خوبصورت چہرے تیزاب گردی کا شکار

بیتے دنوں کی بات ہے جب پختون معاشرے میں عورت اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بے غیرتی اور عزت کے منافی سمجھا جاتا خواہ عورت یا بچہ کسی جانی دشمن کا ہی کیوں نہ ہوتا - عورتوںکی عزت پختون معاشرے میں بہت زیادہ کی جاتی لیکن یہ ہماری بدقسمتی کہ جس طرح ہم "دو نمبر کے پختون" بن گئے ہیں اس لئے ہماری روایات بھی دم توڑ رہی ہیں -اپنی لالٹین والی سرکار کے دور حکومت میں جہاں ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں وہیں پر ہماری پختون روایات بھی دم توڑ رہی ہیں حالانکہ یہی "پختونوں"کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں اور لوگوں کو توقع تھی کہ "پختونوں کے ٹھیکیداراپنے عوام کیلئے کچھ کرلینگے لیکن وائے افسوس!-گذشتہ روز پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں تیزاب گردی کے واقعہ پر بنائی گئی ایک رپورٹ دکھائی گئی جس میں متاثرہونیوالی معصوم طالبہ نے بتایا کہ رشتے سے انکار کے بعد اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا جس کے باعث اس کے چہرے کا ایک رخ مکمل طور پر مسخ ہوگیا -وہ خاتون رشتے سے انکار پر بدصورت بنا دی گئی اب وہ زندہ رہتے ہوئے بھی مردوں سے بدتر زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں مسخ چہروں کو کوئی نہیں پوچھتا یہ اور بات کہ ہمارے اپنے چہرے خواہ کتنے ہی "مسخ " شدہ ہو لیکن ہمیں اپنا آپ نظر نہیں آتا - تیزاب کا شکار ہونیوالی خواتین کیلئے ہماری اسلامی فلاحی ساتھ میں عوامی اور جمہوری پاکستان میں سرکاری طور پر کوئی ادارہ قائم نہیں پرائیویٹ طور پر کچھ این جی اوز کام کررہی ہیں اوران متاثرہ خواتین کو معاشرہ کا کارآمد شہری بنانے کیلئے اقدامات کررہی ہیں-

تیزاب گردی ہمارے معاشرے کا ایک ایسا المیہ ہے جسے ابتداء میں ہمارے ہاں لوگ دوسرے صوبوں کا مسئلہ قرار دیتے تھے اور اس کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے لیکن اب افسوسناک بات یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں بھی خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے سال 2009 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں 43 سال 2010 میں 55اور 2011 میں سو فیصد اضافے کیساتھ یہ تعداد 150 تک پہنچ گئی تھی صوبہ خیبر پختونخواہ میں تیزاب گردی کے 10رجسٹرڈ واقعات ہوئے جس میں زیادہ تر واقعات پشاور مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت کرم ایجنسی ہوئے - یہ وہ واقعات ہیں جن کی ایف آئی آر درج کردی گئی اور باقاعدہ اخبارات میں رپورٹ ہوئی جس کا پتہ اس حوالے سے کام کرنے والے اداروں کو ہوا تاہم صوبے میںاصل واقعات کی تعداد اس سے بھی کئی گنازیادہ ہے کیونکہ لوگ اپنی بدنامی کے ڈر سے ان واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کرتے اور پرائیویٹ طور پر متاثرہ خواتین کا علاج کرتے ہیں -

ہمارے ہاں تیزاب ایک ایسا کیمیکل ہے جو شہر کے مختلف علاقوں سمیت کھلے عام بازار میں فروخت ہورہا ہے اور اسکو لینے والے افراد کی چیکنگ و مانیٹرنگ کا کوئی انتظام نہیں نہ تو فروخت کے وقت کوئی دکاندار خریدنے والے کا شناختی کارڈ چیک کرتا ہے اور نہ ہیخریدنے والے سے یہ پوچھتا ہے کہ تیزاب کو کس مقصد کیلئے لیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اپنی دشمنیوں/ذاتی اختلافات پر لوگوں خصوصا خواتین پر تیزاب پھینکتے ہیں جس کا شکار ہونے کے بعد متاثر ہونیوالی خواتین نہ صرف جسمانی طور پر تباہ حال ہو جاتی ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی اپنے آپ کو مفلوج تصور کرتی ہیں-تیزاب کا شکار ہونیوالی خواتین کی بحالی اور ان وارداتوں میں ملوث افراد کو سزا دینے کیلئے ابھی صوبائی سطح پر قانون سازی ہونا باقی ہے خواتین کیلئے کام کرنے والے صوبائی وومن کمیشن نے اس سلسلے میں ڈرافٹ تیار کرلیا ہے تاہم ابھی بھی اس میں کچھ خامیاں ہیں جسے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے رابطہ کرکے ختم کیا جارہا ہے لیکن سب سے افسوسناک بات جو مجھ سمیت تیزاب گردی کے پروگرام میں ہر شخص نے محسوس کی کہ خواتین کی نمائندگی کا دعوی کرنے والی کچھ خواتین کی معلومات اس حوالے سے ہماری طرح "زیرو"ہی ہیں قانون سازی کے حوالے سے اس پروگرام میں شامل صوبائی حکومت کی دو خواتین ممبران اسمبلی تیزاب گردی کی روک تھام اور اس کیلئے سزا ئوں پر بات کے بجائے دہشت گردی پر آگئی اور ان کا رونا "تیزاب گردی"سے "دہشت گردی" کی طرف چلا گیااور ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ "تیزاب گردی اور دہشت گردی"شائد آپس میں رشتہ دار ہیں خواتین ممبران اسمبلی کے پروگرام میں بات سننے سے پتہ چلا کہ ہ ہم تو یہاں پر لوگوں اور خصوصا خواتین کیلئے"دودھ اور شہد "کی نہریں بہانے آئے تھے لیکن پشتو مثل کے مصداق کہ "کچھ جوار کے دانے بھیگے تھے اور کچھ آٹا بنانے والی مشین خراب تھی "ہمیں تو اس بات پرافسوس ہوا کہ خواتین کے مسائل پر بھی یہ خواتین ممبران اسمبلی بھی روٹین کی " آئیں بائیں شائیں"کرتی نظر آئی -

قابل افسوس بات یہ ہے کہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں جہاں دوسرے لوگ ملوث ہوتے ہیں وہیں پر کچھ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جس میں والدین نے اپنی بچی کے سر پر تیزاب ڈال دیا یا پھر والدین نے بچی کو زبردستی تیزاب پلا دیا سمجھ ہی نہیں آتا کہ ہم لوگ حیوانیت کے کونسے درجے پر ہیں -چاہئیے تو یہ کہ جس طرح سے تیزاب گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں ان متاثرہ افراد کیلئے شہر کے مختلف ہسپتالوں میں خصوصی وارڈ قائم کئے جائیں اسی کے ساتھ ساتھ میڈیکل کالجز میں تیزاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کیلئے نئے کورسز کے اجراء کیساتھ ساتھ ذہنی بحالی کیلئے مراکز قائم کئے جائیں-

لیکن رونا تو اس بات کا ہے کہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے " حکمرانوں "کی عیاشیوں کیلئے بہت کچھ ہے ان کی گاڑیوں جسے ان کی بیگمات اور بچے شاپنگ کیلئے استعمال کرتے ہیں ان گاڑیوں کے پٹرول/سی این جی کیلئے خزانے میں پیسہ تو بہت ہیں لیکن تیزاب گردی کا شکار افراد کیلئے بننے والے ہسپتال کیلئے کوئی فنڈز نہیں-جس کا رونا بھی صوبائی اسمبلی کی خاتون رکن اسمبلی نے بھی رویا بقول اس کی خزانے والے ایسی منصوبے منظور ہی نہیں کرتے جس پر اخرکاجات آتے ہوں -اسی طرح تیزاب گردی کا شکار متاثرہ لوگوں کے کیسزبھی روٹین کے کیسوں میں عدالتوں میں زیر سماعت اسی باعث انصاف کی فراہمی کاسلسلہ بھی سست روی شکار ہے اور متاثرہ ہونیوالے افراد اتنی مالی طاقت نہیں رکھتے کہ روزانہ عدالتوں کے چکر لگائے اس لئے وہ بھی ان بکھیڑوں سے بچنے کیلئے عدالتوں سے دور بھاگتے ہیں اگر اس طرح کے کیسوں کا ٹرائل"دہشت گردی "کی خصوصی عدالتوں میں کیا جائے اور اسے دہشت گردی ایکٹ میں شامل کیا جائے تو یقینابہت حد تک کمی آسکتی ہے -ویسے تو ان واقعات کی روک تھام کیلئے اللہ تعالی نے بڑا خوبصورت انصاف '" قصاص "مقرر کیا ہے جس میں اگر تیزاب پھینکنے والے شخص / خاتون کو اسی طرح تیزاب کا نشانہ بنایا جائے جس طرح اس نے کسی اور کو بنایا ہو تو ہمارے معاشرے کے لوگ "اپنے چہروں"کو بچانے کیلئے آئندہ اس طرح کے واقعات نہیں کرینگے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498374 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More