(گزشتہ سے پیوستہ) جموں و کشمیر
ہائی کورٹ کے فاضل جج حسنین مسعودی نے اپیل محمد نسیم بھٹ بنام بلقیس اختر
میں نصوص شرعیہ لے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نے اپنی بیوی کو
طلاق دینے کا جو اختیار اس کے شوہر کو دیا ہے وہ ’ مطلق ‘ (absolute) نہیں
ہے۔اپنے فیصلے کے آغاز میں لائق جج نے اسلام میں عقد نکاح کی حقیقت بیان کی
ہے اور پھر طلاق کے طریقوں کا ذکرکیا ہے اور کہا ہے کہ طلاق احسن ہی وہ
طریقہ ہے جس کو قرآن سے سند جواز approval حاصل ہے۔طلاق احسن اور حسن دونوں
رجعی ہیں۔ان میں یہ گنجائش رہتی ہے کہ ایک مقررہ مدت میںمرد اپنے فیصلے پر
نظر ثانی کرلے اور چاہے توبیوی سے رجوع کرلے تاکہ خاندان ٹوٹنے سے بچا رہے۔
یہ ذکرپہلی قسط میں آچکا ہے۔ اس کے بعد جسٹس حسنین مسعودی نے ان شرائط کا
احاطہ کیا ہے جن کی پابندی قرآن اور سنت کی رو سے کی جانی چاہئے۔ لکھتے ہیں:
طلاق غیر رجعی کی صورت میں ، جس میں شوہر دو مرتبہ یعنی لگاتار دو طہر کے
دوران طلاق دیتا ہے اوراس کے بعد بیوی کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے یا
تیسری مرتبہ طلاق دیدیتا ہے یعنی تین طلاق دیتا ہے یا طلاق کا کوئی اور
طریقہ اختیار کرکے طلاق غیر رجعی نافذ کرنے کا عندیہ ظاہر کرتا ہے تو ایسی
صورت میں وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا ۔ قرآن پاک سورہ البقرہ کی
آیت 230میں کہتا ہے: اگر (دوبار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری
بار) طلاق دے دی تو پھر وہ اس کےلئے حلال نہ ہوگی ،الا یہ کہ اس کا نکاح
کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے۔تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت
دونوں یہ خیال کریں کہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدودپر قائم رہیں گے تو ان
کےلئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں“ طلاق احسن کی
صورت میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔لیکن کیونکہ طلاق بدعی کا طریقہ سب سے
زیادہ استعمال ہوتا ہے ، بحث اسی طریقہ طلاق تک محدود رہیگی۔
اگرچہ اسلام اس امکان کو نظر میںرکھتا ہے کہ زوجین کے درمیان ناقابل عبور
وجوہ سے کوئی ایسی صورت پیدا ہوسکتی ہے جس میں رشتہ مناکحت خطرے میں پڑ
جائے ، چنانچہ وہ ایسی ناگزیرصورت میں فسخ نکاح کےلئے ایک متعین طریقہ
کارتجویز کرتا ہے لیکن اس میں بھی شادی کو بچانے کی ہرممکن تدبیر پر زور
دیتا ہے۔چنانچہ اسلام چاہتا ہے کہ فریقین یہ سمجھیں کہ شادی کا تانہ
باناباہم انس و محبت، وفاشعاری، فکر مندی، باہم سمجھ بوجھ اور رعایت پر
قائم ہے اور اختلافات کو انہی اصولوں کے تحت دور کیا جانا چاہئے۔طلاق کا
راستہ صرف اسی صورت میں اختیار کیا جانا چاہئے جب تعلق اس حد تک ٹوٹ گیا ہو
کہ کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہ ہو اور صورت یہ پیدا ہوگئی ہو کہ فریقین اور
معاشرے کے مفاد میں یہی ہو کہ ان میں علحدگی کرادی جائے تاکہ وہ دونوں نئی
زندگی شروع کرسکیں۔ اس میں بھی فریقین، خاندان اور سماج کا بھلا ہی پیش نظر
ہے۔دوسرے لفظوں میں اسلام اس وقت تک طلاق کے سخت خلاف ہے جب تک علیحدگی کے
سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا ہو۔
طلاق سے متعلق قرآن کے احکامات اور سنت رسول کے مطالعہ سے یہ بات خوب واضح
ہوجاتی ہے کہ اسلامی شریعت میں طلاق کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور یہ کوشش
کی گئی ہے کہ شوہر کے طلاق دینے کے عمل کو مشکل اور طویل بنایا جائے۔دوسری
طرف فریقین کے درمیان شکوے و شکایات کو دورکرنے اوران میں صلح صفائی کی
ہرممکن تدبیر اختیار کی گئی ہے۔ سورہ الطلاق (65)کی آیت ایک اور دو میں (جن
کا ذکر بعد میں آئیگا) طلاق پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیںاوریہ یقینی
بنایا گیا ہے کہ ایسی صورت پیدا کی جائے جس سے میاں اور بیوی کے درمیان
ہمواری پیدا ہوسکے۔ چنانچہ(ایک یا دو) طلاق کے باوجود بیوی کو اسی گھر میں
رہنا ہے۔ شوہر کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کو گھر سے نہ نکالا جائے تاکہ وہ
شوہر کے سامنے رہے کہ ممکن ہے اس کو رغبت پیداہو اوروہ اپنے فیصلے پر
مکررغور کرکے بیوی سے رجوع کرلے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ” جبرائیلؑ نے بیوی کے اتنے حقوق مجھے بتائے اور
اس حد تک تلقین کی کہ میں یہ سمجھا ہوں بجز زانیہ، بیوی کو طلاق نہ دی
جائے۔ “امام جعفر صادقؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے نزدیک اس گھر سے اچھا کوئی
گھر نہیں جس میں زوجین میں اتفاق و محبت ہو، اور اس سے بدتر کوئی گھر
نہیں،جس پر اللہ کا غضب نازل ہو جس میں عقد نکاح کو طلاق سے کاٹ دیا جائے۔“
امام صادق ؓ فرماتے ہیں، ” قرآن میں طلاق کا ذکر کئی جگہ آیا ہے اور یہ کہ
طلاق کی تفصیلات کے بیان کے اس قدراہتمام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر
قرآن پاک میں کتنی اہمیت دی گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے اللہ طلاق کا دشمن ہے۔
“ ”المکارم الاخلاق“ © میں طبرسی ؒنے ایک حدیث نقل کی ہے،” نکاح کرو مگر
طلاق مت دو، طلاق سے عرش الٰہی کانپ اٹھتا ہے۔“ ابو داﺅد، کتاب السنہ
میںایک دوسری حدیث میں منقول ہے،’ ’حلال چیزوں میں اللہ کی نظر میں طلاق سے
زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز نہیں۔“اورحضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں ” جو
شخص بار بار طلاق دیتا ہے وہ اللہ کی نظر میں دشمن ہے“۔ جلال الدین رومیؒ
نے ایک حدیث نبوی کے حوالے سے لکھا ہے، ” جہاں تک ہوسکے طلاق سے بچو، طلاق
میری نظر میںسب سے ناپسندیدہ عمل ہے۔“
ایک مرتبہ نبی کریم کو اطلاع ملی کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ اپنی اہلیہ ُام
ایوب کو طلاق دینے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ طلاق کی کوئی
معقول وجہ نہیں، تو آپ نے فرمایا،”بیشک اُم ایوب کی طلاق ایک بڑا گناہ
ہے۔“چنانچہ طلاق دینے کے حق یا اختیار کا استعمال بلا جواز حقیقی یونہی غصہ
میں یا من چاہے نہیں ہونا چاہئے۔
مسلم شادی او ر طلاق اور خاندانی معاملات سے متعلق شرعی ماخذات، قرآن اور
سنت کے اس سرسری مطالعہ سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ شریعت نے شوہر کو طلاق کا
حق تو دیا ہے مگر یہ حق قطعی، بلا جواز اور غیر مشروط نہیں ہے۔ اس نظریہ کی
مزید توثیق سورہ نساءکی آیت35سے ہوتی ہے۔ ”اور اگرتم لوگوں کو کہیں میاں
اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں
میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میںسے مقرر کردو، وہ دونوں اصلاح کرنا
چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ
جانتا ہے اور باخبر ہے۔“(۴:35)
چنانچہ قرآن حکم دیتا ہے کہ جب بھی زوجین کے درمیان غصہ گرمی یا ناچاقی ہو
توایسا نہیں ہونا چاہئے کہ مرد طلاق کا حق استعمال کرکے شادی کے اس بندھن
کو توڑڈالے جس میں کچھ ناہمواری پید ا ہو گئی ہے۔ اس تنازعہ کے حل کا پہلا
قدم قرآن یہ بتاتا ہے کہ ایک حَکَم شوہر کے خاندان سے اور دوسرا بیوی کے
خاندان سے مقرر کیا جائے اور ان کو اتنی مہلت دی جائے کہ وہ تنازعہ کے حل
کی ہرممکن کوشش کرسکیں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ دیں۔ اور امید یہ کی جاتی
ہے کہ حَکَم جو بھی فیصلہ دیں گے ،اس کو دونوں فریق قبول کریںگے۔ یہ اہم
بات قابل غور ہے کہ قرآن نے’ حَکَم ‘ (arbiter) کا لفظ استعمال کیا ہے ،
ثالث (mediator) کا نہیں۔ چنانچہ ان کو محض ثالثی ہی نہیں کرنی ہے بلکہ
تنازعہ کو حل کرنے کےلئے بصورت منصف حُکم بھی صادر کرنا ہے اور یہ امید کی
گئی ہے فریقین ان کے حکم پر عمل کریں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ حَکَم کی تقرری
کے حکم کے ساتھ(اگلی آیت میں) ہی قرآن نے یاد دلا دیا ہے، ”اللہ کسی ایسے
شخص کو پسند نہیںکرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو، اور اپنی بڑائی پر فخر
کرتا ہو “ ( النساء: ۶۳)یہ اس بات کی تلقین ہے کہ فریقین سرکشی اور خودسری
اختیار نہ کریں اور اس فیصلے یا مشورے پر عمل کریں جو حکم دیں۔ (مغروریت
اور تکبر کی روش پر اس اظہار ناپسندیدگی ساتھ اسی آیت مبارکہ (63) کے
ابتدائی حصہ میں یہ حکیمانہ نصیحت بھی فرمائی گئی ہے: ”اللہ کا کہا مانو،
اس کے (حکم کے )ساتھ کسی اور (کے حکم کو ) شریک نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ
بھلا برتاﺅ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو
اور پڑوسی رشتہ دار، اجنبی ، ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی سے اور مسافر سے، ان
عورتوں مردوں سے جو تمہارے قبضے میں ہیں احسان کا معاملہ رکھو۔“اس تلقین کی
روشنی میں جو عورت نکاح میں آئی اور جس نے برضا و رغبت خود کو مرد کے حوالے
کیا، بدرجہ ہا حسن سلوک کے حقدار ہے۔ مترجم)
قرآن حکم دیتا ہے: ” اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی
مدت کےلئے طلاق دیا کرو، اور عدت کے زمانے کو ٹھیک سے شمار کرو، اور اللہ
سے ڈرو جو تمہارا رب ہے (زمانہ عدت میں )نہ تم ان کو گھروں سے نکالو اور نہ
وہ خود نکلیں، الا یہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقررر کی
ہوئی حدیں ہیں اور جوکوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے اوپر خود
ظلم کریگا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا
کردے۔ پھر جب وہ اپنی (عدت کی ) مدّت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا تو انہیں
بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں ) روکے رکھو یا بھلے طریقے پر ان سے جدا
ہوجاﺅ ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں۔ اور
گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کےلئے ادا کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت
کی جاتی ہے ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جو کوئی اللہ
سے ڈرتے ہوئے کام کریگا، اللہ اس کےلئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا
کردیگا اوراسے ایسے راستے سے رزق (سامان زندگی، آسائش )دیگا ،جدھر اس کا
گمان بھی نہ جاتا ہو۔ (36: ۱، ۲ )
سورہ طلاق کی یہ ابتدائی آیات طلاق کے اختیار پر کچھ پابندیاں عاید کرتی
ہیں۔ان آیات کے بموجب مرد کے پاس طلاق کی معقول وجہ ہونی چاہئے۔ مقررہ مدت
(طہر) میںہی طلاق دینی ہے اور اس کا اعلان ایام ماہواری کے بعد قبل اس کے
کہ اس سے ہم بستر ہوا ہو، کیا جائےگا۔ اگر اس مدت طہرمیں ہم بستری ہو گئی
تو مرد کوطلاق کےلئے عورت کے آئندہ ماہواری سے فراغت کا انتظار کرنا
ہوگا۔ایک شرط یہ ہے کہ طلاق دو انصاف پسند خدا ترس گواہوں کی موجودگی میں
دی جائی گی۔ قرآن اور سنت نے جو طریقہ مقرر کردیا ہے ،اس سے تجاوز یا
اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ طلاق احسن ہے۔ سورہ طلاق کی محولہ بالا
آیات میں اور قرآن اور سنت میں جہاں کہیں بھی طلاق کا ذکر ہے ، وہ طلاق
احسن ہی ہے۔ اس رائے پر پہنچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ طلاق کے سب سے زیادہ
منظور شدہ (approved) طریقہ کار میں مذکور شرائط کو طلاق کی انتہائی نا
پسندیدہ اور مذموم قسم طلاق بدعی پر نافذ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس رائے کے
برخلاف طلاق بدعی پر شرائط مذکورہ بالا کا سختی سے نفاذ مطلوب ہے۔ (جاری)
اس کے بعد جسٹس مسعودی نے طلاق کےلئے تمام شرائط کو متعین طور سے گنوادیا
ہے اور صدر اول کے چند واقعات سے استدلال کرکے ان شرائط کو قانونی شکل دی
ہے جن کو پورا کرنا معزز عدالت کی رائے سے طلاق کے قابل قبول ہونے کےلئے
ضروری ہے۔ اگر یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ ان شرائط کو بالائے طاق رکھ کر طلاق
کا فیصلہ کیا جائے تو یہ قرآن اور سنت کی روح سے میل نہیں کھاتا۔ اس حصے کا
احاطہ مختصر تبصرے کے ساتھ اگلی قسط میں کیا جائے گا، جس پر یہ سلسلہ ختم
ہوجائیگا۔ |