جواں بیٹے کے لاشے پر فلسطینی
ماں کی آہ و بکاہ ،آج کے آخبار میں صفحہ اول پر یہ تصویر دیکھ کے کلیجہ منہ
کو آگیا سارا دن یہ تصویر میرے دماغ میں گھومتی رہی اور میں جہاں بھی بیٹھا
جس محفل میں بھی گیایہ تصویر مجھے بے چین کرتی رہی ،کرتی بھی کیوں نہ
آخرمیں بھی بچوں کا باپ ہوں ، بچوں کا دکھ ہر انسان کو موم کر دیتا ہے بچوں
پر ظلم اور وہ بھی جان لیوا ، آخر کیوں،اس تصویر نے اتوار کا سارا دن میری
سوچوں پر قبضہ کیے رکھا ، خدا کسی ماں کویہ دن نہ دیکھائے ۔ ایک ننھے پھول
نے اس دنیا کا کیا بگاڑ دیا تھا ،اس معصوم کلی نے کونسا ورلڈٹریڈ سینٹر کو
گرا دیا تھا ، جسکی اتنی بڑی سزا کا مستحق ٹھرا ،مگر یہ قصور اسکا ضرور تھا
کہ و ہ تھا خون مسلم ،مسلمانوں کے اصلاف اگر دنیا میں واپس آجائیں اور آج
کے مسلم معاشروں کی پستی دیکھیں تو شرم سے پانی پانی ہوجائیں ، ہو سکتا ہے
ان میں واپسی کی سکت نہ رہے،قارئین سوچنے کی بات ہے ہم اتنا پستی میں کیوں
گر گئے کہنے کو ، ہم مسلمان اربوں میں ہیں ،مگر سچ تو یہ ہے کہ سینکڑوں میں
بھی نہیں ،تن آسانی نے انکے دماغ خراب کر دیے اپنی چوکھٹ کے علاوہ انکو کچھ
نظر نہیں آتا ، اور اپنی چوکھٹ کوبھی خطرہ ہوتو یہ دھنیا پی کر سو جاتے
ہیں،صدیوں پہلے کا واقعہ ہے ،افغانستان جو اس وقت تک غیرمسلم تھا ، اسکا
بادشاہ مسلمانوں کو جزیہ دیتا تھا پھر اس نے یہ جزیہ دینا بند کر دیا ،مسلمانوں
کا ایک وفداسکے پاس آیا تو اس نے جزیہ نہ دینے کی وجہ پوچھی ، افغانستان کے
غیر مسلم حکمران کا جواب تھا کہ پہلے جو جزیہ لینے آتے تھے وہ بے رونق
چہروں والے ،پٹخے پیٹوں والے تھے لباس برائے نام کا تھا انکا، مگر وہ صاحب
کمال لوگ تھے ، اور تم دیکھنے میں موٹے تازے ہو، لباس کمال نفاست کا ہے مگر
مجھ کو تم پر ایک رتی برابر بھروسہ نہیں ، لہذا مجھ سے کسی جزیہ کی توقعہ
نہ رکھنا ، پھر مسلمان اسکی زندگی میں اس سے جزیہ نہ لے سکے ، اب یہ ہی
صورتحال ہم کو درپیش ہے ۔ نام کے تو ہم مسلمان ہیں مگر آگے کچھ نہ
پوچھو۔مجھ سے لیکر آپ تک اور آپ سے لیکر ہرطرف ،اوپر سے نیچے تک ، مشرق سے
مغرب تک شمال سے جنوب تک ہم ہیں تو مسلم مگر نکمے ترین مسلمان اور پتہ نہیں
یہ داغ کبھی دھل بھی پائے گا یہ نہیں،اقبال نے سوفیصد درست کہا یہ مسلم ہیں
جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ،ہمارے بزرگوں نے جو رعب دبدبہ شان و شوکت
ہمارے حوالے کی وہ توپتہ نہیں کہاں گم کر بیٹھے ،آج حالت یہ ہے کہ مسلمان
اس روے زمین پر ہر جگہ زلیل ورسوا ہو رہا ہے مگر بے شرمی اور ڈھٹائی کا یہ
عالم ہے کہ اللہ کا پناہ ،اب تو لگتا ہے شرم وحیا کا نام تک ہم نہیں جانتے،
دنیا کے ہر خطے میں موجود مسلما ن اس صورتحال سے پریشان مگر اپنی اصلاح سے
لاپروہ ، اسکے بعد پھر توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے زرا دماغ پر زور ڈالیں
اور اس روے زمین پر اس خطے نام تو بتائیں جہاں مسلمان قابل رشک حالت میں
ہیں ،سب سے بڑھ کر ہمارے سب سے محترم عرب حکمران جو ہر پاکستانی حکومت کی
آنکھ کا تارہ ہوتے ہیں ۔ مگر اسلام کے بارے میں انکی حکمت عملی ناقابل بیان
، کھربوں ڈالر کے عرب تیل کے اساسوں والے حکمران نفس کی پوجا میں لگے ہوئے
ہیں انکے بنک بیلنس میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے چاہے یہ مسلمانوں کی لاشیں
بیچ کر ہی ہو۔
پتہ نہیں یہ خواب غفلت سے کب جاگیں گے ، کیونکہ نہ یہ خود ہوش کے ناخن لیتے
ہیں اور نہ اپنے لوگوں کو لینے دیتے ہیں،انکل سام انکے دماغوں میں سوار
ہے،بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے کہ یہ انکے پالتو ہیں تو یہ بھی کم نہ ہو گا ،
کچھ یہ ہی عالم ساری دنیا کے مسلمانوں کا یہ ، اگر کوئی پیدا ہو تو یہ خود
اسکو زندہ گاڑ دیتے ہیں ہزاروں مثالیں تاریخ کے اوراق میں دفن ہیں کبھی
فرصت ملے تو انکو پڑھیں ،مصر کے حسن البنا سے لیکر قطب شہد تک اور اقبال سے
لیکر مودودی تک ہم نے صاحب کمال لوگوں کی انکی زندگی میں کس طرح درگت بنائی
۔ دور حاضر میں کشمیرکے سید علی گیلانی جیسا مرد درویش ، کبھی نظر تو
دوڑائیں ، دیکھیں ہم نے کس بے قدری کی ان لوگوں کی ، سب سے کمزور مرغی کو
ہی لے لیں اسکے بچے کو ہاتھ لگائیں اور پھر دیکھیں نرم نازک مرغی کس طرح
اپنے بچوں کے دشمنوں سے بدلہ لیتی ہے ،اور ایک ہم ہیں، جو ساتوں براعظموں
میں اربوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اور حالت ہماری یہ کہ ہم کبوتروں
کی طرح آنکھیں بند کر کے پروں میں لیے بیٹھے ہیں اور یہ تصور کیے بیٹھے ہیں
کہ بلی ہمیں کچھ نہیں کہے گی ، اسکو اب میں خام خیالی نہ کہوں تو کیا کیا
نام دوں ،دل رو رو کے دہائی دیتا ہے او،،،،،،،مسلمانوں او،،،،،،،،، یورپ سے
ایشیا تک آسڑیلیا سے انٹارکٹکا تک پھیلے مسلمانوں سب ہوش کر اپنی گردنیں
سیدھی کر کے دیکھو، بات بچوں تک پہنچ گئی ہے - |