رہائشی علاقوں میں کمرشل بلڈنگز او ر غیر قانونی ہاسٹلز

اظہار آزادی کا راگ الاپنے والے ٹی وی چینل/اخبارات اور ان سے وابستہ صحافی کہاں سوئے ہوئے ہیں انہیں رہائشی علاقوں میں بننے والی کمرشل اداروں کا پتہ ہی نہیں یا انہیں بھی سرکاری افسران کی طرح " حرام " کا کچھ نہ کچھ مل رہا ہے جس کی وجہ سے یہ بھی خاموش بیٹھے ہیں یہ ایک لمبے خط کا ایک حصہ ہے جو میں شیئر کررہا ہوں یہ ایک طالبہ نے لکھا ہے جس میں اس نے اپنے ساتھ ہونیوالے واقعات کی نشاندہی کی ہے-خط میں طالبہ نے فقیر آباد کے رہائشی علاقے میں قائم ہونیوالے غیر قانونی ہاسٹل کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے -بقول اس طالبہ کے وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ افغان کالونی سے ہوتے ہوئے اسی راستے پر اپنے کالج جاتی ہیں جہاں پر ہاسٹل قائم ہیں صبح اور دوپہر کے اوقات میں ان ہاسٹلز میں رہائش پذیر لڑکے ان طالبات کو چھیڑتے ہیں اور ان پر آوازیں کستے ہیں-خط میں طالبہ نے لکھا ہے کہ ہمیں اپنے خاندان والے تعلیم کیلئے سپورٹ کررہے ہیں لیکن راستے میں واقع ان ہاسٹل کے لڑکے انکی زندگی حرام کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ مجبورہو کر خط لکھ رہی ہیں- اس وقت ٹاؤن ون کے مختلف علاقوں بشمول فقیر آباد دلہ زاک روڈ سمیت ٹائون ٹو کنٹونمنٹ بورڈ کے گنجان علاقے گلبرگ و سپر مارکیٹ اور ٹائون تھری کے علاقوں یونیورسٹی ٹائون میں رہائشی علاقوں میں غیر قانونی طور پر کمرشل بلڈنگ اور خصوصا ہاسٹلز کی تعمیر ات کا سلسلہ شروع ہے مختلف کالجز کی انتظامیہ نے یا تو اپنے طلباء کے قیام کیلئے ان ہاسٹلز کو تعمیر کیا ہے یا پھر انہوں نے رہائشی علاقوں میں لوگوں کے گھروں کو کرائے پر لیکر ہاسٹل میں تبدیل کردیا ہے رہائشی علاقوں میں ہونے کی وجہ سے ان ہاسٹل کے بجلی گیس کے بل کمرشل کے بجائے گھریلو صارفین کی مد میں وصول کئے جارہے ہیں لیکن ان ہاسٹلوں کی وجہ سے رہائشی علاقوں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ کالجز میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے یہ طلباء رات گئے تک ان ہاسٹلوں میں غل غپاڑہ مچاتے ہیں ٹیپ ریکارڈ بجاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نزدیکی رہائش رکھنے والے افراد کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے صبح اور دوپہر کے اوقات میں ان ہاسٹلوں میں رہائش پذیر برائے نام طلباء نہ صرف طالبات کے پیچھے آوازیں کستے ہیں بلکہ انہیں تنگ کرتے ہیں اسی وجہ مختلف مقامات پر جھگڑے بھی ہوئے ہیں -زیادہ تر طالبات ڈر کی وجہ سے اپنے گھر والوں کو اس بارے میں بات نہیں کرتی کہ خدانخواستہ انہیں کوئی مسئلہ نہ بنے یا پھر ان کے گھر والے انہیں کالجز سکول بھیجنے سے انکار ہی نہ کردیں کیونکہ اگر اس طرح ان کے والدین بھائیوں کو پتہ چلے گا تو پھر ان کیلئے مسئلہ بنے گا- اسی طرح کا ایک خط ٹائون کے رہائشی لوگوں نے بھی بھیجا ہے جس میں ان لوگوں نے لکھا ہے کہ "ہم سینئر وزیر کی عملداری میں رہتے ہوئے اس کے ڈر اور خوف کی وجہ سے بے بس ڈرپوک اور حتی کے بے غیرت لوگ بن چکے ہیں ہیں اور اپنی شرافت/ بزدلی کی وجہ سے کچھ کرنہیں سکتے ان شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ کونسا قانون ہے کہ رہائشی علاقوں میں کثیر المنزلہ کمرشل عمارتیں کالجز تعمیر کئے جائیں جس سے نہ صرف چلنے والے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہو بلکہ نزدیکی رہائش پذیر لوگوں کے گھروں کی بے پردگی بھی ہولیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو-کیونکہ ان کو بنانے والوں کی "اپروچ"اوپر تک ہے-

ان دونوں خطوط سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہماری "لال ٹین والی سرکار" نے کیسی آنکھیں بند کر رکھی ہیں"ملالہ" کے ڈرامے پر" ملال" کرنے والے حکمران تعلیم کے فروغ کیلئے دعوے تو بہت کررہے ہیں اورطالبات کو روکنے کو اسلام دشمنی اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے اور گردانتے ہیں لیکن جن طالبات کو روزانہ اسی صورتحال کا سامنا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے کیا ان طالبات کو تنگ کرنے والے بھی "طالبان "ہے -رہائشی علاقوں میں کمرشل بلڈنگ کی تعمیر کی اجازت کس نے دی اس کا ذمہ دار کون ہے یہ وہ سوال ہے جو اس شہری کے رہائشی کررہے ہیں- مختلف رہائشی علاقوں میں کمرشل بلڈنگز کی تعمیر کا سلسلہ بلدیاتی نظام کے دور میں شروع ہوا جس میں بہت سارے ناظمین نے "اپنا حصہ" بھی بقدر" جثہ" وصول کیا اس میں " لال ٹین والی سرکار" کے ناظمین سمیت "اللہ رسول کے نام پر دکانداری کرنے والے اور کتاب "کو "قرآن " کہلوانے بھی شامل ہیں جن میں کچھ کا تعلق تو قبضہ مافیا سے بھی ہے ان ناظمین کی آنکھیں بند اور "اپنا حصہ وصول "کرنے کی وجہ سے آج یہ صورتحال ہے کہ یونیورسٹی ٹائون کے علاقے سے بھی لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں علاقہ چھوڑ کر جانیوالے افراد کے بقول انہیں اپنی عزت عزیز ہے اگر کسی لوفر لفنگے نے ان کی ماں بہن بیٹی پر آواز کس دی یا کچھ کہہ دیا تو پھرجھگڑے / مسائل پیدا ہونگے اور انہی مسائل سے بچنے کیلئے سالوں سے مقیم شہری یہ پوش علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف نکل رہے ہیں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے منہ سے موجودہ " لال ٹین والی سرکار کے کچھ سینئر لوگوں" کیلئے ہم نے جو پشتو میں روایتی گالیاں سنی وہ لکھی نہیں جاسکتی ورنہ دل تو کررہا ہے کہ ان متاثرہ افراد کے دلوں کا حال اور "سرکار "کی شان میں نکلنے والی مغلظات لکھ دو شائد کسی کو "غیرت " آ ہی جائے-لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ " عوامی حکمرانی"کے دعویداروں کی غیرت مجھ جیسے" ٹٹ پونجئے" کو مشکل میں ڈال سکتی ہے-سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ کمرشل علاقوں میں بننے والی ان بلڈنگز/ہاسٹلز میں مختلف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے سرمایہ کاری کی ہے انہوں نے باقاعدہ اپنے کاروبارکو محفوظ رکھنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر بھونکنے والے "غنڈے"بھی پال رکھے ہیں جوان ہاسٹل /بلڈنگ کے حوالے سے بات کرنے والوں کو "آنکھیں بھی دکھاتے ہیں"چونکہ مختلف تھانوں کی حدود میں ہونے کی وجہ سے " ڈنڈے والی سرکار" کو ماہوار "بھتہ " ملتا ہے اس لئے ان لوگوں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ ان کے علاقوں میں قائم ان غیر قانونی ہاسٹلز/ بلڈنگز میں غیر قانونی اسلحہ کتناپڑا ہے یہاں پر طلباء کے نام پر رہائش رکھنے والے لوگ"کہاں"سے آئے ہیں اور کس قسم کی سرگرمیوں میں یہ ملوث ہیں ان ہاسٹلز/بلڈنگز کے آگے پڑی "بوتلیں"کس قسم کی ہیں-انہیں "ماہواری"مل رہی ہے عوام بے چارے جائے بھاڑ میں ان کا کام تو ویسے بھی روتے ہی رہنا ہے اور اگر کسی نوجوان کو زیادہ ہی گرم خون آگیا تو پھر ان کے علاج کیلئے ان کے پاس ویسے بھی "ڈنڈا"تو موجود ہے- گذشتہ ایک سال کی ان علاقوں میں جہاں پر رہائشی ہاسٹلز/بلڈنگز میںہونیوالے چوریوں فائرنگ رہزنیوںکے واقعات کو شمار کیا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان بلڈنگز/ہاسٹلز کے قیام میں کس کو "فائدہ "ہے -ماہانہ بھتہ لینے والے ضلعی انتظامیہ کے چھوٹے اور بڑے "حرام خوروں"سمیت ان معاملات پر آنکھیں بند کرنے والے یہ بات شائد بھول گئے ہیں کہ "دنیا گول ہے"جو عمل آج کسی اور کیساتھ ہورہا ہے کل ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اس وقت یہ لوگ کیاکرینگے لیکن وہ بقول ایک صحافی دوست کے 'میراثیوں"پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 426752 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More