کراچی کی اہمیت پاکستان کے لئے
اس طرح ہے جس طرح انسانی جسم کے اندر اس کا دل اہمیت کا حامل ہے ۔کراچی ایک
ایسا شہر ہے جو ایک عام آدمی کے لئے باعث رحمت ہوا کرتا تھا۔کراچی کو
غریبوں کی ماں ،روشنوں کا شہر ،مدارس اور مساجد کی بہتات اور اس وقت
پاکستان میں ایک علم کا مرکز بھی کہا جا سکتا ہے ۔کراچی ایک بہت بڑا
انڈسٹریل شہر ہونے کے ساتھ ساتھ پورے ملک بلکہ پوری دنیا کو سب سے زیادہ
علماءفراہم کرنے والا شہر بھی ہے ۔کراچی ایک ایسا شہر ہے جس نے ہمیشہ ہر
ایک انسان چاہے اس کا تعلق کسی ذات ،مذہب ،مسلک و مشرب سے ہو اُسے اُسکی
حثیت کے مطابق راحت و سکون دیا ہے ۔کراچی غریب پرور شہر ہے ۔کراچی میں ایک
دفعہ آنے والابار بار آتا ہے ۔کراچی ایسا شہر بھی ہے جس میں زندگی 24گھنٹے
چلتی ہے ۔ملک کے دیگر حصوں ،علاقوںاور شہروں میں زندگی 24گھنٹے نہیں چلتی
وہاں اگر اسکول ،کالج اور یونیورسٹی ´صبح 8بجے کھلتی ہے تو دن کے اوقات
پورے ہوتے ہی اس کے دروازے علم کے پروانوں کے لئے اگلے دن تک بند ہو جاتے
ہیں جبکہ کراچی کے اسکول ،کالج اور یونیورسٹیز اگر تشنگان ِ علم کو صبح کے
اوقت میں علم کی نویدسناتے ہیں تو شام کے اوقات میں بھی کراچی کے زیادہ تر
اسکول، کالج ، یونیورسٹیز اور مدارس اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے
ہیں۔کراچی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کراچی سطح سمندر سے نیچے ہونے کے
باوجود بھی اپنے باسیوں کے لئے باعث رحمت و راحت کی علامت بنا ہوا ہے ۔کراچی
کے باسی ہفتہ بھر کی تھکاوٹ کو ہرانے ہر ”ویک اینڈ“پر ساحل سمندر پہنچ جاتے
ہیں ۔یہ مشاہدہ بھی رہا ہے کہ اس کے حالات جیسے تیسے بھی ہو اس کے باسیوں
نے تازہ اور نمکین ہوا کے جھونکوں سے ملاقات کی خاطر ساحل سمندر کا رخ ضرور
کیا ہے ۔کراچی میں پورے ملک کی نسبت سب سے زیادہ مدارس اور مساجد خانقاہیں
آباد ہیں ۔کراچی میں اگر ایشیا کی ”ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے والی
یونیورسٹیاں موجود ہیں تو دوسری طرف ایشاءکے بڑے بڑے مدارس اور ملک سے سب
سے بڑے مدارس کراچی میں آباد ہیں ۔کراچی وہ شہر ہیں جس کے مدارس میں دنیا
بھر کے تشنگانِ علوم نبوت اِن مدارس دینیہ میں اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں ۔
بدقسمتی سے ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد سے تاحال طرح طرح کی شازشوں کا
شکار رہا ہے ۔جس میں ہر طرح کے مسائل جان بوجھ کر پیدا جاتے ہیں ۔کراچی میں
اس حد تک صورت حال بھی خراب ہوئی کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کراچی کی ایک دن
کی ٹارگٹ کلنگ کو ”اسکور “کہہ کر بتایا اور یہ ”اسکور “ کے الفاظ کسی عام
آدمی کے سامنے نہیں بلکہ جسٹس سرمد جلال عثمانی کے استفسار پر کہ ”آج کے
حالات کیا ہیں “تب سندھ کہ اس ”جری “ایڈووکیٹ جنرل کے یہ الفاظ تھے جو اگلے
دن اخبارت کی زینت تو بنے ہی مگر اِن 6 افراد کی خاموش موت کے حادثہ کے بعد
ایک بار پھر اُن کے پیاروں پر یہ الفاظ ”موت “کے حادثے سے کم نہیں گزرے
۔اسی خوبصورت شہر میں اس کے باسیوں کے سینے میں سوراخ کیئے گئے ۔بند بوری
میں کاغذ کی پرچی کے ساتھ لاشیں بھی روز کا معمول بن چکیں ۔اس شہر میں خالی
بس تو نظر آتش ہوئی ہی ہوئیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بس کی سواریوں کو بھی
زندہ جلایا گیا ۔وکلاءکو قانوں کی حفاظت کرنے کی سزا میں انہیں زندہ جلنا
پڑا۔
کراچی میں گزشتہ چند ماہ میں دین دار طبقے کو نشانہ بنایا گیا اس کی مثال
اس سے پہلے نہیں ملتی ۔گو کہ مذہبی طبقہ پہلے بھی ناہنجازوں کی ”ہٹ لسٹ “پہ
رہا مگر اب کی اس میں بہت تیزی آئی ہے ۔زیادہ دور نہیں تو مئی کے ہی مہینے
کو لے لیا جائے 13مئی بروز اتوار کوجب معروف مذہبی اسکالر مولانا محمداسلم
شیخوپوری کو عین اس وقت ٹارگٹ کیا گیاجب وہ ایک سوسائٹی علاقے بہارد آبار
میں ایک معروف سلسلہ درس ِ قرآن میں مشہور ماہانہ درس قرآن دے کر گھر واپس
جارہے تھے ۔مولانا اسلم شیخوپوی شہید کی آواز نے بہت سارے لوگوں میں اپنا
اثر جمالیا تھا۔یہ درس قرآن کا سلسلہ جامعہ العلوم السلامیہ جامعہ بنوری
ٹاﺅن کے شیخ الحدیث مفتی نظام الدین شہید ؒ نے شروع کیا تھا جن کی شہادت کے
بعد اس سلسلے کو مولانا اسلم شیخوپوری نے جاری رکھا ہوا تھا ۔معذوری کے
باوجود انہوں کی حالات کو سمجھتے ہوئے اپنی آواز اور قلم سے ”پکار “کی اور
اس ”پکار “نے بہت جلد اپنا ایک حلقہ بنا لیا تھا۔مولانا اسلم شیخوپوری ایک
خالص عالم دین تھے ۔جن کا کسی بھی جماعت یا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں دیا
۔مولانا کی پہچان صرف اور صرف ان کا درس قرآن اور ان کی معرکتہ
الآراءتصانیف ہیں ۔ایک خوبصورت زبان کے مالک اور خطیب ،ادیب مفسر قرآن بھی
تھے ۔ان کے تمام دروس قرآن www.darsequran.comپر موجود ہیں اور بلا شبہ اس
ویب سائیٹ پر ان کے لاکھوں لوگوں نے سنے اور اب بھی سن رہے ہیں ۔مولانا
اسلم شیخوپوری کی شہادت کے بعد بھی وفد گورنر سندھ سے ملا مگر آج تلک
مولانا اسلم کی ”پکار “کو بند کرنے کی کوشش کرنے والے قانون کے کٹہرے میں
نہیں لا سکے ....!
مولانا کی شہادت کے بعد ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ
ساتھ تیزی ہی آئی ہے کمی کسی بھی صورت میں نہیں آئی ۔مولانا کی شہادت 13مئی
2012بروز اتوار کو بہادر آباد کے قریب ہوئی ۔اس کے بعد28مئی 2012کو اہلسنت
والجماعت کے کارکن مفتی ذیشان کو ٹارگٹ کیاگیا۔مفتی ذیشان اہلسنت والجماعت
کے کراچی ڈویوژن کی باڈی کے رکن بھی تھے ۔مفتی ذیشان کو گلشن اقبال بلاک
1ضیا ءالحق کالونی میں مغرب کی نماز کے بعدٹارگٹ کیا گےاتھا ۔ان کی نماز
جنازہ مسجد صدیق اکبر ناگن چورنگی کے باہر ادا کی گئی اور اس کے بعد دھرنا
بھی دیا گےاتھا۔ مفتی ذیشان کے ساتھ دانش کمال جو ضلع ایسٹ کے ذمہ دار بھی
تھے ان کو بھی ٹارگٹ کیا گےاتھا ۔دانش کمال 6بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ۔جب
میت اورنگی ٹاﺅن میں تدفین کے لیے لے جائی جارہی تھی تب بھی شر پسند عناصر
کی وجہ سے اورنگی ٹاﺅن میں کشیدگی پھیل گئی اور جس کے نتیجہ میں ایک بار
پھر اہلسنت والجماعت کے 6کارکنان کو گرفتار کر لیا تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب
ان کارکنا ن کی اشک شوئی کی جانی تھی مگر انتظامیہ نے جانب داری کرتے ہوئے
گرفتاریاں کر ڈالی ۔اس سے صاف نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ کیا
چاہتی ہے ۔
6جون کو محمد شعیب نامی اہلسنت الجماعت کا کارکن F.Cایریالیاقت
آبادمیںٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنااس کے بعد 7جون کو کوئٹہ میں مدرسہ مفتاح
العلوم کوئٹہ میں ایک بم حملہ کیا گیا جس میں مدرسہ کے طلباءزخمی ہوئے ۔جس
کے بعد ایک مرتبہ پھر اہلسنت والجماعت نے احتجاجی مظاہرے کی کال دی اور ایک
مرتبہ پھر 8جون 2012کو پریس کلب کے بار ایک مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے بعد
15جون کواہلسنت و الجماعت نے شام اور برما کی صورت حال پر علامتی دھرنا بھی
دیا۔جس میں علامہ اورنگزیب فاروقی ،ڈاکٹر فیاض ،مولانارب نواز حنفی ،مولانا
تاج محمد حنفی ،مولانااسماعیل یوسف نے شرکت کی ۔ 8ماہ سے لاپتہ اہلسنت
والجماعت کے 2کارکنوںارشد بن گل خان،محمداقبال بن جہانذیب کی16جون کو گڈاب
ٹایون دنبہ گوٹھ میںلاشیں ملیںاور ان کے ساتھ ایک اور لاش بھی تھی جسے
18جون کو ایدھی سرد خانے سے شناخت کیا گیا تھا تاہم پولیس ذرائع اسے بھی
مطلوب افراد میں شمار کر رہی تھی ۔اہلسنت والجماعت کے بیانات کے مطابق ان
کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل گیا تھا۔اس کے بعد ادارة المعارف گلشن اقبال
کے اساتذہ مولاناانوارانجم ،مولانا جمیل قاسم کو پیراڈائز پرٹارگٹ کر کے
قتل کیا گیا تھا۔ ایک مرتبہ پھر مرکز اہل سنت میں نمائندہ جماعتوں کا اجلاس
بلایا گیا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب علمائے کرام سے سیکورٹی واپس لے لی گئی
تھی ۔تاہم 29جون کویوم احتجاج کا اعلان کیا گیااور 3بجے مرکز اہلسنت پر ایک
احتجاجی مطاہرہ بھی کیا گیا۔اور پیراڈائز پر قتل ہونے والے 2علمائے کرام کی
شہادت کے بعد 30جون کو ادارة المعارف میں ایک اجلاس بلایا گیاجس میں جامعہ
فاروقیہ کے ناظم تعلیمات مولاناعبداللہ خالد،جمعیت علمائے اسلام کراچی سٹی
کے امیر قاری عثمان،اہلسنت الجماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات علامہ
اورنگزیب فاروقی ،انصار الامہ کے مرکزی امیر مولاناعبداللہ شاہ مظہرشریک
تھے یہاں بھی ایک کمیٹی بنائی گئی ۔اس دوران نیٹو سپلائی پر معاملات گرما
گرم تھے ۔ہر روز علمائے کرام کے بیانات بھی اخبارات کی زینت بن رہے تھے
۔دوسری طرف مذہبی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری تھا۔
7جولائی 2012کو اہلسنت والجماعت کے 5کارکنان کو سر جانی ٹاﺅن میںٹارگٹ کیا
گیا۔یہ چاروں کارکن آپس میں رشتہ دار بھی تھے ۔یہ اپنی آٹوز کی دوکان پر
بیٹھے ہوے تھے کہ ٹارگٹ کلرزکی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ان میں حمزہ اور
وقاص اور دو دیگرنوجوان تھے ۔حمزہ نامی نوجوان کا دوسرا بھائی وقاص شدید
زخمی ہوگیاتھا۔ان کی میتوں کو جب عبای اسپتال لے کر جایا گیا تو گھات لگائے
دہشت گردوں نے سرجانی ٹاﺅن کے ذمہ دار مشتاق کو عباسی شہید اسپتال کے پاس
شدید ذخمی کردیاتھا۔اس کے بعد 20جولائی 2012کومرکزاہلسنت والجماعت پر ایک
احتجاجی مظاہرہ کرکے چیف جسٹس آف پاکستان سے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ پر
سوموٹو کامطالبہ کیا تھا۔
اس کے بعدکچھ دن تک ٹارگٹ کا سلسلہ تو رک گیا تھا مگر جیل انتظامیہ کے
اہلسنت والجماعت کے کارکن قیدیوں کو کراچی سینٹر جیل سے حیدآباد منتقل کر
دیاتھا ۔تاہم ان پر حیدرآباد جیل میں سخت تشدد کیا گیا ۔اس کے بعد ایک
مرتبہ پھر انتظامیہ نے جان بوجھ کر حالات کو بگاڑنے کی کوشش کی اور 21رمضان
المبارک جمعہ کے دن ملک کی سب سے بڑی دینی ددرسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی
میں رینجرز نے 5گھنٹے کا طویل ترین سرچ آپریشن کیا۔جب کہ دارالعلوم کراچی
جیسی قدیم دینی درس گاہ جس کے بارے میں دیگر مدارس کی با نسبت یہ تک ہوتے
دیکھا ہے کہ دارالعلوم میںہرسال 14اگست کوباقاعدہ پرچم کشائی کی تقریب
منعقد ہوتی ہے اور طلباءکرام باقاعدہ پریڈ بھی کرتے ہیں۔اُس دلخراش واقع سے
جس سے بالعموم پوری دنیااور بالخصوص پورے میں دارالعلوم کراچی سے والہانہ
محبت رکھنے والے کے جذبات مجروع ہوئے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔اُس کے بعد
وزارت داخلہ اور گورنر سندھ کے کہنے پر13اگست 2012کوایڈیشنل آئی جی نے
اہلسنت والجماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات علامہ اورنگزیب فاروقی کے ہمراہ
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی سے غلط اطلاعات پر چھاپہ مارنے پر
باضابطہ مانگی ۔
اس کے 3دن بعد 16اگست کوعلامہ اورنگزیب فاروقی اور مولانا رب نواز حنفی
پرختم قرآن ی تقریب سے واپسی پرسخی حسن چورنگی پر قاتلاناحملہ ہوا جس میں
پرائیوریٹ گارڈ ذخمی جبکہ دونوں رہنماءبال بال بچ گئے ۔16اگست کو ہی ہلسنت
ولجماعت کے کراچی سینٹر جیل میںسے قیدیوں کو سکھر جیل منتقل کیاگیا۔ اس سے
اگلے روز17اگست 2012کوایک بار پھر قتل عام ہوا اوروارٹرپمپ مسجد تقوی میں
گھس کردہشت گردوں نے مولانا آصف اور ایک طالب علم شاکر اللہ خان شہید کر
دیا تھا۔17اگست کو ہی نارتھ ناظم آباد میں5Cچورنگی کے قریب جامعہ یسین
القرآن کے طالب علم کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیااور اسی رات
ڈسکوموڑپردہشت گردوںنے فائرنگ کر کے ایک ہی گھر کے 5اافراد کو قتل
کردیاتھا۔جن میں 3بھائی جامعہ احسن العلوم کے طالب علم بھی تھے۔اس ایک گھر
میں 4بھائیوںمحمد فرید،عبدالوحید،عبدالمعید،عبدالمغیط کی ٹارگٹ کلنگ سے
عورتیں بیوہ اور9بچے یتیم ہوگئے ۔اس کے بعد28اگست 2012کوکراچی ناظم آبادنے
مزید3کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھاجس کی وجہ سے پولیس اسٹیشن کے باہر دھرنا
دیا گیااور رات گئے انہیں رہا کردیا گیا۔اس کے بعد ایک مرتبہ پھر اہلسنت
والجماعت نے 31اگست کوکراچی پریس کلب پرمظاہرہ کیااورقیدیوں پرتشدداور
قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ اور انتطامیہ کے دوہرے معیارکے خلاف سخت غم
وغصے کااظہار کیااور6ستمبر 2012کویوم تائسیس اور7ستمبرکوکراچی سینٹرجیل کے
باہردھرنے کااعلان بھی کیاگیاتھا۔
ستمبر کے مہینے میں ایک بار پھرٹا رگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا ۔ستمبر کے
مہینے میں کراچی میں مذہبی جتنی بھی ٹارگٹ کلنگ کی گئی اُس میں گھر کے دو
،دو افراد ، چار افراد یا باہم رشتہ داروں وکو نشانہ بنایا گیا ۔
6ستمبرکواہلسنت و ا لجماعت نے یوم تاسییس منایااور 7ستمبر کو سینٹرل جیل کے
باہر احتجاج دھرنا دیا گےا۔ پھر اُس کے بعد 14ستمبر کو دھرنے کااعلان تھا
مگر کراچی بلدیہ ٹاﺅن میں فیکٹری میں بڑے پیمانے پر آگ لگی جس سے کافی بڑے
پیمانے پر جانی نقصان بھی ہو ا اوراُسی دوران امریکا میں بنائے جانے والی
توہین رسالت پرمبنی فلم پر جہاں پوری دنیا میں مظاہرے ہوئے وہیں پرپاکستان
کے تمام چھوٹے بڑے شہروںمیں بھی ریلیاں ، جلسے اور جلوسوںکا سلسلہ شروع ہو
اتھا۔ان تمام جلسے اور جلوسوں میںمیڈیاپراہلسنت ولجماعت کے پرچم بڑی تعداد
میں دیکھنے میں آئے۔ اہلسنت والجماعت نے 16 ستمبر کو کراچی پریس کلب پر ایک
احتجاج جلسہ منعقد کیا گےا ۔ جس میں اہلسنت والجماعت کے رہنما شامل تھے اور
اُسی دن جمعیت علمائے اسلام اورمرکزی جماعت اہلسنت کا بھی احتجاجی مظا ہرہ
بھی ہواتھا۔ اس کے اگلے روز 17ستمبر 2012کو شام کے وقت جماعت سلا می کے
رہنما ڈاکٹر پرویز کو نشانہ بنا یا ۔ ڈاکٹر پرویز کا جنازہ وزیر اعلیٰ ہاﺅس
کے باہر رکھا تھا جنازے پر فائیرنگ کی گئی ۔ جس میں جماعت اسلامی کے کارکن
عبدالواحد شہید ہو گئے ۔ 21ستمبر2012کوایک مرتبہ پھر اہلسنت والجماعت نے
لسبیلہ چوک سے امریکی قونصلیٹ کی طرف ریلی نکالی جس پر دہشت گردوں کی
فائرنگ سے 12کارکن شہید اور 85زخمی ہو گئے تھے ۔یوم عشق رسول پر جمعیت علما
ءاسلام کے کارکنوںکو فائرنگ سے زخمی اور گرفتار یاںبھی کی گئیں ۔اس کے
دوران کراچی میں تمام ریلیوں میں سب سے بڑی تعداد میں شرکت اہلسنت والجماعت
کے کارکنوں کی تھی ۔ اس کے بعد21ستمبر کو اہلسنت والجماعت نے ریلی نکالی
اور اُس کے اگلے روز 22ستمبر 2012کو 2کارکنوں کی لاشیں سہراب گوٹھ سرد خانے
سے ملیں۔ اُس کے 2روز بعد 24ستمبر2012 کو 4سگے بھائیوں کو ڈِسکو موڑ پر
ٹارگٹ کیا گےا۔ایک ہی گھر کے 4افراد شہید 4عورتیں بیوہ 9بچے یتیم ہو گئے یہ
4بھائی محمد فرید ، عبدالواحد، عبدالحفیظ ،عبدالمجید تھے اور اِن میں سے 3
بھائی جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کے طالبعلم بھی تھے۔ اِس کے بعد
27ستمبر 2012کو اِسی روزایک اور کارکن مولانا کلیم اللہ شہید کو کیا گیا
تھا۔جس کی نماز جنازہ مولانا اورنگزیب فاروقی نے پڑھائی ۔شاہراہ فیصل تھانے
کی حدود میں قتل ہونے والے مولانا کلیم اللہ کے جنازے کے بعد
28ستمبر2012اہلسنت والجماعت کے سربراہ علامہ محمداحمد لدھانوی نے مرکز
اہلسنت والجماعت پراحتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس میںانہوں نے کارکنوں کی ٹارگٹ
کلنگ کے خلاف حکومت سندھ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ نہ روکا گےا
تو ہم اپنی نرم پالسی پر سوچنے پر مجبور ہو نگے اسی روز 28ستمبر کو رضویہ
سوسائٹی میں ہمدرد ساتھی سہیل بیگ کو ٹارگٹ کیا گےا اُس کے 2دن بعد 30ستمبر
کو لسبیلہ سے گرومندر تک ایک بڑی شہدائے ناموس رسالت ریلی نکالی گئی ۔جس
میں یوم عشق رسول کے دن نکالے جانے والی ریلی کے شہداءکوخراج تحسین پیش کیا
گیا۔
اکتوبر کے مہینے میں سب سے زیادہ مذہبی ٹارگٹ کلنگ کی گئیں ۔ 5اکتوبر
2012اورنگی ٹاﺅن میں محمد نسیم بن محمد سلیم کو شہید اور 2کارکنوں شمیم
اورارمان کوزخمی کیا گےا ۔زخمیوںکوقطر ہسپتال منتقل کیا گےا۔ اُس کے 3روز
بعد 8اکتوبر کو اورنگی ٹاﺅن میں ہی ایک اور کارکن عبدالخالق بن شمشاد خان
کو ٹارگٹ کیا گےا ۔ 15اکتوبر 2012کو اسکاﺅٹ کالونی میں 4کارکنوں کو ٹارگٹ
کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ۔جن میں عمر حق نواز ، عنصر ،عمران،عبدالشکور
،شامل ہیں۔ اِسی روز 15اکتوبر کو نارتھ ناظم آباد میں ایک کارکن عبدالحنان
کو ٹارگٹ کیا گےا ۔اُس کے 4روز بعد 19 اکتوبر کو ابولحسن اسفہانی روڈ پر
احتجاجی مظاہرہ کیا گےا۔ جس پر فائرنگ کے نتیجے میں اہلسنت والجماعت کے3
کارکنان شہید ہوئے ۔جن میں قاری مجاہدمعاویہ بن عبدالغفار ، عبدالعزیز بن
غلام یسین،عبدالروف بن محمد اصغر، شامل ہیں ۔اُس کے2 روز بعد 21اکتوبر کو
گلشن چورنگی پر احسن العلوم کے فاضل مولانا کمال الدین بن محمد غیاث کو
شہید کیا گےا۔مولاناکمال الدین 10سال سے نیپا چورنگی ،ندیم ہسپتال کی مسجد
میں امامت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ۔اُس کے 2روز بعد23اکتوبر کو لنڈی
کوتل چورنگی پر عبدالواحد ،محمد اسمعیل ، دونوں بھائیوں کو انکی دوکان پر
شہید کیا گےا۔ اور ایک سال قبل اسی دکان پر انکے دوبھائیوںعماد اور شعیب کو
بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا تھا۔ 28اکتوبر کو ہی سولجر بازارمیں دو
اور کارکنوں کو نشانہ بنایا گےاتھا۔ جن میں عمر اور محمد اکرام شامل ہیں
۔یہ دونوں بھی بھائی تھے۔ اِس سے اگلے روز انکے جنازے پر فائرنگ کر کے پٹیل
پاڑے کے رہائشی کو گولیوں کا نشانہ بنایا گےا تھا۔25 اکتوبر کو گلبرک ٹاﺅن
میں شہزان والی گلی میں 5کارکنوںمحمدجبرئیل ،خدائے نور،مولانارفیق،ساجد اور
ہوٹل کامالک شامل ہیں۔یہ سارے افراد ہوٹل کے مالک کے دوست تھے ۔
اس کے بعد نومبر2012کو بھی مذہبی کارکنان ،علماءطلبااور مدارس پر چھاپوں کا
سلسلہ مذید تیزتر ہوتاچلاگیا۔4نومبر کو اہلسنت والجماعت نے لسبلہ چورنگی سے
کراچی پریس کلب تک مدح صحابہؓ ریلی نکالی گئی ۔جس میں کثیر تعداد
میںکارکنان موجود تھے۔اس ریلی کا ایک بڑا مقصد اس دن کو یوم عثمان غنی ؓکے
نام سے مناناتھا۔اس کے 2روز بعد 6نومبر کوملک کی معروف روحانی خانقاہ اور
جامعہ اشرف المدارس گلشن اقبال پر رات گئے چھاپہ مار کرباورچی اور اس کے
مہمان کو گرفتار کر لیا گیاتھا۔اس واقعہ کے بعدپورے ملک میں مذہبی حلقوں
میںگہری تشویش پائی جانے لگی جس کو بھانپتے ہوئے وفاق لمدارس کے ناظم اعلی
قاری محمد حنیف جالندھری زیر صدارت جامعہ اشرف المدارس میں9نومبر کو رکھا
گیاتھا۔تاہم 9نومبر کے دن اجلاس ختم ہوتے ہی دوسری طرف مفتی زرولی خان کے
مدرسے جامعہ احسن العلوم کے 5طلباءکوشہید اور 6طلباءکوزخمی کر دیا گیا۔اُس
دن کئے گئے فیصلے کے تحت 12نومبر کو مولانا فضل الرحمن کی میزبانی میں ایک
اہم اجلاس اسلام آباد میں کیا گیا۔جسمیں وفاق المدارس کی پوری قیادت شریک
تھی ۔جنہوں نے اس اہم اجلاس میں کراچی کے حوالے سے اہم فیصلے کئے ۔
ان تمام واقعات کے بعد ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکومت تو مدارس
،علماء،طلباءاور مذہبی جماعتوں کو دیوارسے لگاتاچاہتی ہے ۔مگر ایک حقیقت
توسامنے ہے کہ علماءکی آپس میں دوریاں تو تھی ہی تھیںمگر اب مدارس میںبھی
دوریاں نظر آرہی ہیں ۔جس کااندازہ مئی 2012سے آج تک کی مذہبی ٹارگٹ کلنگ
کودیکھ کر لگایاجاسکتاہے ۔اہلسنت والجماعت کے 50کے قریب کارکنان کوٹارگٹ
کلنگ کانشانہ بنایاگیا مگر کسی عالم دین نے ان تمام کے بارے کوئی بیان نہ
دینااس کی واضع دلیل ہے ۔اور اب تو مفتی نعیم کے بیان اس سے پردے
اُٹھادیاہے اگرعلماءکرام اب بھی ایک جگہ مل کر سب نہ بیٹھے توپہلے سے کیں
زیادہ نقصان ہوگا۔ مفتی محمد نعیم جامعہ اشرف المدارس میں ہونے والے اجلاس
میں بھی شرکت نہیں کی اور اس کے بعد ان کے بیانات کہ ”وفاقی وزیرداخلہ
عبدالرحمن ملک اوراتحادتنظیمات مدارس دینیہ کے رہنماﺅوں کی گزشتہ روزاسلام
آباد میں ملاقات معض ایک فوٹوسیشن ہے “مفتی نعیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ
گزشتہ پانچ سال میںاہل مدارس کوکتنے ہی مسائل پیش آئے اورکبھی وفاق المدارس
توکبھی اتحادتنظیمات مدارس دینیہ کے پلیٹ فارم سے دسیوںملاقاتیںاعلیٰ
حکومتی حکام سے ہوچکی ہیںلیکن اہل مدارس پوچھناچاہتے ہیںکہ آخران
ملاقاتوںکاکیانتیجہ برآمدہوا۔ حالیہ ملاقات بھی ”ذاتی مفادات “کاحصول
اورفوٹوسیشن سے زیادہ کچھ نہیں۔ا س کے علاوہ اہلسنت والجماعت کے سربراہ
علامہ محمد احمد لدھیانوی بھی اسلام آباد میں موجود ہونے کے باوجود اجلاس
میں نہیں بلائے گئے جب کی سب سے زیادہ متاثر کراچی میں ان کی جماعت ہوئی ہے
۔اب وہ بھی اس پروفاق المدارس سے سوال اُٹھاسکتے ہیں اس سے پہلے سے سوالات
اُٹھیں وفاق المدارس کو سوچنا ہوگا۔اور مدارس اور علمائے کرام میڈیاکو
دجالی کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ اگر اس”دجالی “ میڈیا میں اُن
کے لوگ بھی ہوتے تو اتنے بڑے واقعات کی خبریں تہلکہ مچا چکی ہوتیں۔
حکومت کا دہرامعیار
گلگت میں اگر اہل تشیع کے دوکارکن یاکراچی میں شیعہ برادری کا کوئی بھی شخص
جاں بحق ہوتا ہے تو وزارت داخلہ ،گورنر سندھ اوروزیراعظم تک اس کی مذمت کی
جاتی ہے ، مگر کراچی میں مدارس ،مساجد، علما کرام کوٹارگٹ کلنگ کیا جاتا ہے
تو کسی حکومتی ذمہ دار ،سیاسی لیڈر نہ ہی کوئی تہنیتی پیغام جاری کیااورنہ
ہی جاں بحق ہونے والوں کو معاوضہ اورزخمیوں کے علاج کے لئے کوئی رقم دی گئی
جب کہ فریق مخالف کے کسی ایک رکن کی ہلاکت پر حکومتی مشنری نہ صرف حرکت میں
آجاتی ہے بلکہ کراچی کے امن میں فساد کا کھیل شروع ہوجاتا ہے اورکاروبار
زندگی معطل ہوجاتا ہے ،دکانیں بند ، گاڑیاں نذر آتش،روڈ بلاک کردیئے جاتے
ہیں۔وزارت داخلہ بھی دس لاکھ کا اعلان کرتی ہے اورگورنمنٹ ہلاک ہونے والوں
کو دس لاکھ اورزخمی ہونے والوں کو پانچ لاکھ روپے دیتی ہے۔
اہلسنت کب سے نشانے پر
اہلسنت والجماعت کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اس وقت زیادہ ہواجب امریکا پر
توہین رسالت پر بنائی جانے والی فلم کے ردعمل میں جہاں پوری دنیا میں
مظاہرے ہوئے ایسے ہی مظاہرے پاکستان میں ہوئے ،اوران مظاہروں میں سب سے
زیادہ نمایاں جگہ اہلسنت والجماعت کے لئے ہی ہر طرف انہی کے پرچم نذرآتے
رہے ،کراچی کے بعض نامورمبصرین اورصحافیوں کاخیال ہے کہ اہلسنت والجماعت کی
یہ قوت دشمن اسلام کو ایک آنکھ نہ بنائی اوراس نے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے
کافیصلہ کرلیا ،چنانچہ پھر اس کے بعد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ تو گویا رک
ہی گیا مگرا ہلسنت والجماعت کا کارکنا ن اورذمہ داران اورہمدرد ٹارگٹ کلرز
کے نشانے پرآگئے ۔
مدارس پر یلغار
بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں چونکہ مدارس کی بہت بڑی تعداد ہے
اورحکومت ان تمام مدارس کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لینا مشکل ہی نہیں
بلکہ ناممکن بھی ہے تاہم ایک بات تو واضح ہے کہ یہودی قوتوں کو کسی بھی
صورت میں یہ مداراس اوراسلام کی مقبولیت برداشت نہیں ، اس لئے انہوں نے
وقفے وقفے سے ایک ایک مدرسے کو اپنے نشانے پررکھ لیا جس کی تازہ مثال اس
21رمضان المبارک ،یوم حضرت علی ؓ جمعہ کے دن رینجرز نے پانچ گھنٹے کا طویل
آپریشن کیا اور17اگست 2012کوواٹرپمپ مسجدتقوی میں فائرنگ 1عالم مولاناآصف
اور ایک طالب علم شاکر اللہ کوشہید کیاگیا۔7جون 2012مدرسہ مفتاح العلوم
کوئٹہ میں بم حملے کئے گئے۔ اُس کے بعد ایبٹ آباد مدرسہ صدیقیہ
پر16اکتوبر2012پر چھاپہ مارکر 23طلباءاور2علماءکو گرفتارکیاگیا اوراب جامعہ
اشرف المدارس پر6نومبر2012کوچھاپہ مار کر2افراد کو گرفتار کرنا اِس کی تازہ
ترین مثال ہے۔
مدارس کے طلباءبھی ٹارگٹ کلنگ کانشانہ
22جون کوادارة المعارف گلشن اقبال کے 2اساتذہ مولاناانوار انجم اور
مولاناجمیل قاسم کوشہید کیاگیا۔جامعہ دارالخیر کے 2طلباءکو سفاری پارک کے
قریب دن دھاڑے شہید کیا گیا ۔17اگست کوجامعہ احسن العلوم کے 4سگے
بھائیوںبھائی محمد فرید ، عبدالواحد، عبدالحفیظ ،عبدالمجیدکوڈسکوموڑپر
شہیدکیا گیا۔جس کی وجہ سے چار عورتیں بیو ہ اورنو بچے یتیم ہوگئے۔اور21
اکتوبر2012کواِسی جامع احسن العلوم کے ایک اور فاضل مولانا کمال الدین کو
گلشن چورنگی پر شہید کیا گیا۔مولانا کمال الدین نیپاچورنگی پر 10 سال سے
ندیم ہسپتال کی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔17اگست 2012کو
نارتھ کراچی 5cچورنگی پر مدرسہ یاسین القرآن کے ایک طالب علم کو شہید کیا
گیا ۔17اگست کوہی واٹرپمپ پر مسجد تقوی پر حملہ کرکے ایک عالم مولانا آصف
اورطالب علم شاکر اللہ کو شہیدکیا گیا۔اُس کے بعد تازہ ترین مثال
6نومبر2012پیر اور منگل کی درمیانی شب رات 1بجے جامعہ اشرف المدارس پر شب
خون ماراگیا اور2افراد کو گرفتار کرکے ایک کو زخمی کوجناح اسپتال میںاورایک
کونامعلوم مقام پر منتقل کیاگیا۔ پھراُس کے 9نومبر2012کو تازہ واقعہ احسن
العلوم کے 5طلباءکو شہید اور6 کو شدید زخمی کیا گیا اوراُس دن اہل حدیث
مکتبہ فکر کے جامعہ ابی بکرؓ کے طالب علم محب اللہ کو بھی شہید کیاگیا۔ |