ناکامی اور بزدلی کا نام ہے : خودکشی

آج کے دور میں خود کشی کی شرح حد سے سِوا بڑھ گئی ہے۔ پہلے کے مقابلے خودکشی کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ قرآن و احادیث کے روشنی مےں دیکھے تو یہ فعل حرام ہے جس کی سخت الفاظ میں پرُ زور مذمت کرنا چاہیے۔خودکشی جیسے نازیبا واقعات پر لگام لگانے کے لئے اس حقیر نے ادنا سی کوشش کی ہے۔

انسان خود کشی کیوں کرتا ہے؟ کیااسے خود کشی کرنا چاہیے؟ خود کشی کیوں کی جاتی ہے؟ فلاسفر کے یہاں اس موضوع پر دلچسپ بحث دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔ خودکشی جیسے معمولی الفاظ کا استعمال تو آج بہت تیزی سے ہو رہا ہے لیکن خودکشی کیوں عام ہو رہی ہے اس سوال کا جواب نہیں ملا۔ میرے خیال سے لوگ فیشن کی بنا پر خودکشی کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ کہ خودکشی مشکلات سے بھاگنے کا سستا اور آسان طریقہ ہے جسے لوگ تیزی سے اپنا رہے ہیں۔خودکشی کے بعد والدین معاشرے کو جواب دیتے دیتے تھک جاتے ہیں انجام سے لاپرواہ ہو کر انسان خودکشی کرتا ہے۔خودسوزی کے موضوع پر محقیقین اس طرح بحث کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
٭کانٹ کے خیال میں انسانی ذہن بارہ حصوں میں منقسم ہے۔
٭ ہیگل کے خیال میں ان کی تعداد 105 ہے۔
٭کانٹ کے خیال میں کوئی عقل مند خودکشی نہیں کرسکتا۔ (تو پھر کیا یہ مان لیا جائے کہ جتنے لوگوں نے ابھی تک خودکشی کی ہے وہ سب کے سب پاگل وبے وقوف ہیں۔)
٭ہیگل کے خیال میں خودکشی انسان ہی کرتے ہیں، جانور کبھی خود کشی نہیں کرتے۔
(کیا عہدِ حاضر کا انسان جانور سے بھی گیا گزرا ہو گیا ہے یا خودکشی کوئی قابل فخر کام ہے۔ عہد ِحاضر میں زندگی اتنی اذیت ناک کیوں ہوگئی ہے؟)

زندگی یقیناً اذیت ناک ہے، اس لیے کہ عہد حاضر کے انسان کی آرزوئیں اور تمنائیں حد سے سِوابڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ خواہشات کی فراوانی، مہنگائی کی بہتات، بے قابو جذبات یہ ساری وجوہات ہیں خودسوزی کی۔آخر کیوں ہم اپنی ضروریات پر قابو نہیں کر پاتے؟

کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے یہ سوچا ہے کہ ہم تمام لوگوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہمارے آس پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے، ہم اس کا تمام غلبہ کسی ایک شخص یا گھر پر ڈال دیتے ہیں، اور اپنے آپ کو ایسے بری الذمہ کر لیتے ہیں گویا ہم پر کچھ ذمہ داری عائد ہی نہیں ہوتی۔ ہمارا معاشرہ اور ہمارے ذہن بہت تیزی سے اس زہریلے مواد سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آج خودکشی کا جو ماحول رائج ہواہے اس کے ذمہ دار ہم بھی ہیں ہمیں بھی خودکشی کی اس شرح کو روکنے میں کامزن ہونا چاہیے۔

اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لینابچوں کا کھیل نظر آتا ہے۔ آجکل یہ بات بہت زیادہ دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے کہ لڑکی نے شادی سے انکار کر دیا، یا والدین نے ڈانٹ دیا، اساتذہ نے جھڑک دیا یا مارا پیٹا یا امتحان میں فیل ہو جانے پر بچے بچیاں اور دیگر افراد اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو ختم کر لیتے ہیں۔

خودکشی: مغرب کی کھوکھلی اور بے جان تہذیب ہے جس پر اس وقت کثرت سے عمل کیا جا رہا ہے۔جان لینا اور جان دینا عام بات ہو گئی ہے۔ہر شخص اپنی طاقت کے نشے میں چور دوسروں کو کمتر و حقیر سمجھنے لگتا ہے جس کی بنا پر انگلی کے ذرا سی حرکت کرنے پر جان لینے کا چلن اس وقت عروج پر ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگوں کا زندگی بسر کرنابہت دشوار ہوگیا ہے؟

سوئٹزرلینڈ، ناروے، سویڈن، جرمنی اس وقت عصری تاریخ کے ترقی یافتہ، امیر، سہولتوں سے آراستہ محدود آبادی کے حامل معاشرے یہیں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ خودکشی کی شرح انہی خطوں میں پائی جاتی ہے آخر کیوں؟ مادی ترقی کے معراج پر پہنچنے کے بعد بھی کیا خودسوزی جیسے موزی مرض کو اپنانے کی ضرورت ہے؟

ان ممالک میں جہاں آمدنی اور عیاشی سب سے زیادہ ہے۔ مغرب میں محبت، خاندان،رشتوں، روابط، مذہب، اقدار اور اخلاقیات کی موت کے باعث لوگوں کی زندگی بے معنی ہوچکی ہے۔نہ خاندان ، نہ ماں، نہ بیوی نہ بچے، آدمی کس کے لیے جیئے؟ کس کے لیے مرے؟ کس کے لیے قربانی دے؟ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ انسان خود کے لئے جیے اور اپنے لیے مرجائے۔

ہائیڈیگر کے الفاظ میں یہ 'فاتحانہ موت' آج مغرب کی پسندیدہ تہذیب ہے جسے تیزی سے مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔اور ہمارے ملک کے قابل لوگ اس پر عمل کرکے اپنی زندگی کو ختم کرکے اس حقیر تہذیب کو اپنا رہے ہیں۔

عہد ِحاضر کا سب سے بڑا فلسفی گلزڈلیوز Delluze) Gills )اس عہد کے مسائل پر سوچتے سوچتے پاگل ہوگیا اور وہ ان مسائل کا کوئی جواب نہ دے سکا تو اس نے اسپتال کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ اسے صدمہ ہے کہ انسان ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ باپ بیٹی ،ماں اور بیٹے کے رشتوں میں مساوات کے فلسفے کے باوجود ابھی تک احترام قائم ہے۔ یہ تعلقات ابھی تک مکمل ناپاک نہیں ہوئے۔جبکہ مغرب میں مساوات کے فلسفے کے باعث حقیقی خونی رشتوں میں جنسی جبر کی شکایتیں عام ہوتی جا رہی ہے۔تاریخ انسانی میں کبھی کسی فلسفی نے اس بےبسی کے ساتھ اپنی جان کانذرانہ پیش نہیں کیا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ”جدید مغربی تہذیب اس کی سائنس، ٹیکنالوجی او راس کے بطن سے پھوٹنے والے مسائل گلزڈلیوز کی خودکشی کا سبب ہیں۔“

سات ہزار سال کی تاریخ میں سترہ تہذیبوں میں جہاں کبھی خود کشی کی روایت نہیں رہی۔ خودکشی کے واقعات سے اب تو اخباروں کے پیج بھرے نظر آتے ہیں۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خود کشی کی جدید طرزِ زندگی عام ہورہی ہے۔ غربت، معیارِ زندگی کی آرزو ، خوابوں سے بھرپور عیش و عشرت سے لبریز زندگی، چکا چوند سے معمور ، زرق برق خوابناک طرزِ حیات جو صرف میڈیا پر دکھائی دیتا ہے، جدید ایجادات اور ان کی اشتہار بازی سے بے شمار مہلک دماغی، جسمانی اور روحانی امراض مسابقت کی دوڑ میں ناکامی کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ان مہلک امراض کے علاج اتنے مہنگے ہیں کہ زندگی بہ خوشی ہار دینا اور خود کشی کرلینا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ جو موت قسطوں میں لاکھوں روپے خرچ کرکے ملتی ہو، جس کے باعث خاندان، جائیداد، عزتیں اور عورتیں سب بک جاتی ہوں مگر مریض پھر بھی صحت مند نہ ہوتا ہو تو سب کے لیے خودکشی کے راستے آسان نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم آج بھی کسی مسئلہ کا حل تلاش کرتے ہیں تو سب سے آسان راستہ اختیار کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج کے دور میں خودکشی سب سے سستا اور سب سے آسان راستہ ہے ہر پریشانی و ہر مسئلہ کے حل کے لئے۔ اسی لئے آج خود کشی عام ہورہی ہے خواہ وہ دنیا کے غریب علاقے ہوں یا امیر خطے،
غریب شہر تو فاقے سے مرگیا ،
لیکن امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی
٭شاعر عارف شفیق

کسی کے پاس کھانے کو روٹی نہیں اور کسی کے پاس کھاکے مرنے کے لیے ہیرا ہے، آج کے دور میں خودکشی صرف غریب آدمی ہی نہیں کررہا ورنہ بڑے بڑے امرا کررہے ہیں۔ غریب آدمی غربت کی دلدل میں دھنسا بیچارا گھر چلانے میں ناکام حسرتوں سے اپنے بچوں کے چہروں پر نظر ڈالتا انکی مایوس اور سوالیہ نظروں سے شرمندہ ہو کر خودکشی کر رہا ہے۔ کم آمدنی کے سبب خاندانی لوگ اپنے گھروں کی عزت کی خاطر قوت برداشت کرکے خودکشی کے سستے اور آسان طریقے پر گامزن ہو رہے ہیں۔ بیوی اپنے پانچ بچوں کی پرورش کس طرح کرتی ہے یہ اس کا دل جانتا ہے یا پھر خدا جانتا ہے۔ مہنگی پڑھائی اور گھر والوں کی بیماری آزاری سب پر جان نیچھاور کرتے ہوئے یہ عورت حالات کا سامنا کرکے اپنا زیور اور قیمتی اشیا ءبیچ کر ہار چکی ہے جس سے اس گھر کی پریشانیاں دیکھی نہیں جا رہی ہے۔ شوہر کو حوصلہ دینے کے لئے اب تو کوئی قیمتی سامان بھی نہیں ہے اب ہمیں سب کے سامنے شرمندہ رہ کر زندگی جینا پڑے گی۔یہی نہیں اس پریشانی کا ابھی بھی ایک حل ہے خودکشی!

خاندانی رئیس جو اس زمانے میں صرف نام کے رئیس رہ گئے خاندان کی لاج و عزت کو قائم رکھنے کے لئے باہری دکھاوے کے لئے خودکشی کر رہے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک گروہ جو کھیل کھیل میں نادانی کر بیٹھتے ہیں جب انہیں اپنی اس حسین غلطی کا پتہ چلتا ہے تو سماج و معاشرے کا سامنا کرنے کے بجائے یہ لوگ خودکشی کا راستہ اپناتے ہیں۔

غربت پریشانی سے ہٹ کر اب بات کرتے ہیں۔ ماں باپ اور استاد کی سختیوں سے بچنے کے لئے بچے خودکشی کر رہیں ہیں۔کبھی آپنے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ ہمارے پھول جیسے بچے اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بچے کچھ غلط نہیں کر رہے رہیں ہیں ۔آج وہ جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں جس معاشرے میں زندگی بسر کر رہیں وہاں یہی تو طریقہ کار اپنا رہے ہیں لوگ۔ توپھر اس میں حرج ہی کیا ہے۔یہ ہماری لا علمی کی تعلیم کا اثر ہے جس پر یہ ننھے شجر عمل کر رہے ہیں۔

موجودہ وقت میں کشیدگی، پریشانی اور مصیبت جینے کا ایک حصہ بن چکی ہے۔آج ہر شخص پریشانی و کرب کے عالم میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ ان میں ایک گروہ کے افراد کشیدگی، مشکلات اور پریشانیوں سے لڑکر حالات کا ہمت سے سامنا کر کے زندگی جی رہے ہیں تو کچھ لوگ ہار کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔اب سوال یہ ہے زندگی دکھ اور پریشانی کا نام ہے ۔زندگی کا کوئی ایک بھی حصہ متعین نہیں ہے مثلاََ کوئی یہ کہے کہ ہم کو کبھی بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اس کا یہ کہنا ایکدم غلط ہوگا۔اور اگر کوئی یہ کہے کہ میری زندگی صرف غم و پریشانی میں گزری ہے تو وہ بھی جھوٹ کہہ رہا ہے۔ اس کی زندگی میں بھی خوشحالی کا دور آیا ہوگا جو اسے یاد نہیں یا وہ خدا کی وحدانیت سے انکار کر رہا ہے۔ زندگی کا نام ہے چلتے رہنا تو چلتے چلتے کبھی خوشی کا وقت آئے گا تو کبھی غم کا دور دورہ ہوگا۔

خود کشی کی بڑھتی شرح ایچ آئی وی۔ ایڈز اور کینسر سے بھی بھیانک اور لاعلاج بیماری ہے۔اس بیماری کا ماہرین طب دوا تو ابھی تک تیار نہیں کر سکے ہیں لیکن خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ضرور ہوا ہے۔ دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے۔ اگر صرف ہندوستان کی بات کریں، تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2010 ءمیں تقریباََ 1.87 لاکھ لوگوں نے خودکشی کی تھی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی سب سی بڑی وجہ معاشیاتی پریشانی ہے۔ ان افرادمیں زندگی گزارنے میں پریشانی، خاندانی خلفشار، سماجی اور اقتصادی مشکلات، دباؤ اور بیماری سمیت دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں۔لیکن کیا ہم انسانی زندگی کے اصولوں کو بھلا کر خود کشی جیسی بدنام اور مغربی تہذیب کو اپنا لینا ٹھیک کر رہے ہیں۔

کوئی بھی خود کشی کرنے والا راتوں رات اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ نوجوان تو اس کے لیے پہلے پلاننگ بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کچھ دن پہلے سے ہی ان جملوں کا استعمال کرنے لگتے ہیں جیسے : ’میں اب شکایت نہیں کروں گا‘ ،’ اب نہیں آؤں گا‘،’ میں چلا جاؤں گا‘، جیسے الفاظ کا استعمال کرکے درپیش ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔

حالانکہ یہ اشارہ ان کے ساتھ رہنے والے دوستوں یا رشتے داروں کے سامنے درپیش ہوتا ہے چونکہ اس وقت یہ لوگ ہونے والے واقعات سے بالکل انجان ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کی اس بات پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اگر ان کی باتوں کی طرف ذرا سا بھی دھیان دیا جاتا تو ممکن ہے کہ ہم لوگ ان کے خود کشی کے ارادے کو ملتوی کرنے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔نوجوانوں کا اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پانے کی وجہ سے بھی وہ خود کشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

خودکشی قرآن و حدیث کی نظر میں
مسئلہ کیا ہے۔ خودسوزی کی طرف اتنا رجحان کیونکر بڑھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ سورہ النساء آیت 28,29میں فرماتا ہے کہ :
”اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہےo“

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
” جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔“

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جو شخص اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی (ہمیشہ) اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔“

امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے کہ: ”خود کشی کرنا، چاہے کسی بھی طرح واقع ہوجائے گناہِ کبیرہ اور حرام ہے۔ جو عمداََ خود کشی کرے جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلتا رہے گا۔“

امام محمد باقر ؑ سے روایت ہے: ”مومن شخص ہر بلا میں مبتلا ہوتا ہے اور ہر صورت سے ممکن ہے مرجائے لیکن کبھی بھی خود کشی نھیں کرے گا۔“

”پس اگر کوئی شخص کسی بھی مقصد سے خود کشی کرے ، اس نے بڑا گناہ انجام دیا ہے اور آخرت میں وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔“

” جو بھی دھمکی دینے کیلئے خود کشی کرے گا جبکہ اس کا مقصد موت نھیں ہے۔ اس کا حکم اس طرح ہے ۔“

ایک اور جگہ پر نبی کریم نے فرمایا : ”جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔“

مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے خود کشی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی سنگینی اور اس مذموم حرکت کے خلاف اسلام کتنی سخت مذمت کرتا ہے، اس فاتحانہ موت کا جڑ سے خاتمہ ہونا چاہیے۔اس کی ذمہ داری ہم پر،آپ پر بلکہ سب پر عائد ہوتی ہے ۔ہم خود کشی کرنے کی جس حد تک ہو سکے اس حد تک حوصلہ شکنی کریں، اور اس مذموم حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کو جتنے برے الفاظ میں ہو سکے یاد کریں، کیونکہ یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کی مذمت تمام کائنات کی کل مخلوقات کے محسن، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، اور جو عناصر ایسی مذموم حرکات کرنے والوں کی پذیرائی کرتے ہیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر بار بار بتاتے اور پھولوں کے ہار پہنا کر پیش کرتے ہیں، ان تمام عناصر کی اپنے طور پر حوصلہ شکنی، اور ان کے سد باب کی سعی کریں۔

خودکشی کیوں نہیں کرنا چاہیے؟
قرآن و حدیث کا حوالہ دے کر ہم نے خودسوزی جیسی ممنوع و حرام حرکت پر اللہ رسول و آئمہ نے پر زور مذمت کو عیاں کرکے آپ سب کو سمجھانے کی کچھ حد تک کوشش کی ہے۔یقین جانیے زندگی میں کچھ مواقع ایسے درپیش آتے ہیں جہاں پر مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے جبکہ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ اللہ بہت بڑا ہے اس کی مصلحت جان کر خودسوزی جیسے حرام کام کو اپنانے سے پرہیز کرے۔ ہم سب اللہ اور بھگوان کے ماننے والے ہیں۔ قرآنی تعلیمات کی اگر بات کرے تو اللہ بندے کی صلاحیت کے حساب سے اس سے کام لیتا ہے آسان لفظوں میں کہتے چلے کہ جتنی انسان میں قوت برداشت ہوتی ہے اتنا ہی انسان پر دکھ و پریشانی میں مبتلا کرکے امتحان لیتا ہے یعنی خدا نے ہمیں اس قابل سمجھا جو اس نے ہم کو امتحان کے قابل سمجھا ۔درسی امتحانات میں بھی ہمیں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیا ہم خودکشی کر لیتے ہیں نہیں ۔ ہم آخرت کی پرواہ کیے بنا دنیاوی پریشانیوں کو اہمیت دے دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقی صفر ہمارا اس دنیا سے کوچ کرنے کے بعد شروع ہوگا۔ ہم یہاں تو آسان اور اچھے راستے اختیار کرتے ہیں۔زندگی کی ساری سہولیت حاصل کرنے میں خود کو سرف کر دیتے ہیں۔جبکہ یہاں کتنی مدت تک ٹھرنا ہے اس کا ہمیں ذرا بھی پتہ نہیں ۔ جہاں ہمیں قیامت تک رکنا ہے جب تک دنیا فنا نہیں ہو جاتی اس وقت تک وہاں رکنا ہے اپنے اعمال کا حساب و کتا ب دینا ہے ۔اصل زندگی وہ ہے جسکی پرواہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے۔اگر ہم میں سے کسی ایک کا بھی خودکشی کا ارادہ ہو تو برائے مہربانی اللہ سے نذدیک ہو کر اس حرام حرکت سے پرہیز کرے۔اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور کل انسانیت کو اس مذموم حرکت سے باز رکھے۔
saleha
About the Author: saleha Read More Articles by saleha: 2 Articles with 3149 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.