میں مسلم امہ کے فلسفے ہی کے
خلاف تھا کہ ہم نے تو آج تک جس مسلم ملک کی حمایت کی ۔اس نے جواب میں بھارت
کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔صدام کے لئے ہمارا وزیراعظم اور چیف سر
عام لڑتے رہے لیکن عراق کی دوستی آخر دم تک بھارت کے ساتھ رہی۔یہی حال
دوسرے عرب ممالک کا بھی تھا۔عالمی طاقتوں نے اس وقت مسلمان حکمرانوں میں
اپنے اپنے مہرے بانٹ رکھے تھے۔عرب ممالک اور ریاستیں چونکہ روس کے زیر اثر
تھیں اور بھارت غیر جانبداری کے دعوےٰ کے باوجود بھی چونکہ روس کی طرف جھکاﺅ
رکھتا تھا۔دوسرے طرف ہمارے حکمران لیاقت علی خان ہی کے زمانے سے امریکی گود
میں جا بیٹھے تھے۔اس لئے مسلم عوام کی والہانہ محبت کے باوجود ان ممالک کے
حکمرانوں کی طرف سے کبھی ہمارے لئے کوئی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی۔فلسطین کی
اسرائیل کے ساتھ جب جنگ عروج پہ تھی تو پاکستان سے لوگ اپنے طور پہ جا کے
اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے لڑتے رہے لیکن یاسر عرفات نے جب بھی برصغیر پہ
محبت سے نظر کی تو ان کی اس نظر خاص کا محورو مرکز بھارت ہی رہا۔خیر یہ تو
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں۔ہم جیسے چھوٹے لوگ بہرحال فلسطین کےلئے ہمیشہ
دعا گو ہی رہے کہ اللہ انہیں اسرائیلیوں کے ظلم و ستم سے نجات دے۔
میں امہ کے فلسفے کے اس لئے بھی خلاف تھا کہ ہم سے کبھی اپنا آپ تو سنبھالا
نہیں گیا۔ہم اپنے ماضی میں کبھی اس قابل نہیں ہوئے کہ بھارت کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کے بات کر سکیں۔اور تو اور ہمارے الٹی طرف کے مسلمان ہمسائے نے
بھی روس اور بھارت کی شہہ پہ ہمیشہ ہمیں اپنا دشمن ہی سمجھا ۔نہ صرف دشمن
سمجھا بلکہ تگنی کا ناچ بھی نچائے رکھا۔اس سارے معاملے کو دیکھتے ہوئے مسلم
امہ کا تصور خود بخود ہی ماند پڑ تا رہا۔نوجوانی کے دور ہی سے جب یہ جہادِ
افغانستان اور جہادِ کشمیر کی بات ہوا کرتی تو میرا ہمیشہ یہی خیال ہوتا کہ
سب سے پہلے پاکستان۔میراخیال تھا کہ پاکستان مضبوط ہو گا تو ہم باقی کے
مسلم عوام کی بھی راہبری اور راہنمائی کر سکیں گے۔پاکستان تو اسلام کا قلعہ
ہے۔پاکستان اسلام اور اللہ کے نام پہ بنا ہے لیکن جب تعمیر کے آغاز ہی سے
مجھے اس قلعے کی دیواریں انہی لوگوں کے ہاتھ سے ٹوٹتی نظر آئیں اور کچھ
دوستوں نے اصرا ر کیا توسمجھ میں آیا کہ ہم پہلے پاکستان کو مضبوط کر لیں
تو پھر باقی مسلم دنیا کی بھی مدد کر لیں گے۔
پھر ایک دفعہ ایک محفل میں کسی نے ایک حدیث پاک سنائی کہ آقا و مولاﷺ کا
فرمان ہے کہ تمام مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں ۔اگر جسم کے ایک حصے کو
تکلیف پہنچے تو سارا جسم اذیت میں مبتلا ہوتا ہے ۔ میں نے یہ حدیث پہلے بھی
سن رکھی تھی لیکن میں نے شاید اس حدیث کو اس کی روح کے مطابق سمجھا نہیں
تھا۔پہلی دفعہ کسی سمجھانے والے نے یہ بات سمجھائی تو میں روح تک لرز گیا
کہ یا تو میں مسلمان نہیں کہ آقاﷺ کے فرمان کے مطابق تو ایک مسلمان کی
تکلیف پہ دوسرے مسلمان کو اس کا درد محسوس کرناچاہئیے۔پھر مجھے یہ درد کبھی
محسوس کیوں نہیں ہوا۔وہ شخص جس کا دانت درد کر رہا ہویا جو دردِ گردہ میں
مبتلا ہو اس کی حالت کبھی آپ نے دیکھی ہے۔وہ ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہا
ہوتا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ مں مسلمان ہوں تو میری روح کیوں کشمیریوں کے قتل
پہ سکھی رہتی رہی۔کیوں برما کے مسلمانوں کے قتل پہ میرے منہ سے چیخ نہیں
نکلی۔امریکہ کا ناجائز بچہ اسرائیل آئے دن فلسطین میں ہماری عصمتوں کو تار
تار کرتا ہے اور ہمارے جوانوں کو شہید کرتا ہے تو مجھے یہ درد محسوس کیوں
نہیں ہوتا؟ میرے نبی ﷺ تو دنیا کی سچی ترین ہستی ہیں ۔آپ ﷺ کا فرمایا تو
برحق ہے۔میں کوئی نام نہاد لبرل بھی نہیں تو پھر کیوں میں ان مظلوم بھائیوں
کے لئے آواز بلند نہیں کرتا۔پھر میں اپنے بھائی بندوں کو دیکھتا ہوں ہوں تو
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان یہ دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن
ہمارے اعمال نے جو حکمران ہمارے اوپر مسلط کر رکھے ہیں انہیں اس معاملہ سے
کم ہی سروکار ہے۔ انہیں امہ کی بجائے اپنا مفاد اور اپنا اقتدار زیادہ عزیز
ہے اور یہ اقتدار و اختیار چونکہ براستہ امریکہ آتا ہے اس لئے یہ مسلمان
حکمران اس شدت کے ساتھ ان مظلوموں کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے جس کا آقاﷺ
کا فرمان ہم سے تقاضا کرتا ہے۔
گو کہ کل عالم میں اس وقت خونِ مسلم کی ارزانی ہے۔کہیں ہندو کہیں بدھ اور
کہیں عیسائی اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کے اللہ کے نام لیواﺅں کو حرفِ
غلط کی طرح مٹانے کے درپے ہے ۔لیکن بربریت اور ظلم و جبر کی جو روایت
اسرائیل کے صیہونی قائم کر رہے ہیں اس کی مثال تاریخ میں بھی کم کم ہی ملتی
ہے۔ غزہ کی پٹی فلسطینیوں کے لہو کے غازے سے سرخ ہے۔تازہ ترین حملوں میں اس
وقت تک 40 سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
ستم یہ کہ اس برائی کو جو طاقت سے روک سکتے ہیں۔انہیں اسلام سے کچھ لینا
دینا نہیں ہے۔انہیں اقتدار سے غرض ہے اور اقتدار ان کے پاس اللہ کی نہیں
امریکہ کی امانت ہے۔ تو ایسے میں کیا ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ جایا
جائے۔یہ منشائے پیغمبر ﷺکے خلاف ہے۔یہ غیرتِ مسلم کے خلاف ہے۔ یہ انسانیت
کے ادنیٰ معیار سے گری ہوئی بات ہے کہ ظلم کو ہوتے دیکھا جائے اور اسے
روکنے کی کوشش نہ کی جائے۔اسلام تو سلامتی کا دین ہے۔امن و آشتی کا دین
ہے۔اسلام تو کسی طورکسی انسان تو کیا کسی جانور پر بھی تشدد کی اجازت نہیں
دیتا اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی بات کرتا ہے تو پھر ہم اپنے مسلمان بھائیوں
کے خونِ ناحق پہ اپنی آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم مسلمان نہیں یا
مسلمانوں کے عالمی قتل ِ عام نے ہمیں بے حس بنا دیا ہے۔
اب تو عالم یہ ہے کہ ہم اس ظلم کو دل سے بھی برا نہیں جانتے۔ پہلے تو
پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا ملالہ ہی سے فارغ نہیں اگر غزہ کی کوئی خبر آ
بھی جائے تو ہم وہ چینل ہی بدل دیتے ہیں ۔ حالانکہ کسی غلط بات کو صرف دل
سے برا جاننا کمزور ایمان کی نشانی ہے۔اسلام تو ظلم کو بزورِ طاقت روکنے کا
حکم دیتا ہے لیکن طاقت ہو تب ناں۔مسلم امہ کے حکمران تو الماس بوبی کے
بھائی بند ہیں بلکہ ممکن ہے الماس بوبی بھی انہیں اپنی کیٹیگری میں شامل
کرنے پہ معترض ہو۔ |