اس خاندان کا بچہ بچہ اپنے
کردار و گفتار میں اپنی مثال آپ ۔انہی میں سے ایک نام سیدا لشہداء حضرت
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔جن کی ولادت 5 شعبان 4ھکو مدینہ منورہ میں
ہوئی۔حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کانام حسین
اور شبیر رکھا اور آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب سبط رسول اللہ اور
رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل ہے اور آپ کے برادرِ معظم کی طرح آپ کو بھی جنتی
جوانوں کا سردار اور اپنافرزند فرمایا۔(اسد الغابۃ، باب الحاء
والحسین،۔الحسین بن علی،ص،ملتقطاً)
حضور اقدس نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے ساتھ کمال
رافت و محبت تھی۔ حدیث شریف میں ا ر شادہوا: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَنْ
اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ
۔(المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ ، باب رکوب الحسن...)
''جس نے ان دونوں (حضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے
محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت
کی۔ ''
یہ وہی نواسئہ رسول ہیں ۔جنکا حسب نسب دنیا کے تمام نسبوں سے اعلی ۔جن
کاگھرانہ تمام گھرانوں سے افضل ۔جن کی ہرہرادا شریعت مصطفی ۔شہزادیئ رسول
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے ہاں ولادت پانے والا یہ ننھاسا پھول
۔جس کی خوشبو سے زمانہ معطر معطر ہوا۔ خوش بخت ،خوش نصیب بچہ جس کا بچپن
تمام انبیاء کے سردار احمد مختار محمد عربی ؐ کے دامن رحمت میں گزار ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر !حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کے
ساتھ ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر مشہور ہوچکی، شیر خوار گی
کے ایام میں حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ام
الفضل کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبردی، خاتون جنت رضی اللہ
تعالیٰ عنہانے اپنے اس نونہال کو زمین کربلا میں خون بہانے کے لیے اپنا
خونِ جگر (دودھ) پلایا، علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دل
بندِجگرپیوند کو خاک کربلا میں لَوٹنے اور دم توڑنے کے لئے سینہ سے لگا کر
پالا، مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بیابان میں سوکھا حلق
کٹوانے اور را ہِ خداعزوجل میں مردانہ وارجان نذر کرنے کے لئے امام حسین
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی آغوشِ رحمت میں تربیت فرمایا، یہ آغوشِ کرامت
و رحمتِ فردوسی چمنستانوں اور جنتی ایوانوں سے کہیں زیادہ بالامرتبت ہے، اس
کے رتبہ کی کیا نہایت اور جو اس گود میں پرورش پائے اس کی عزت کاکیااندازہ۔
اس وقت کا تصور دل لرزا دیتا ہے جب کہ اس فر زند ِارجمندرضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی ولادت کی مسرت کے ساتھ ساتھ شہادت کی خبر پہنچی ہوگی، سید عالم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی چشمہ رحمت چشم نے اشکوں کے موتی برسا دئیے
ہوں گے، اس خبر نے صحابہ کبار جاں نثار انِ اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم
کے دل ہلا دئیے، اس درد کی لذت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل سے
پوچھئے، صدق وصفا کی امتحان گاہ میں سنتِ خلیل علیہ السلام ادا کررہے ہیں۔
حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خاک ِزیرِ قدمِ پاک پر قربان! جس
کے دل کا ٹکڑا ناز نین لاڈلا سینہ سے لگاہوا ہے، محبت کی نگاہوں سے اس نور
کے پتلے کو دیکھتی ہیں، وہ اپنے سرور آفریں تبسم سے دلربائی کرتاہے، ہُمَک
ہُمَک کر محبت کے سمندر میں تلاطم پیدا کرتا ہے، ماں کی گود میں کھیل کر
شفقتِ مادری کے جوش کو اور زیادہ موجزن کرتاہے، میٹھی میٹھی نگاہوں اور
پیاری پیاری باتوں سے دل لبھاتا ہے، عین ایسی حالت میں کربلا کا نقشہ آپ کے
پیش نظر ہوتا ہے۔ جہاں یہ چہیتا ، نازوں کا پالا، بھوکا پیاسا، بیابان میں
بے رحمی کے ساتھ شہید ہورہا ہے، نہ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ
ہیں نہ حسن مجتبیٰ، عزیز واقارب برادر و فرزند قربان ہوچکے ہیں، تنہا یہ
نازنین ہیں، تیروں کی بارش سے نوری جسم لہو لہان ہورہاہے، خیمہ والوں کی بے
کسی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور راہِ خداعزوجل میں مردانہ وار جان نثار
کرتاہے۔کربلا کی زمین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پھول سے
رنگین ہوتی ہے، وہ شمیم پاک جو حبیب ِخداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کو پیاری تھی کوفہ کے جنگل کو عطر بیز کرتی ہے، خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ
عنہاکی نظر کے سامنے یہ نقشہ پھر رہاہے اور فرزند سینہ سے لپٹ رہاہے۔حضرت
ہاجرہ علیہا السلام اس منظر کو دیکھیں۔
دیکھنا تو یہ ہے کہ اس فرزند ِارجمند کے جَدِّ کریم، حبیب ِخدا صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم ہیں، حضرت حق تبارک و تعالیٰ ان کا رضا جو ہے :
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا
کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔ (پ٣٠ ، سورالضحی ،آیت٥)
بروبحر میں ان کا حکم نافذ ہے، شجر وحجر سلام عرض کرتے ہیں اور مطیعِ فرمان
ہیں، چاند اشاروں پر چلا کرتاہے، ڈوبا ہوا سورج پلٹ آتا ہے،بدر میں ملائکہ
لشکری بن کر حاضر خدمت ہوتے ہیں، کونین کے ذرہ ذرہ پر بحکم الٰہی عزوجل
حکومت ہے، اولین و آخرین سب کی عُقْدَہ کُشائی اشارہ چشم پر موقوف و منحصر
ہے، ان کے غلاموں کے صدقہ میں خَلْق کے کام بنتے ہیں، مددیں ہوتی ہیں، روزی
ملتی ہے ۔اس فرزند ارجمند کی خبرِ شہادت پاکر چشمِ مبارک سے اشک تو جاری ہو
جاتے ہیں مگر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دعا کے لئے ہاتھ نہیں
اٹھاتے، بارگاہِ الٰہی عزوجل میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امن
وسلامت اور اس حادثہ ہائلہ سے محفوظ رہنے اور دشمنوں کے بربا د ہونے کی دعا
نہیں فرماتے، نہ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتے ہیں کہ یارسول
اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس خبر نے تودل و جگر پارہ پار ہ
کردئیے، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قربان! بارگاہِ حق میں اپنے
اس فرزند کے لئے دعا فرمائیے۔ نہ خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا التجا
کرتی ہیں کہ اے سلطان دارین! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فیض سے
عالَم فیض یاب ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعا مستجاب۔
میرے اس لاڈلے کے لئے دعا فرمادیجئے، نہ اہل بیت نہ ازواجِِ مطہرات نہ
صحابہ کرام علیہم الرضوان۔سب خبر شہادت سنتے ہیں، شہر ہ عام ہوجاتا ہے مگر
با رگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں کسی طرف سے دعا کی
درخواست پیش نہیں ہوتی۔
بات یہ ہے کہ مقامِ امتحان میں ثابت قدمی درکارہے، یہ محل عذروتا مل نہیں،
ایسے موقع پر جان سے دَرِیْغ جانباز مردوں کا شیوہ نہیں، اخلاص سے جاں
نثاری عین تمنا ہے۔ دعائیں کی گئیں مگر یہ کہ یہ فرزند مقامِ صفاو وفا میں
صادق ثابت ہو۔ تو فیقِ الٰہی عزوجل مُساعِدْ رہے، مصائب کا ہجوم اور آلام
کا اَنْبوہ اس کے قدم کو پیچھے نہ ہٹا سکے۔
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ حضور
انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل نے خبر دی کہ
میرے بعد میر ا فرزند حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمینِ طَفّ میں قتل کیا
جائے گا اور جبریل علیہ السلام میرے پاس یہ مٹی لائے، انہوں نے عرض کیا کہ
یہ (حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی خوابگاہ (مَقْتَل) کی خاک ہے۔ طف قریب
کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں۔(المعجم
الکبیرللطبرانی،الحدیث:٢٨١٤،ج٣،ص١٠٧)
والد گرامی امام حسین ،شیرِخدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مرتبہ
میدان کرب و بلاسے گزرہواتوآئندہ ہونے والے غمناک واقعہ کی نشاندہی فرماتے
ہوئے اپنے شہزادے کی شہادت گاہ کے متعلق فرمایا:''یہاں ان شہداء کے اونٹ
بندھیں گے ،یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے ۔یہاں ان کے خون بہیں
گے۔جوانانِ آلِ محمد ؐ اس میدان میں شہید ہوں گے ۔آسمان و زمین ان پر روئیں
گے۔(دلائل النبوۃ ،لابی نعیم ،الفصل الخامس و العشرون،ج٢،ص١٤٧)
آہ !!!!!!آہ !!!!وہی ہوا جوبتایاگیا۔سچوں کے سچ کا عملی مظاہرہ آسمان ِ
دنیا نے دیکھا۔
لیکن آفرین صدآصدآفریں!
اللہ کے پاکباز بندوں کا یہ طریق ہے کہ وہ صابر و شاکر رہتے ہیں ۔یہاںپہاڑ
بھی ہوتا تو وَحْشَت سے گھبرا اٹھتا اور زندگی کا ایک ایک لمحہ کاٹنا مشکل
ہو جاتا مگر طالبِ رضائے حق، مولیٰ عزوجل کی مرضی پر فدا ہوتاہے، اسی میں
اس کے دل کا چین اور اس کی حقیقی تسلی ہے، کبھی وحشت ،پریشانی اس کے پاس
نہیں پھٹکتی، کبھی اس مصیبت عظمیٰ سے خلاص اور رہائی کے لئے وہ دعا نہیں
کرتا، انتظار کی ساعتیں شوق کے ساتھ گزارتا ہے اور وقتِ مَوْعُود کابے چینی
کے ساتھ منتظر رہتاہے۔پھر چشمک فلک نے وہ خونی منظر دیکھ ۔
بالآخر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسین و جمیل کردار پیش
کیا۔وہ کیاحالات تھے ؟۔وہ سفر کیسا سفر تھا؟کس کس نے چمن مصطفی کو نقصانان
پہنچایایاپہنچانے کی کوشش کی؟نہتے ،بھوکے پیاسوں نے کیا کردار پیش کیا؟کہاں
یہ واقعہ ظہور پزیر ہوا؟اپنے قلوب کو فیضانِ اہل بیت سے مستفید کرنے کے لیے
یہ سب جاننے کے لیے آپ انتظار کیجیے ۔بہت جلد نئے جذبہ اور نئی بامعنٰی
تحریر کے ساتھ حاضر ہونگے ۔
پھر بلا کربلا،یاشہ کربلا
اپنا روضہ دکھایاشہ کربلا
تیرے دربار کو اس کے انوارکو
آہ!کب پاؤں گایاشہہ کربلا
ایساپاؤں جنوں ،دھڑکنوں میں سنوں
کربلاکربلا،یاشہہ کربلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَتْمَمْتُ بِفَضَلِہِ وَبِکَرَمِہِ....................... |