سردیوں کی رات میں تیز ہوا سے ڈر
تے ہوئے ایک بچے نے اپنی ماں سے کہا : ” ماں ۔ مجھے اُس عظیم انقلاب کی
کہانی سناﺅ ناں !“ ماں شفقت سے مُسکرائی اور بولی : ” بیٹا ۔ وہ کہانی تو
میں کئی بار سنا چکی ہوں ۔ بلکہ شاید اب تک تو اُس کہانی کا بہت سا حصّہ تم
کو زبانی یاد بھی ہو گیا ہو گا ۔ “ بچّے نے ضد پکڑ لی اور بولا : ” بس ۔
تھوڑی سنا دو ماں ۔ مجھے وہ کہانی بے حد پسند ہے ۔“
کہتے ہیں ماں میں خالق کا عکس ہر وقت محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ ماں کا غصّہ
دوزخ اور ماں کا پیار جنت !
بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا
اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھوا
خیر ۔ اُس بچّے کی ماں ہنسی اور بولی : ”اچھا بیٹا ۔ سناتی ہوں۔ یہ بتاﺅ کہ
تمہیں یاد ہے کہانی کیسے شروع ہوتی تھی ؟“
بچّہ فوراً بولا : ” ایک زمانہ تھا جب اندھیرا بڑھتا جاتا تھا اور لوگ بہت
بُری طرح حاکمِ وقت کی ظلم کی چکّی میں پِس رہے تھے “۔ ماں نے کہانی شروع
کی :” ہاں بیٹا۔ لوگ ظلم کی چکّی میں پِسے جا رہے تھے اور کسی میں ہمت نہ
تھی کہ آواز اٹھاتا ۔ جو حکومت میں تھے وہ ازحد ر اشی تھے۔ اُن کی لالچ نے
ساری قوم کو ایک گہرے ڈپریشن میں مبتلا کر دیا تھا ۔ نا انصافی کا دور دورہ
تھا ، عوام الناس مجروح النفس تھے اور ایک عظیم قوم ۔۔ایک بھیڑ بکریوں کے
ریوڑ سے بدتر ہو چکی تھی ۔ لیکن ۔ اندر ہی اندر ایک ہلچل تھی۔ دلوں کی
ہلچل۔ دھیرے دھیرے وہ ہلچل سرگوشی بنتی جا رہی تھی۔ اور سرگوشی دھاڑ میں
بدلنے والی تھی“
”ایسا کیوں ہوا ۔ ماں ۔ اتنے خراب حالات میں یہ ہلچل کیسے پیدا ہوئی ؟“
بیٹا بولا ۔ ماں نے کہا :” یہ ٹھیک ہے کہ اُن لوگوں نے اپنے کھیتوں میں
باطل کے بیج بو لئے تھے ۔ آنکھوں میں نیستی کا سُرما لگا لیا تھا ۔ اور وہ
غفلت کے مضبوط محلوں میں سو گئے تھے ۔ لیکن اُن کے لاشعور میں کہیں وہ
واقعہ بھی تھا کہ موسیٰ جنگ میں ایک لاٹھی لے کر گیا تھا جس کو اُس نے
فرعون اور اس کے جادوگروں کے سامنے پھینک دیا تھا اور حکمِ الہٰی سے وہ
لاٹھی فرعون اور اسکے ساتھیوں کے لئے اژدھا بن گئی تھی۔ وہ بھول نہیں پائے
تھے کہ ابراہیم کا غلام اپنے مالک کی شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنے اونٹوں
پہ ریت لاد کر لایا تھا۔ جو ابراہیم کے مہمانوں کے لئے آٹا بن گئی تھی“
”پھر کیا ہوا “ ۔ بیٹا بولا ۔ ”ہاں بیٹا ۔ وہ سارے لوگ جانتے تھے کہ ان کے
رہنما اُن کو ناکام قوم ثابت کر دیں گے۔ لہٰذا اُن کو خود ہی تبدیلی لانے
کے لئے کچھ کر نا پڑے گا ۔ برسوں سے اُن کے رہنما اُن کی کوششوں کو ناکام
بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہے تھے“ماں نے کہانی جاری رکھی ۔ ” وہ سب
اکٹھا ہو رہے تھے۔ اختلافات کے ساتھ ساتھ۔ بیک آواز ہو کر۔ ایک مقصد کے
حصول کے لئے۔ وہ کہہ رہے تھے :
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
ہم دیکھیں گے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاﺅں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اہل صفا ، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے“
بچے بھی عجیب ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی رَجز کو بھی لوری سمجھ کے سو جاتے ہیں ۔
وہ بچّہ بھی فیض احمد فیض کی انقلابی نظم سننے کے بعد جاگنے کے بجائے سو
گیا۔۔ یہ کہانی وہ بچّہ یہیں تک سُن پاتا تھا اور سو جاتا تھا۔ پھر کسی دن
شروع سے کہانی شروع ہوتی تھی ۔ تقریباً یہیں تک پہنچتی تھی ۔ پھر بچّہ سو
جاتا تھا ۔۔
اجتماعیت نقطہ نظر سے قوم بھی شائد بچّے کی طرح ( معصوم اور جلدی بہل جانے
والی) ہوتی ہے۔ ظلم کی چکّی میں پِستی رہتی ہے ۔ پِستی رہتی ہے۔ پھر کسی
جلسے میں کوئی نعرہ لگتا ہے ۔ کوئی نظم پڑھتا ہے ۔(میں نہیں مانتا۔ میں
نہیں جانتا۔۔) کوئی گانا چلتا ہے ( ہم ملک بچانے نکلے ہیں۔۔)
۔۔۔ سب جاگ جاتے ہیں ۔ اکٹھا ہو جاتے ہیں ۔سب کو ٹھیک کر دینے کے نعرے لگتے
ہیں۔ رہنما 90 دنوں میں مدتوں کی برائیاں ختم کر دینے کے دعوے کر دیتے ہیں۔
لوگ پھر کسی نعرے کو ۔ کسی گانے کو۔ لوری سمجھنے لگتے ہیں ۔۔
اور۔۔
مطمئن ہو کر سو جاتے ہیں ۔
میں بھی اب سوتا ہوں۔ |