سا خوف آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتا ہے ۔

یہ بھی اس غلامی کے آثار ہیں جس سے ہم لاکھوں جانیں دیکر بھی 1947ءمیں چھٹکارہ نہ پا سکے۔مذہب ، سرحدیں ، دشمنیاں ، جنگیں ، نفرتیں، کدورتیں ، سیاسی و معاشی اتار چڑھاﺅ جےسے انتہائی عوامل بھی اس غلامی کی زنجیر کو نہ توڑ سکے ۔عوامی مزاج بھی کچھ عجیب طرح کا ہے کہ اسمیں جذبادیت کا عنصر بھی ہے تو لاپرواہی و بے حسی کا امتزاج بھی ہے جبکہ شدت و حدت میں اتنی طاقت ہے کہ کبھی کبھی گھمان ہوتا کہ جیسے بڑی سے بڑی اور سخت سے سخت چٹان کو بھی پل بھر میں ریزہ ریزہ کردیں گے اور کبھی کبھی کسی معاملے میں خاموشی ایسی کہ خواب غفلت کا شائبہ ہوتا ۔یہ اس قوم کامزاج ہے جو بحرانوں میں پھنسی ہے یہ مزاج پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے پل میں تولہ پل میں ماشہ شایداسی قوم کےلئے کہا گیا ہے ۔پل میں تولہ پل میں ماشہ بننے والی قوم کےلئے حکمرانوں کی کھیپ بھی ایسی ہی تیار ہوئی جواقتدار سے پہلے تولہ اوراقتدار کے بعد ماشہ بن جاتی ہے۔

جہاں اس قوم کا اپنا قصور ہے وہاں اس قوم کوشکوک و شبہات میں مبتلا کرنے والے وہ گرگٹ ہیں کہ جنہوں نے اپنی خاصیت اس قوم میں منتقل کر دی ۔گرگٹ کی خاصیت کے منبہ افراد کی مکاری و عیاری ، چال بازیاں اور منافقتیں اسی وقت شروع ہوگئیں تھیں جب انہیں یہ احساس ہوا تھا کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے سے بھی انکا بچاﺅ مشکل ہو گا لہذا انہوں نے اپنے اردگرد رنگ بکھیرنا شروع کر دئے کہ جب بھی انہیں سزا کا گمان ہوتا یہ انہی رنگوں کواپنا مسکن بناکرپناہ گزین ہو جاتے آہستہ آہستہ یہ رنگینی اس قوم کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے۔یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اپنے عزائم کو عوام پردھونستے ہیں تو یا ناکام ہوتے یا کامیاب۔لیکن ناکامی میں بھی انکابچاﺅ تب ہوجاتا کہ یہ ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتے ہیں کامیابی میں یہ کامیاب ہوکر جیتنے والوں کے ساتھ ہوجاتے اورناکامی کی صورت میں یہ متاثرین کے دکھ درد کا مداوا بن جاتے اور رنگینیوں میں مبتلا لوگ انہیں اپنا ہمدردسمجھ کر انہی کو اپنا رہبر و راہنما بنا کر انکے تائب ہوجاتے ہیں ۔

ایک نفس کہ جوکچھ عرصہ پہلے تک اس ملک خداد کا کرتا دھرتا رہا جس کے کوٹ کے چرچے ہر خاص و عام کےلئے وجہ بحث بنے رہے سخت ترین گرمی میں جب انسان کےلئے بجلی موجود نہیں تھی اس نفس کے کتے کےلئے بلاتعطل بجلی موجود تھی یہ شخص جب ملکی دوروں پر ہوتا تو دو تین گھنٹے ٹریفک کا منجمد ہونا ایک عام سی بات تھی جبکہ غیر ملکی دوروں کےلئے خصوصی جہاز تیار کیے جاتے یہ نفس غیر ملکی دوروں پر سینکڑوں افراد کواپنے ساتھ لیکر جانا اپنی عزت سمجھتا تھا۔اگر ملک اسلام کے نام پر حاصل نہ کیا گیا ہوتا تو یقیناًذرائع ابلاغ میں سلام اور بسم اللہ کے بجائے اس نفس کا نام لیا جاتاگرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے چاروں اطراف سے اسے گھیرے رہتے اور یہ بھی ان کے رنگوں کا دیوانہ تھا لیکن یہ سب کاسب ایک دم فنا ہو گیا جاہ وجلال اور رعب ودبدبہ ایک دم فنا ہو گیا گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے افراد اسے چھوڑ گئے اور یہ واپس وہاں ہی آگیا جہاں کچھ عرصہ پہلے تھاذرائع ابلاغ میں اسکا نام تک ناپید ہو گیا گوکہ یہ زندوں میں شمار ہوتا ہے مگر اسکا شمار تو زندوں میں بھی نہیںرہا ۔عوام کے پاس بھی اس شخص کو قابل بحث بنانے کےلئے مواد موجود نہیں کیونکہ عوام کےلئے معلومات کا وسیلہ بننے والے اس شخص کو بھول بیٹھے ہیں اور عوام بھی اس شخص کو بھول کر ایک نئے رنگ میں رنگ چکی ہے کیونکہ عوام میں موجود گرگٹوں نے رنگینیاں پھیلا کر انہیں اپنے حصار میں جکڑا ہوا ہے ۔

یہی نفس چنددن پہلے ایک مسجد میں نماز کےلئے گیا تو وہاں یہ نفس عوام میں گھل مل گیا ایسا لگتاتھا کہ اس نفس جیسا عادل ، رحم دل ، خدا ترس اور نیک سیرت تو ہے ہی کوئی نہیں لیکن چندماہ پہلے تو یہ ایسا نہیں تھا پھر ایک دم ایسی تبدیلی آنا حیران کن امر ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ شخص بھی گرگٹوں کے زیر سایہ رہ کر گرگٹ ہی بن چکا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شخص ایسا ہی ہو کہ جیسا مسجد میں دکھائی دیا لیکن کچھ گرگٹوں نے اپنا مفاد حاصل کرنے کےلئے اسے عوام میں ایسا پیش کیا کہ یہ نہ عادل لگا ، نہ رحم دل ، نہ خدا ترس اور نہ ہی نیک سیرت ۔مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ گرگٹ بنا ،یا اسے گرگٹ بنایاگیا اجتماعی نقصان اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مسلمانان پاکستان کوہی ہوا۔بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک عام سی بات ہے مگر ایسا نہیں ہے ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 79430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.