لڑکیاں رحمت ہیں انہیں زحمت نہ سمجھیں

آغا ز اسلام اور حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے عرب اور غیر عرب ملکوں میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی حتیٰ کہ بے جان چیزوں کی طرح انہیں خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ انہیں قتل کردینا ان کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنا کوئی گناہ اور زیادتی سمجھا نہ جاتا تھا۔ معاشرے میں نہ ہی ان کی کوئی عزت تھی اور نہ ہی ان کو وراثت میں حصہ ملتا تھا۔شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کے بیٹے کی ملکیت سمجھی جاتی۔ اگر عورت خوبصورت و جوان ہو تو مرحوم کا بیٹا اسے اپنے پاس رکھتا ورنہ اسے دوسروں کے ہاتھوں بیچ دیا جاتا۔ معاشرہ عورت کو جنسی آگ بجھانے کا محض ذریعہ اور گناہ کی پیداوار سمجھا جاتا تھا۔ عورت پر ظلم وزیادتی کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوجاتا تھاجب وہ پیدا ہوتی اور بالکل چھوٹی بچی ہوتی تھی۔ عرب کے کئی قبائل میں یہ بُری رسم عام تھی کہ بچی کے پیدا ہونے کے بعد اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اہل عرب بچیوں کو انتہائی حقارت اور نفرت کے نظر سے دیکھتے تھے۔ شقاوت او ربدبختی کی حد یہ تھی کہ وہ انہیں زندہ رکھنے کے حق میں بھی نہ تھے بلکہ فخر یہ اپنی بیٹیوں کو زندہ قبر میں دفنا دیا کرتے تھے۔ لیکن جب اسلام آیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جہاں اللہ کی وحدانیت کی تعلیم دی اور اپنی رسالت کا اقرار کروایا وہیں کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کو قتل ناحق سے بچنے کی ہدایت فرمائی او ر عورت اور بچیوں کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھنے کی خاصی تاکید فرمائی۔ حضور کی پاکیزہ باتوں کا اثر یہ ہوا کہ چند دنوں میں عرب قوم کی کایا پلٹ گئی۔ جو عورتوں کی عصمت وعفت کے ساتھ کھلواڑ کرتے تھے وہ ان کے ناموس کے محافظ بن گئے۔ جو بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ وہ بچیوں کی پرورش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے او ر ان کی دیکھ بھال اور بہتر تعلیم وتربیت کو اپنے لئے نجات و مغفرت سمجھنے لگے۔ یہ سلسلہ ماضی قریب تک جاری رہا۔
لیکن اب چند سالوں سے مسلمانوں میں بھی بچیوں کے متعلق غلط ذہنیت فروغ پارہا ہے۔ بچی کی ولادت کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور ان کے ساتھ بُراسلوک عام ہوتا جارہا۔ ہم مسلمانوں کے لیے یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ جو کام کفارہ ومشرکین اسلام سے پہلے انجام دیتے تھے آج مسلمان کہلانے والے وہی کام انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے اخبارات ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کتنی تیزی کے ساتھ بچیوں کو قتل کرنے اور ان کے ساتھ بُراسلوک کرنے کا مزاج مسلم معاشرہ میں عام ہوتا جارہا ہے۔ کہیں بچی پیدا ہونے کی وجہ سے ماں کو جلایا جارہا ہے، کہیں بچی اور ماں کو زہر کھلایا جارہا ہے۔ کہیں بچی پیدا ہونے کے سبب بیوی کو طلاق دی جارہی ہے۔ بچیوں کی ولادت کے بعد جو حالات رونما ہورہے ہیں اخبارات کے ذریعہ ہم اور آپ تک وہ باتیں پہنچ جاتی ہیں لیکن شکم مارد میں جن بچیوں کا قتل ہورہا ہے ان سے کون آگاہ ہے؟ ان کی تعداد کیا ہے؟ مسلمانوں کو یہ کیا ہوگیا ہے؟ یہ کیوں ہورہا ہے؟ اوراس سے بچنے کی تدبیر کیا ہے؟ بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یقینا جن کے جوابات بھی بہت سارے ہیں۔میرے نزدیک تو یہ دین سے دوری اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی کی وجہ سے ہم آدمیت و انسانیت سے غافل ہوچکے ہیں۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ نہ ہونے کے سبب اس قسم کے گھناﺅنے کام انجام دے رہے ہیں۔ جہالت کی انتہا دیکھئے کچھ لوگ بچیوں کو پرایا مال سمجھتے ہیں پھر جہیز کے خوف کے سبب اور کسی کو داماد بنانا اپنے لیے ذلت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ اس طرح کا اقدام کر بیٹھتے ہیں اور کچھ لوگ غربت سے تنگ آکر یا وسائل کی کمی کے سبب اس طرح کی حرکت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک عورت کو صرف ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں داخل کیا گیا۔ بلی کو اس نے قید کردیا تھا یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ جب سے اسے باندھا تھا نہ اسے کھانا کھلایا تھا اور نہ ہی پانی پلایا تھا اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑا کہ وہ خود سے زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی۔(بخاری) جب بلی پر ظلم کرنے اور اسے بھوکا مارنے کی یہ سزا ہے تو آپ خود انداز ہ لگاسکتے ہیں کہ بچیوں کو قتل کرنے والا کیسے نجات پاسکتا ہے۔

حصرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (پچھلی امت کا یہ واقعہ ہے ایک آدمی کو سخت پیاس لگی وہ پانی تلاش کرتا ہوا) ایک کنویں کے پاس پہنچا۔کنویں میں ڈول نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود کنویں میں اترا پانی پی کر شکم سیر ہوگیا۔کنویں کے پاس ایک کتا تھا جو پیاس کی شدت کی وجہ سے کیچڑے چاٹ رہا تھا۔ کتے کی اس حالت کو دیکھ اس آدمی کو رحم آگیا۔ وہ پھر سے کنویں میں اترا۔ اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر کنویں کے اوپرآیا اور اس کتے کو پانی پلایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل فرمادیا۔( بخاری) غور کریں جب جانور پررحم کرنے کا یہ صلہ وثواب ہے تو انسان بالخصوص صنف نازک او ربے سہارا لڑکیوں اور بچیوں پررحم کرنے کا صلہ کیا ہوگا؟
abdul razzaq wahidi
About the Author: abdul razzaq wahidi Read More Articles by abdul razzaq wahidi: 52 Articles with 82553 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.