گزشتہ دنوں وزارت داخلہ نے سپریم
کورٹ میں پیش کئے ایک جواب میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی چند
علیحدگی پسند ریاستوں کے ساتھ شامل کرتے ہوئے اسے ایک بھارتی ریاست قرار
دیا۔میڈیا میں یہ معاملہ آنے پر کشمیر کے حوالے سے نمائندگی کے دعویداروں
نے اپنی موجودگی کا ہلکا سا احساس دلانے کی کوشش کی۔پارلیمانی کشمیر کمیٹی
نے بھی اس معاملے پر اپنے اجلاس میں احتجاج کیا۔اس معاملے پر وزارت خارجہ
پر بھی تنقید کی گئی۔اسی صورتحال میںوزارت داخلہ کے سیکرٹری نے اس معاملے
کو ”غلطی “ قرار دیتے ہوئے معذرت کی۔میرے خیال میں ایسا غلطی سے نہیں ہوا
بلکہ اس سے وفاقی محکموں ،اعلی افسران کی وہ سوچ آشکار ہوئی ہے جو انہوں نے
پالیسی سازوں کی پالیسیوں سے اخذ کیا ہے۔ ہمارے سیاستدان اس طرح کے حساس
قومی امور میں عوام کو بے خبراور گمراہ رکھنے میں اپنا کردار بھرپور طور پر
ادا کرتے چلے آر ہے ہیں۔
مختلف حلقوں کی طرف سے وزارت خارجہ و داخلہ کی اس ” کوتاہی“ پر تو کچھ شور
مچایا گیا لیکن اسی طرح کے دیگر تین اہم معاملات پر توجہ نہیں دی گئی
کیونکہ ان معاملات کو میڈیا نے اچھالا نہیں۔پہلا معاملہ یہ ہے کہ تقریبا دو
سال قبل وزارت امور کشمیرکے سیکرٹری احتشام خان اور جائنٹ سیکرٹری کونسل
قیصر مجید کے ہمراہ وزارت امور کشمیر کے پانچ افسران نے وزارت قانون کے ایک
افسر کے ساتھ ایک قرارداد پاس کی کہ آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی حصہ ہے
لہذا پاکستان سپریم کورٹ کو آزاد کشمیر کے کسی بھی معاملے میں سماعت کا
اختیار حاصل ہے۔ اور اٹارنی جنرل کو تحریک کی گئی کہ وہ آزاد کشمیر عدلیہ
سے متعلق مقدمہ کی سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں کشمیر کونسل اور
حکومت کی طرف سے پیروی کریں۔اس وقت جسٹس منظور حسین گیلانی کا مقدمہ
پاکستان سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا۔آزاد کشمیر حکومت کے اس وقت کے وزیر
اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی مخالفت اور احتجاج پروزیر امور کشمیر منظور
وٹو نے اپنے محکمے کے ان افسران کی سرزنش کی اور یقین دہانی کرائی کہ
اٹارنی جنرل کو ارسال کیا گیا لیٹر واپس لیا جائے گا۔لیکن اب تک وزارت امور
کشمیر و کشمیر کونسل کی طرف سے ارسال کردہ یہ خط اٹارنی جنرل آف پاکستان سے
واپس نہیں لیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ و وزارت خارجہ کی حالیہ کارگزاری کے صرف چند ہی دن کے بعد
وفاقی وزارت تجارت کے سیکرٹری منیر قریشی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی
برائے تجارت کے اجلاس میں کہا کہ حکومت کو تجویز کیا گیا ہے کہ کشمیر کے
دونوں حصوں کے درمیان تجارت کو محدود کیا جائے۔ کمیٹی کے ممبران ارکان
اسمبلی اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے کہ بھارت سے مہنگے داموں کیلے
خریدے گئے ہیں۔سیکرٹری تجارت نے اجلاس کو بتایا کہ کیلے کی یہ کھیپ پاکستان
بھارت تجارت کے ذریعے نہیں بلکہ انٹرا کشمیر ٹریڈ کے ذریعے منگوائی گئی
ہے۔پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی کمیٹی کی رکن یاسمین رحمان نے اجلاس میں
کہا کہ وہ ثبوت پیش کر سکتی ہیں کہ کیلے کی یہ کھیپ واہگہ باڈر سے درآمدکی
گئی ہے۔سیکرٹری تجارت نے کہا کہ وزارت نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ
’انٹرا کشمیر ٹریڈ‘ میں صرف کشمیر کے دونوں حصوںمیں پیدا ہونے والی اشیاءکی
ہی تجارت کی جائے اور ان کی کھپت کشمیر کے دونوں حصوں میں ہی محدود رکھی
جائے۔سیکرٹری تجارت نے ساتھ ہی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ’انٹرا کشمیر ٹریڈ‘
کشمیر اشو سے متعلق ایک سیاسی معاملہ ہے۔جیسا کہ تجارت کی وفاقی سیکرٹری
منیر قریشی نے خود کہا کہ ’انٹرا کشمیر ٹریڈ‘کشمیر اشو سے متعلق سیاسی
معاملہ ہے تو انہیں معاملے میں وہ تجاویز وفاقی حکومت کو نہیں دینی چاہئیں
تھیں جو ان کی وزارت نے عملدرآمد کے لئے حکومت کو بھجوائی ہیں۔سیکرٹری
تجارت کا یہ بیان کہ ”کیلے کی متنازعہ کھیپ ’انٹرا کشمیر ٹریڈ‘ سے آئی ہے
اور قائمہ کمیٹی کی رکن یاسمین رحمان کی طرف سے یہ کیلے واہگہ باڈر سے
منگوائے جانے کے دعوے پر سیکرٹری تجارت اپنی کہی گئی بات کا دفاع بھی نہ کر
سکے اور انہوں نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ اگر کوئی ایسی شکایت ہے تو
اسے سامنے لایا جائے،اس پر ایکشن لیا جائے گا۔وفاقی محکمہ تجارت کو یہ بات
پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ’انٹرا کشمیر ٹریڈ‘ منافع کی غرض سے نہیں بلکہ
لائین آف کنٹرول کے دونوں طرف کے منقسم کشمیر کے حصوں کے درمیان کشمیریوں
کی سہولت کاری کی غرض سے ہے اور یہ تجارت کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان
کشمیریوں کی سہولت کی لئے عوامی آمد رفت کے ساتھ خصوصی سہولیات کے تحت شروع
کی گئی ہے اور یہ صرف پاکستان اور بھارت کا باہمی معاملہ نہیں بلکہ عالمی
برادی کی پس پردہ کوششیں اور گارنٹی بھی اس میں شامل ہیں ۔یوں ہمارا وفاقی
محکمہ تجارت اپنے روزمرہ تجارتی امور میں کشمیر کاز کی حساسیت اور اہمیت کو
جس طرح سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے،یہ ہمارے وفاقی محکموں کی سوچ اور
’اپروچ‘ کا واضح اظہار و ثبوت بھی ہے۔اگر کسی کو اس بارے میں کوئی شک ہے تو
وہ ایک تیسرے وفاقی ادارے کی کارگزاری ملاحظہ فرمائے،جس کی ”بصیرت “پاکستان
اور ہندوستان کا فرق بھی بھلا بیٹھی ہے۔
تقریبا بارہ سال قبل ،2000ءمیں بھارتی فو ج کے ایک برگیڈیئر نے لداخ کے
لائین آف کنٹرول سے ملحقہ علاقوں میں لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کے طور پر
عوامی سہولیات کے کاموں میں فوج کی مادی اور افرادی قوت کی مدد دینا شروع
کی۔بھارتی فوجی حکام کو یہ طریقہ کار پسند آیا اور انہوں نے اسی بریگیڈئرکے
نام پر ایک خصوصی پروگرام ”سدبھاونا آپریشن“ شروع کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر
کے لائین آف کنٹرول سے ملحقہ علاقوں تک اس ’سد بھاونا پروگرام ‘کو وسعت
دی۔اب 2008ءسے مقبوضہ کشمیر میں تعنیات بھاری فوج کے لیفٹینٹ جنرل اس
’سدبھاونا آپریشن‘ کا انچارچ ہے۔اس ’سد بھاونا آپریشن‘ کے تحت کشمیر کے
کنٹرول لائین سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی پولیس اور ’سی آر پی ایف‘ میں
بھرتی شروع کی گئی،مقامی طور پر فلاحی کاموں میں فوجیوں کی طرف سے سامان
اور افرادی قوت مہیا کی جانے لگی،اور انہی علاقوں کے نوجوانوں کو بھارتی
فوج کے ساتھ بھارت کے مختلف شہروں کی سیر بھی کرائی جاتی ہے۔
اب ہماری ایک وفاقی وزارت، امور کشمیر کی دانشمندی ملاحظہ فرمائیں۔آزاد
کشمیر کے لائین آف کنٹرول سے ملحقہ گیارہ اسمبلی حلقوں میں دس سال سے زائد
عرصہ بھارتی فوج کی مسلسل فائرنگ اور گولہ باری سے ترقیاتی کام ہونا تو ایک
طرف ،تباہی کا سلسلہ جاری رہا۔بھارتی فوج آزاد کشمیر کی شہری آبادیوں کو
زیادہ نشانہ بناتی رہی جس وجہ سے رہا ئشی اور سرکاری عمارات ،سکول کالجز
وغیرہ تباہ ہوگئے تھے۔وادی نیلم کا ہیڈ کواٹر ٹھمقام بھارتی گولہ باری سے
مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا اور اسی وجہ سے سرکاری ہیڈ کواٹر کنڈل شاہی
منتقل کیا گیا تھا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی پر فائربندی کے
معاہدے کے بعد بھارتی فائرنگ سے متاثرہ آزاد کشمیر کے 11اسمبلی حلقوں میں
تعمیر و ترقی کے لئے 11ارب روپے کا ایک منصوبہ تیار کیا گیاتا کہ ان سرحدی
اسمبلی حلقوں کے لئے تعلیم،صحت ،زراعت،امور حیوانات،جنگلات،اور بنیادی
سہولیات کی فراہمی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے بھارتی فائرنگ سے نقصان
اورباقی حلقوں کی طرح ترقی نہ ہونے کی صورتحال میں اس پر توجہ دی جائے۔انہی
دنوں وزارت امور کشمیر کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کے نام ایک خط میں کہا
گیاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج ’سدبھاونا‘ کے نام سے سرحدی علاقوں میں
عوامی فلاح وبہبود کے کام کر رہی ہے لہذا اس”اچھے“ کام کو دیکھتے ہوئے آزاد
کشمیر کے گیارہ سرحدی حلقوں میں تعمیر وترقی کا منصوبہ’سدبھاونا‘ کے نام سے
شروع کیا جائے۔وزارت امور کشمیر نے اس بات کا ادراک کئے بغیر کہ مقبوضہ
کشمیر میں بھارتی فوج کے آپریشن’سد بھاونا‘ کا مقصدوہاں کے ان لوگوں کی
حمایت حاصل کرنا ہے جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ اور خصوصا گزشتہ چوبیس
سال سے مسلسل بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔اس کے برعکس آزاد
کشمیر کے ’ایل او سی‘ سے ملحقہ 11حلقوں کے لئے یہ خصوصی ترقیاتی پروگرام اس
لئے دیا گیا کہ یہ علاقے ایک عشرہ سے زائد عرصہ بھارتی گولہ باری سے شدید
متاثر ہوئے ۔آزاد کشمیر حکومت نے آزاد کشمیر کے ایل او سی سے ملحقہ گیارہ
حلقوں کے اس ترقیاتی منصوبے کا نام وزارت امور کشمیر کی تجویز کے مطابق ’سد
بھاونا‘ رکھنے کے بجائے اس منصوبے کا نام’ پیارا کشمیر ‘ رکھ دیا۔(آزاد
کشمیر کے ایل او سی سے ملحقہ 11حلقوں کے اس ترقیاتی پروگرام کا کیا حشر
ہوا،یہ اگلے کالم میں پیش کروں گا)آزاد کشمیر حکومت نے (اس وقت راجہ فاروق
حیدر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم تھے )وزارت امور کشمیر کاتجویز کردہ ’ سد
بھاونا‘ کا نام اس لئے قبول نہیں کیا کہ یہ ایک ہندو اصطلاح ہے اور بھارتی
فوج کے ایک بریگیڈئر کے نام پر ہے۔
یوں ہماری چار وفاقی وزارتوں کی طرف سے کشمیر سے متعلق یہ انداز ظاہر کرتا
ہے کہ ہمارے ملک میں علم و عقل کی گراوٹ ہماری حکومت و سرکار میں پوری طرح
حاوی ہو چکی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں جہالت ہی کا راج
اور رواج ہے۔بقول شاعر
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی ، اب کسی بات پہ نہیں آتی ، کے مصداق اب ارباب
اختیار کے کاموں پہ نہ تو رونا آتا ہے اور نہ ہنسی،بلکہ منہ سے یا اللہ خیر
کے الفاظ نکلتے ہیں کہ ایسے” بیش قیمت دماغوں“ نے ہمارا کیا حال کیا ہے اور
ملک و عوام کو کس حال پہنچا کر دم لیں گے۔ |