کامیابی حدود کی پا بندی میں
ہے:حضور سرور کونین ﷺ نےزندگی کے جو طریقےاور انداز دئیے ہیں، میرے آقا ﷺنے
جو حدود مقرر کی ہیں، جو اسلام نے حدود مقرر کی ہیں، جب تک اُس کے مطابق
چلیں گے تو ہم اپنی زندگی اور موت کو حلال کرلیںگے، اگر اس کے مطابق نہیں
چلیں گے تو یہ زندگی اس جانور کے مطابق ہوگی جو بغیر تکبیر کے مرگیا یا ذبح
کردیا گیا۔
مجھے یہ بتائیں ہم سب کی انتہا آخرموت ہے،کیا اس میںکوئی شک ہے؟ساری دنیا
میں جتنے بھی لوگ آپ کو نظر آئیں گے‘ کوئی رب کو نہیں مانتا ، کوئی رسول اﷲ
ﷺ کو نہیں مانتا، کیا کہیں کوئی ایسا بھی ملے گا جو موت کو نہ مانتا ہو؟
موت کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
خاتمہ بالخیر کی دعا ضرور مانگا کریں:میرے دوستو! جب مرنا ہے تو تکبیر کے
ساتھ مریں بغیر تکبیر کے نہ مریں۔ تکبیر کسے کہتے ہیں ؟کہ آخری وقت میںاللہ
کا نام نصیب ہوجائے اور کلمہ مل جائے، خاتمہ بالخیر ہوجائے اور ایک حدیث
مبارکہ کا مفہو م میں نے کئی مرتبہ آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے، یاد دہانی
کے طور پر اب پھر عرض کردیتا ہوں۔ سرور کونین ﷺ نے فرمایا: ’’جب بندہ یہ
دعا کرتا ہے کہ یا اﷲ! میرا خاتمہ بالخیر کردے، میرا خاتمہ ایمان پر کردے
اس دعا کی وجہ سے شیطان کو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ اس کی ہڈیاں چٹختی اور
ٹوٹتی ہیں وہ سرپر خاک ڈالتا ہے۔ وہ نالہ و فریاد اورہائے ہائے کرتا ہے اور
دیواروں سے ٹکریں مارتا ہے اور کہتا ہے ساری دعائیں کرلیکن یہ دعا نہ کر‘‘۔
کیوں کہ مومن کی ساری زندگی کی انتہا اس کا خاتمہ بالخیرہے۔ کیا خیال ہے اﷲ
والو! ساری زندگی کی انتہا، سارے اعمال کا نچوڑ اور کرتا دھرتا کا
ساراکھٹیاو ٹیا، سارے کا سارا خاتمہ بالخیر ہے اور یہ شیطان کیوں چاہے گا
کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہوجائے۔ یہ تو وہ کبھی نہیں چاہے گا، اس کی تو کوشش
ہوگی کہ اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہو، ایمان و اعمال کی حالت میں جو موت آتی
ہے وہ نہ ہو۔ ذرا آپ فیصلہ کرکے بتائیں۔۔۔ آپ جتنے حضرات یہاں جمع ہیں ،آپ
جتنے حضرات تشریف فرما ہیں ایک بات مجھے دل کی گہرائیوں سے بتائیں کہ تکبیر
کے ساتھ مرنا چاہتے ہیں یا بغیر تکبیر کے؟
آنے کی ترتیب ،جانے کی کوئی نہیں :موت تو آنی ہے! اس میںشک نہیں ۔پھر آنے
کی ترتیب ہے جانے کی ترتیب ویسی نہیں۔ آنے کی ترتیب یہ ہے دادا آیا ہے، باپ
آیا،پھر بیٹا آئے گا اور جانے کی ترتیب یہ ہے دادا بیٹھا ہوا ہے اورپوتا
جارہا ہے ،اس لیے آنے کی ترتیب ہے، جانے کی ترتیب نہیں ہے، یہ ایک اٹل
حقیقت ہے۔ کڑیل جوان اور چھوٹے بڑے ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہوئے جارہے‘
ایسے لوگ جو کہتے تھے ہمیں فرصت نہیں ہے اور جن کی مصروف زندگی نے انہیں
اور مصروف کردیا تھا ،ہماری آنکھوں کے سامنے مرے جارہے، اب جب موت آنی ہے
اور یہ بات طے ہوگئی کہ یہ حقیقت ہے، پھر موت کیلئے تیاری کیوں نہ کریں ؟
ایسی موت جس کو ’خاتمہ بالخیر‘ کہتے ہیں اور ایسی موت جو تکبیر والی موت ہے
اور وہ کس وقت آئے گی؟ یہ بتادوں آپ کو۔۔۔ اس وقت آئے گی جس وقت اپنا
اختیار نہیں ہوگا ،ذرا سوچیں!تھوڑی سی اونگھ آتی ہےتواپنا اختیار ختم
ہوجاتا ہے۔ نیند بے ہوشی ہے۔ کیا خیال ہے؟ کسی کی نیند کچی، کسی کی پکی،
کسی کی بے ہوشی تھوڑی…کسی کی زیادہ…بے ہوشی کا عالم تو یہ ہے کہ اوہو !یہ
وقت ہوگیا، بے ہوشی کا عالم تو یہ ہے کہ یہ وقت کہاں گیا؟ یہ چار گھنٹے
،پانچ گھنٹے، آٹھ گھنٹے جو نیند میں گزارے ہیں یہ کہاں گئے؟ پتہ ہی نہ چلا۔
آپ یہ بتائیں نیند کے عالم میں آپ کو کسی چیز کا پتہ نہیں چلتا اور جب موت
کا عالم ہوگا اس وقت کیسے پتہ چلے گا؟۔
اچھا! ایک چیز کو ذہن میں رکھیں ذرا اس چیز کو سوچیں اور پھر دل ہی دل میں
خود سے سوال کریںاور خودہی جواب دیں۔ ہوش کے عالم میں (اس وقت ہوش میں ہیں‘
شعور میں ہیں‘ احساس و ادراک میں ہیں) کیا خیال ہے؟ جب اسٹامپ لکھنے بیٹھتے
ہیں، اس میں یہ لکھتے ہیں کہ میں باہوش و حواس حلفیہ بیان دیتا ہوں۔۔۔ یعنی
اس وقت ہوش و حواس میں ہوں۔ ہوش و حواس میں ہم شیطان سے نہیں بچ سکتے۔ جس
وقت نزع کی کیفیت میں ہم ہوش و حواس میں نہیں ہونگے‘ اس وقت ہم کیسے بچیں
گے؟ سوچیں! جب نزع کی کیفیت ہوگی اور سکرات کی کیفیت ہوگی اور جان نکل رہی
ہوگی‘بے بسی کا عالم ہوگا‘ مجھے یہ بتائیں !اس وقت شیطان سے کیسے بچیں گے؟
معلوم ہوا ایک طاقت ہے، ایک قوت ہے جو شیطان سے اب بھی بچا سکے گی اور موت
کے وقت بھی بچا سکے گی اور اُس وقت وہ شخص بچے گاجوزندگی بھر اﷲ جل شانہٗ
کی ذات عالی کی طرف متوجہ رہاہوگا جو رسول اﷲﷺ کی زندگی کی طرف قد م بڑھانے
والاہوگا۔۔۔۔ صرف و ہی بچے گا۔
موت کی کیفیت اپنے حال سے جانیں:جس کو طلب نہ ہو، جس کے اندر تڑپ نہ ہو اور
وہ یہ چاہے کہ مجھے کچھ مل جائے ایسا بظاہر نا ممکن ہے، آپ اس چھوٹے سے
نکتے کو سمجھ لیں! کہ جس وقت ہم ہوش و حواس میں ہیں اس وقت بھی نفس اور
شیطان ہمیں وسوسے اور چکمے دے کر ہم سے پتہ نہیں کیاسے کیا کرالیتا ہے اور
جس وقت ہماری ہوش نہیں ہوگی، ہمارے حواس نہیں ہونگے، ہماری سوچ نہیں ہوگی
ہماری سمجھ نہیں ہوگی اور نزع کی کیفیت ہوگی اور اس وقت ہماری کسمپرسی کی
حالت ہوگی، آنکھ ہوگی لیکن دیکھ نہ سکے گی اور زندہ بھی ہوگی، آنکھ حالتِ
نزع میں زندہ ہوتی ہے لیکن دیکھ نہیں سکتی ،زبان ہوتی ہے اور اس میں روح
بھی ہوتی ہے لیکن بول نہیں سکتی ،کیا خیال ہے؟ ارے! شعور، بظاہر دماغ کے
اندر ہوتا ہے، لیکن اس کے احساسات ختم ہوچکے ہوتے ہیں، اس وقت شیطان سے
کیسے بچیں گے اور اس وقت خاتمہ ایمان پر کیسے ہوگا؟ اور خاتمہ ایمان کی
کیفیت کیا ہوگی؟
ہفتہ وار درس سے اقتباس |